
جب بنگلہ دیش بنا تو اس وقت شیخ مجیب الرحمان دیوتا تھے، پھر بھی اُن کا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ بنگالی قوم کے احساسِ محرومی، غصے اور جذبۂ انتقام کو قومی تعمیر کی جانب مرتکز کرکے خون میں نہائی آزادی سے ایک شونار بنگلہ (سنہری بنگلہ دیش) پیدا کر لیا جائے۔ ایسا بالکل ممکن تھا، کیونکہ اس وقت قومی اکثریت شیخ مجیب کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے پر آمادہ تھی۔ لیکن گرم لوہا ٹھنڈا ہوتا چلا گیا۔ مجیب الرحمان کو جو مختصر قیمتی وقت میسر آیا، اُس کو شخصی و خاندانی حکمرانی پروان چڑھانے اور ملک کو یک جماعتی آمریت کی جانب دھکیلنے اور کولوبریٹر ایکٹ اور وار کرائم ٹریبونل ایکٹ پر لگا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے صرف ساڑھے چار برس بعد ہی غصہ غصے کو کھا گیا۔ شیخ مجیب کے پورے خاندان کو انہی میں سے کچھ فوجیوں نے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا، جنہوں نے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ بس دو بیٹیاں، ریحانہ اور حسینہ بچ گئیں۔
ہاں! ۱۹۷۱ء کے مشرقی پاکستان میں انسانیت کو ننگا نچوایا گیا تھا۔ ہاں جسٹس حمود الرحمان کمیشن کے چھبیس ہزار سے مجیب حکومت کے تیس لاکھ کے درمیان کی کسی تعداد میں انسان قتل ہوئے۔ ہاں! پچاس ہزار سے دو لاکھ کے درمیان عورتیں ریپ ہوئیں۔ ہاں! البدر، الشمس، المجاہد اور رضاکار متحدہ پاکستان کی حمایت میں انسانیت کے خلاف جرائم کا حصہ بنے اور مکتی باہنی نے شونار بنگلہ کے حصول کے لیے غیربنگالیوں کو جہاں موقع ملا، گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ ہاں خانہ جنگیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے اور آئندہ بھی ایسے ہی ہوگا۔ چند لوگ ایک دوسرے کے وِلن ہوں گے، لیکن اجتماعی بھگتان نسلوں اور پورے پورے نسلی و مذہبی گروہوں کو سہنا پڑے گا۔ اس کے باوجود کہیں تو لکیر کھینچنی ہی پڑتی ہے کہ بس جو ہو گیا سو ہوگیا۔ جو آزادی مل گئی، اُس کے صدقے خونی ماضی کو یادوں کی کوٹھڑی میں کسک کی کیل سے ٹانگ دو اور آگے کا سوچو۔ جو نادم ہو، اُسے معاف کردو، جو نادم نہ ہو، اُسے معاف کر کے نادم کر دو۔
کیا مکہ میں ڈیڑھ ہزار برس پہلے یہی نہیں ہوا تھا؟ کیا ڈیڑھ ہزار برس بعد الجزائریوں نے نوآبادیاتی فرانسیسیوں کے ساتھ یہی نہیں کیا؟ کیا جنوبی افریقا کے کالوں نے سفاک گوروں کے ساتھ یہی نہیں کیا؟ کیا سابق یوگوسلاویہ میں ہزاروں سربوں، کروٹوں اور مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد یہی نہیں ہوا۔ کیا یہ بات سمجھنا اور سمجھانا راکٹ سائنس ہے کہ منتقم غصہ دوسرے سے زیادہ، خود کو اندر سے سنگسار کرتا رہتا ہے۔ کچھ کو یہ بات فوراً سمجھ میں آجاتی ہے، جیسے نیلسن منڈیلا وغیرہ۔ کچھ کو بیالیس برس بعد بھی سمجھ میں نہیں آتی، جیسے حسینہ واجد وغیرہ۔
پھر بھی اگر آپ ماضی کا کھاتہ معافی کے بجائے انصاف سے صاف کرکے دل کو تسکین دینا چاہتے ہیں تو یہ بھی کوئی بری بات نہیں۔ مگر انصاف کا کھیل ذرا ٹیکنیکل ہے۔ اس راہ میں پھونک پھونک کے رکھے جانے والے ننانوے قدموں کے بعد، ایک سوواں قدم بھی ٹھیک ٹھیک ہی پڑنا چاہیے۔ ورنہ انصاف کی ساری مسافت بیکار، پلید اور ملیامیٹ ہونے میں ایک سیکنڈ لگتا ہے۔
کتنا اچھا لگا تھا جب شیخ مجیب الرحمن بطور وزیراعظم فروری ۱۹۷۴ء کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے۔ معافی تو تب بھی پاکستان نے نہیں مانگی تھی۔ جماعتِ اسلامی تو تب بھی تاریخ کے پہیے کو پیچھے چلانے کے لیے بنگلہ دیش نامنظور کا پورا زور لگا رہی تھی۔ ۱۹۵؍پاکستانی فوجی افسر تو تب بھی بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کی فہرست میں تھے۔ لیکن جب اُن پر اس لیے مقدمہ نہیں چل پایا کہ دو لاکھ بنگالی شہری مغربی پاکستان میں پھنسے ہوئے تھے تو پھر ان ۱۹۵ کے مقامی ہوتوں سوتوں پر چالیس برس بعد مقدمہ چلانے کا جواز عجیب سا لگتا ہے۔
