
اس وقت مسلم دنیا جن حالات سے دوچار ہے، وہ سب کو معلوم ہیں اور روزمرہ مشاہدے اور تجربے میں ہیں۔ واقعاتی سطح پر حالات کے بارے میں ایک عمومی اور غیر رسمی اتفاق پایا جاتا ہے کہ بہت خراب ہیں، اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ مزید خرابی کی طرف جارہے ہیں۔ لیکن اس بارے میں آراء بہت زیادہ مختلف ہیں اور شدت سے مختلف ہیں، کہ یہ حالات کیوں پیدا ہوئے، ان کے اسباب کیا تھے اور ان سے نکلنے کا کیا راستہ ہے؟ ہمارا زوال اور انتشار ایسا موضوع ہے، جس نے ہماری دینی روایت اور علوم کو بہت گہرے طریقے سے متاثر کیا ہے اور ساتھ ہی جدیدیت اور جدید دنیا کے بارے میں ہمارے خیالات کی تشریط کی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف ہمارا زوال اور شکست گہری ہوئی ہے، بلکہ ہماری دینی تعبیرات اور علوم کے انتشار میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ زوال و انتشار اور مغربی غلبے کی صورت حال میں ایک اہم پہلو مسلم معاشروں کے انتخاب کا بھی تھا، جو ہم عصر مسلم دنیا میں اہمیت کا حامل ہے اور نتائج بھی پیدا کرتا ہے۔ سردست اسی کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وہ انتخاب کیا تھا اور ہم عصر دنیا میں اس کی کیا معنویت ہو سکتی ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں اور پہلی جنگ عظیم کے آس پاس، ترک ، عرب اور برصغیر کے مسلم معاشروں کو ایک ہی سوال کا براہ راست سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ تھا کہ تبدیل شدہ اور جدید دنیا میں مسلم معاشروں کے اجتماعی، سیاسی اور معاشی نظام میں اسلام کی کیا جگہ ہوگی؟ اس سوال کو اور سادہ بنایا جائے تو یہ کہ جدید عہد میں اسلام کی کوئی سیاسی معنویت بھی ہے یا نہیں؟ یہ سوال مسلمانوں کے عقائد، عبادات، معاشرت وغیرہ سے فوری طور پر اور براہ راست متعلق نہیں تھا، اور اس کا زور اسلام کی سیاسی حیثیت متعین کرنے تک محدود تھا۔ ان تین مسلم معاشروں نے اس چیلنج کا سامنا کیا اور اس پر جو پوزیشن اختیار کی وہ آج بھی نتیجہ خیز ہے اور ان معاشروں کے حالات سے براہ راست جڑی ہوئی ہے اور ان کے سیاسی عمل پر مسلسل اثرانداز ہو رہی ہے۔ ان معاشروں کے انتخاب کو دیکھنا اور ہم عصر دنیا کے سیاسی تناظر میں اسے زیر بحث لانا اہم ہے۔
مختصراً پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ سوال کیوں پیدا ہوا؟ یہ سوال مغرب کے استعماری غلبے، جدید تعلیم کے اثرات اور جدید علم کی غیر معمولی فتوحات سے پیدا ہوا تھا۔ جدید علم سے لیس اور سیاسی طور پر طاقتور مغرب کا بنیادی موقف یہ تھا کہ مذہب ایک نجی مسئلہ ہے اور انسان کی کسی انفرادی، سماجی اور اجتماعی شناخت کا منبع اور معرف (definer) نہیں ہے۔ بیسوی صدی کے اوائل تک سیکولر مغرب نے مذہب کو شکست دے کر اسے معاشروں کے اجتماعی عمل یعنی سیاسی اور معاشی نظام سے بے دخل کر دیا تھا اور اپنے پورے تہذیبی نظام کی جدید تشکیل، سیکولر افکار پر مکمل کر لی تھی۔ لیکن مغرب نے شکست خوردہ عیسائیت کو اپنے عالمگیر سیاسی ایجنڈے میں نوکری پر رکھ لیا تھا، تاکہ مغلوب دنیا میں اپنے استعماری ایجنڈے اور جرائم کو جواز دینے کے لیے استعمال میں لاتا رہے۔ مغرب کے اس موقف میں زیادہ اصرار اس بات پر تھا کہ مذہب کی اجتماعی معاملات میں کوئی جگہ نہیں ہے، یعنی معاشروں کے سیاسی اور معاشی نظام میں مذہب کی کوئی گنجائش سرے سے ہے ہی نہیں۔ اگر اس موقف کو بالکل ہی سادہ بنایا جائے تو یہ کہ کسی بھی معاشرے میں مذہب انسان کی سیاسی شناخت کے حوالے سے قطعی غیر اہم ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ سوال وجودی نوعیت کا تھا اور ہے، اور بطور مسلمان ان کی بقا سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے ان تین مسلم معاشروں نے اس کا کیا جواب دیا؟ اور یہ جواب بعدازاں ان معاشروں کی سیاسی نمو اور ارتقا پر کیسے اثر انداز ہوا؟
پہلی جنگِ عظیم کے معاً بعد اس سوال کے روبرو ترک معاشرے کا جواب اور انتخاب یکمشت، دوٹوک اور شدید تھا۔ مصطفی کمال کی قیادت میں ترک فرماں روا طبقے نے، جو اناطولیہ کی جغرافیائی وحدت اور ترکوں کی سیاسی آزادی کو بچانے میں کامیاب رہا تھا، ایک بالکل ہی، سخت گیر اور قطعی فیصلہ کیا۔ انہوں نے تاریخ سے مکمل انقطاع کا فیصلہ کیا۔ بعدازاں اس انقطاع کو ایک واقعاتی سماجی حقیقت بنانے کے لیے مکمل ترین ریاستی جبر کو استعمال کیا گیا۔ ترک فرماں روا طبقے کے فیصلے سے قومی شناخت ’’ترک قوم پرستی‘‘ پر قائم ہوئی، اور سیاسی عمل کی بنیاد سیکولرازم قرار پایا۔ سادہ لفظوں میں ترک فرمانروا طبقے نے اسلام کو ارادتاً تَرک کردیا، اور اس کے سماجی مظاہر کو نابود کرنے کے منصوبے پر مسلسل عمل کا آغاز کیا۔ ترک زبان کی مکمل تشکیلِ نو کی، تاکہ ماضی کی طرف کھلنے والے ہر دروازے کو بند کیا جاسکے۔ اپنے تصورِ حیات اور سیاسی ورلڈ ویو کے طور پر فرانس سے درآمد شدہ ایک عسکریت پسند سیکولرازم کو اختیار کیا۔ یہ سیکولرازم ترک مسلم معاشرے پر پیوند نہیں تھا، بلکہ سرجری کے ذریعے اعضا کی تبدیلی سے مماثل تھا۔ یہ ترک معاشرے میں آنے والی معمول کی تبدیلی نہیں تھی، جو تاریخی عمل میں سامنے آئی ہو۔ اس میں بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ترک معاشرہ تاریخ اور مذہبی روایت میں گھرا ہوا تھا اور طاقت کے ریاستی نظام کی جبری تشکیل جدید سیکولر تصورات پر کی گئی تھی۔ اس انتخاب سے جدید اور سیکولر ترک ریاست اور روایتی معاشرے میں تناقص اور تضاد کی ایک مستقل صورتحال پیدا ہو گئی تھی، اگرچہ جدید ریاست اپنی سیکولر ترجیحات کو معاشرے پر نافذ کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہی، لیکن اس سے ترک معاشرے اور ریاست میں ایک ایسے جدلیاتی عمل کا آغاز ہوا جو ان کی مابعد تاریخ کے انجن کی حیثیت رکھتا ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ترک فرماں روا طبقے کا یہ فیصلہ آج سو سال بعد بھی ترک اجتماعی عمل کا بنیادی ترین معرف (Definer) ہے۔ اس فیصلے نے گزشتہ ایک صدی میں ترک معاشرے کی نمو اور ارتقا کے عمل کو ’’نارمل‘‘ نہیں رہنے دیا۔ اس فیصلے کے بعد ترک معاشرہ جزوی طور پر ہی جدید بن سکا اور مجموعی طور پر ایک مسخ شدہ معاشرے کی صورت اختیار کر گیا، کیونکہ سیاسی جبر، معاشی استحصال، سماجی انتشار، عدم استحکام، خانہ جنگی کی صورتحال اور مغربی مغلوبیت اس کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہوگئے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں اے کے پارٹی کی سیاسی حکومت نے اس وجودی بحران سے نکلنے کے لیے اگرچہ بہت ریڈیکل اقدامات کیے، لیکن ان کے حتمی نتائج کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید سیکولر ریاست اور روایتی مذہبی معاشرے کے خوں ریز کشمکش کو حل کرنے میں ایردوان حکومت نے غیر معمولی جدوجہد کی ہے۔
مختصر یہ کہ بیسوی صدی کے اوائل میں ترک ریاست اور اس کے فرماں روا طبقے نے اسلام کو رَد کر دیا، اور مغربی سیکولرازم کو سیاسی ورلڈ ویو کے طور پر اختیار کیا، اور تاریخی اور تہذیبی روایت سے انقطاع کو ایک ریاستی پالیسی کے طور پر روا رکھا۔ مابعد ترکی اس فیصلے کا حاصل ہے۔ فی الوقت ہم یہ بحث نہیں اٹھا رہے کہ ترک فرماں روا طبقے نے عمومی ترک معاشرے کی ترجیحات کو نظرانداز کرکے ہی یہ موقف اختیار کیا تھا اور یہ معاشرہ ایک صدی سے اسی فیصلے کی قیمت ادا کررہا ہے۔
پہلی جنگِ عظیم کے معاً بعد، عرب معاشرے کو بھی بعینہٖ یہی سوال درپیش تھا۔ عرب دنیا کا فیصلہ منقسم لیکن اپنے لب لباب میں وہی تھا جو ترک معاشرے نے کیا تھا۔ عرب دنیا کے روایتی اور بڑے تہذیبی مراکز میں سامنے آنے والے سیاسی عمل کی بنیاد بعثی تصورات سے تشکیل پانے والی عرب قوم پرستی پر رکھی گئی اور کم گنجان آباد قبائلی معاشروں میں ملوکیانہ تصورات کو جدید ریاست کے مذہبی تعزیرات سے کانٹھ دیا گیا تاکہ سیاسی جبر کو مذہبی قانونی اساس فراہم کی جاسکے۔ بعثی عرب قوم پرستی ایک نسل پرستانہ اور سیکولر سیاسی نظریہ ہے اور اس پر کاربند عرب قوم پرستوں نے اسلام کو ایک سیاسی تصور کے طور پر بالفعل رَد کر دیا اور اپنے ملکوں کے سیاسی عمل کی بنیاد بعثی سیکولر نظریے پر استوار کی۔ عرب معاشرے سے مذہب کے انخلا اور معاشرے کو جدید بنانے کے لیے انہوں نے ترکی ریاست جیسی پالیسیاں اختیار کیں۔ یہ کسی تاریخی اور روایتی تسلسل کا نام نہیں ہے، بلکہ اس سے جڑے ہوئے سیاسی افکار انقطاع کے عمل کو توسیع دے کر جغرافیے میں بھی موثر کر دیتے ہیں۔ سیکولرازم روایت سے انقطاع کو معاشرے، تاریخ اور علم میں واقعاتی بنادیتا ہے۔ ’’انقطاع‘‘ کا تصور سیکولرازم سے بھی زیادہ شدید اور گہرا ہے۔ یہ انقطاع محض کی تشکیل ہے، جو تاریخ کے دائرے میں ممکن ہی نہیں اور فوراً تشدد کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ عرب معاشرے میں بعث قوم پرستی اور ملوکیت اجتماعی سیاسی عمل کی بنیاد بنے اور عربوں کی قومی شناخت کو بعثی عرب قوم پرستی پر استوار کیا گیا۔ عملاً اس کا بھی عین وہی نتیجہ نکلا جو ترکی میں سامنے آیا۔ عرب معاشرے بھی مسلسل سیاسی جبر، عمومی معاشی استحصال، عدم استحکام، انتشار اور مغربی غلبے کا شکار رہے۔ آج کی عرب دنیا ان فیصلوں کا حاصل ہے جو عربوں نے جنگِ عظیم اول کے فوراً بعد استعمار کی نگرانی میں یا اس سے سازباز میں کیے۔
ابھی تک ہم نے جو بات عرض کی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بیسوی صدی کے اوائل میں ترک اور عرب معاشروں نے جو فیصلے کیے وہ معمولی ظاہری فرق کے ساتھ تقریباً ایک جیسے تھے۔ ان دونوں مسلم معاشروں میں قائم ہونے والے ریاستی نظام اور اس کو کنٹرول کرنے والے فرماں روا طبقے نے اسلام کو اجتماعی سیاسی اور معاشی امور سے بے دخل کر دیا، اور اسے ایک سیاسی ورلڈ ویو کے طور پر مسترد کر دیا۔ آج کی عرب دنیا جس صورتحال سے دوچار ہے وہ اس فیصلے کا حاصل ہے۔ اجتماعی سیاسی نظام کی حیثیت معاشرے میں سر کی طرح ہوتی ہے۔ سیاسی نظام کی اساس سیکولرازم پر منتقل ہونے کی وجہ سے اناطولیہ اور مشرق وسطیٰ کے مسلم معاشرے سربریدہ معاشروں میں تبدیل ہو گئے۔ سربریدہ معاشرے استعماری گِدھوں کی نہایت مرغوب غذا ہے، بلکہ ان کی یہی غذا ہے۔ بیسوی صدی کے آغاز سے مسلم تہذیب کا مرکزی جغرافیہ ان گِدھوں کی روئے ارض پر سب سے بڑی آماجگاہ بن گئی۔
بیسوی صدی کے اوائل میں برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی صورتحال ترکوں اور عربوں سے کہیں ابتر تھی۔ ہندوستانی مسلم معاشرہ گزشتہ دو صدیوں سے سیاسی انتشار، عمومی طوائف الملوکی، ایرانی غارت گری، مرہٹہ سیادت گیری، گہری فرقہ واریت، جنگی شکست، استعماری ملک گیری اور غلامی اور سنگین معاشرتی انتشار سے دوچار تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو استعمار کے غلبے میں رہتے ہوئے آئندہ ہندو غلبے کے یقینی امکان کا سامنا تھا۔ ان کی تہذیب ملبے کا ڈھیر تھی، دینی روایت پارہ پارہ تھی، سیاسی غلامی مکمل تھی، معاشی دریوزہ گری معمول تھی۔ ان کے پاس انتخاب کے راستے اور مواقع نہایت محدود تھے۔ اور بیسوی صدی کے اوائل میں ترک اور عرب معاشروں کی طرح ہندوستانی مسلم معاشرے کو بھی عین اسی سوال کا سامنا تھا۔ ہم عصر تاریخ کے ادراک اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندوستان کے مسلم معاشرے نے اس سوال کا سامنا کس طرح کیا اور اس کا کیا جواب دیا؟ ہندوستانی مسلم معاشرے کا جواب اور انتخاب، ترک اور عرب معاشرے کے جواب اور انتخاب سے بالکل مختلف تھا۔ اور یہ انتخاب پاکستانی معاشرے اور اس کے سیاسی ارتقا پر گہرے طریقے سے اثرانداز ہوا، برصغیر کے مسلم معاشرے کا جواب نظریۂ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا۔ زیر بحث عالمی سیاق و سباق میں نظریہ پاکستان کی تہذیبی معنویت کو جاننا ضروری ہے۔ ترک اور عرب معاشرے نے مغربی اور استعماری جدیدیت کے اساسی اصول کو قبول کرتے ہوئے اسلام کو اپنی سیاسی شناخت کے معرف (definer) کے طور پر رَد کر دیا۔ جبکہ برصغیر کے مسلمانوں نے اس کے بالکل برعکس اپنی دینی شناخت ہی کے سیاسی شناخت ہونے پر اصرار کیا اور اس میں کامیاب رہے۔ یعنی نظریۂ پاکستان کا اساسی ترین موقف ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی شناخت دراصل ان کی سیاسی شناخت بھی ہے اور اس شناخت کا معنی بھی۔
بیسوی صدی کے اوائل میں ترک اور عرب معاشرے نے اسلام کو ایک سیاسی ورلڈ ویو کے طور پر مسترد کر دیا، جبکہ برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کو اپنے سیاسی ورلڈ ویو کے طور پر اختیار کیا۔ ترک اور عرب معاشرے نے سیکولرازم کو اختیار کرتے ہوئے دینی روایت اور اس کے روایتی ورلڈ ویو کو رَد کر دیا اور سیکولر سیاسی اقدار کو اپنے اجتماعی عمل کی بنیاد بنایا۔ جبکہ برصغیر کے مسلم معاشرے نے نظریۂ پاکستان کے بیان میں دینی روایت سے جڑے ہوئے سیاسی افکار اور سیکولرازم دونوں کو مسترد کردیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے سیاسی نظام اور معاشرے کی تشکیل کے لیے اپنے بنیادی تہذیبی تصور، یعنی اسلام سے وابستگی کو برقرار رکھا اور اسلام کی تہذیبی اقدار کو اپنے اجتماعی نظام کی اساس بنانے پر اصرار کیا۔
ترک اور عرب معاشرے نے دینی روایت اور اس کے سیاسی ورلڈ ویو کو مسترد کر دیا، کیونکہ وہ اسے جدید علوم و فنون کے حصول اور جدید ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ترک اور عرب فرماں روا طبقے کا خیال تھا کہ پرانے تصورات کے ہوتے ہوئے معاشرے کو جدید اور ترقی یافتہ نہیں بنایا جاسکتا۔ نظریۂ پاکستان نے مذہب کی مستجر تعبیرات اور ان سے جڑے ہوئے سیاسی افکار اور جدید سیکولر تصورات دونوں کو رَد کر دیا، لیکن اسلام کی اجتماعی اقدار کی بالادستی پر اصرار کیا اور جدید علوم و فنون اور ترقی کے جدید ذرائع کے حصول کا راستہ بھی کھلا رکھا۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں سیکولرازم کا کیس بہت کمزور اور بے بنیاد ہے، اور نظریۂ پاکستان اور پاکستان کی جڑواں حیثیت کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے اہل علم اور دانشور بات یہاں ختم کر دیتے ہیں، لیکن ہماری دانست میں بات یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نظریہ تاریخ پر غالب آجاتا ہے، لیکن ریاست سے شکست کھا جاتا ہے۔ نظریہ پاکستان نے برصغیر کی تاریخی حرکیات پر غالب آکر اسے بدیہی طور پر تبدیل کر دیا، لیکن ورثے میں ملنے والی ’’استعماری‘‘ ریاست سے شکست کھا کر کمزور ہو گیا، اور اسلامی معاشرے اور عدل اجتماعی کا آدرش حاصل نہ ہوسکا۔ نظریہ پاکستان کی تاریخ اور ریاست سے نسبتوں میں ایک ایسا التباس پیدا ہوگیا، جو ہمارے موجودہ حالات کا صورت گر ہے اور ہم عصر دنیا میں نظریہ پاکستان کے ’’بحران‘‘ کی اصل وجہ ہے۔ اس وقت نظریہ پاکستان کو نئی فکری تشکیلات کی ضرورت ہے تاکہ اس کے سیاسی اور تہذیبی آدرش کو واضح رکھا جاسکے، اور نظریے اور ریاست کے باہمی تعلق میں عدلِ اجتماعی کا راستہ تلاش کیا جاسکے، تاکہ یہ ہم عصر تاریخ سے ہم قدم ہونے کے قابل ہو۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۲۱ ؍اگست ۲۰۱۶)
Leave a Reply