۱۹۷۳ء میں جب جنگی جرائم کا پہلا ٹریبونل بنا تو بنگلہ دیش میں مشتبہ جنگی مجرموں کی تعداد تیس سے چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ اب یہ تعداد سرکاری طور پر ۱۶۰۰ کے لگ بھگ ہے۔ یہ بھی چند برس میں مر ہی جاتے، جیسے باقی ۵۰۰,۳۸ مر گئے۔ اسرائیل نے برسوں بعد بھی جب ہاتھ ڈالا، اصلی نازیوں پر ڈالا، ان کے مقامی چیلوں چانٹوں پر وقت ضائع نہیں کیا۔ ویسے بھی جب کمہار پہ بس نہ چلے تو گدھے کے کان اینٹھنے سے کیا حاصل۔
پھر بھی مجھے قطعاً پریشانی نہیں ہے کہ عبدالقادر مُلّا کو پھانسی اتنی عجلت میں کیوں دے دی گئی۔ پریشانی بس یہ ہے کہ جب سرکاری وار کرائمز ٹریبونل نے انہیں پانچ انسانیت سوز جرائم پر عمر قید کی سزا سنا دی تھی اور ایک جرم میں بری کر دیا تھا تو پھر سپریم کورٹ نے چھٹا جرم بحال کرکے عمر قید کو سزائے موت میں کیسے بدل دیا۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ وار کرائمز ٹریبونل کا فیصلہ ناقص تھا اور اسے سپریم کورٹ نے درست کردیا، تو پھر ایسے ناکارہ وار کرائمز ٹریبونل کو توڑ کر نیا ٹریبونل کیوں نہیں بنایا گیا اور اسی ناقص ٹریبونل نے جن باقی نو مجرموں کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا، اُن کے ناقص ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سپریم کورٹ کب اور فیصلہ کرے گی۔
جب فروری میں عبدالقادر مُلّا کو وار کرائمز ٹریبونل نے عمر قید کی سزا سنائی تو ڈھاکا کے شاہ بیگ چوک اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد نے اس فیصلے کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ ہمیں جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت سے کم کوئی سزا منظور نہیں اور پھر عوامی لیگ حکومت نے وار کرائم ایکٹ میں یہ ترمیم کی کہ اگر حکومت عدالتی سزا سے مطمئن نہیں، تو وہ متاثرین کی نمائندہ بن کر اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کرے گی اور پھر سپریم کورٹ نے عبدالقادر مُلّا کی عمر قید کو سزائے موت سے بدل دیا۔ تو کیا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کسی انفرادی و اجتماعی دباؤ میں نہیں آئی۔
اور وار کرائمز ٹریبونل نے پروفیسر غلام اعظم کو ۱۹۷۱ء کے اخباری تراشوں کو بنیادی ثبوت مانتے ہوئے انسانیت سوز مجرم کیسے قرار دے دیا اور اس ۹۰ سالہ پروفیسر کو ۹۰ سال قید کی سزا کیسے سنا دی؟ کیا یہ وہی غلام اعظم نہیں، جن کی بنگلہ دیشی شہریت خود سپریم کورٹ نے ۱۹۹۴ء میں بحال کی اور فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ وہ بطور آزاد شہری سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں اور اگر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ناقص تھا تو پھر اس فیصلے کے دو برس بعد ۱۹۹۶ء میں برسرِ اقتدار آنے والی حسینہ واجد حکومت نے اقتدار میں پورے پانچ برس گزارنے کے باوجود سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کیوں دائر نہیں کی اور جو وار کرائمز ٹریبونل حسینہ حکومت نے ۲۰۱۰ء میں تشکیل دیا، وہی ٹریبونل ۱۹۹۶ء تا ۲۰۰۱ء کے درمیان تشکیل دینے میں کیا رکاوٹ تھی؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ان پانچ برسوں کے دوران حسینہ واجد حکومت پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے سبب جنگی جرائم کے انصافی کھڑاگ میں پڑے بغیر اکیس برس کے وقفے سے ملنے والی حکومت کی مدت پوری کرنا چاہ رہی تھی اور جیسے ہی انہیں ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت مل گئی تو ۱۹۷۱ء کے نامکمل انصافی تقاضے پوری طرح سے یاد آگئے۔
لیکن وار کرائمز ٹریبونل بناتے وقت حسینہ واجد کو یہ کیوں یاد نہیں آیا کہ یہ وہی غدار جماعتِ اسلامی ہے جو ۸۰ کے عشرے میں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے شانہ بشانہ فوجی آمر حسین محمد ارشاد کے خلاف تحریک میں شامل تھی، اور یہ وہی جماعتِ اسلامی ہے، جس کے ارکانِ پارلیمان اسی ایوان میں ۱۹۷۹ء سے اب تک بیٹھتے رہے ہیں جس میں عوامی لیگ کبھی حزبِ اقتدار تو کبھی حزبِ اختلاف کے طور پر موجود رہی ہے۔ جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کو جنرل ضیاء الرحمان کی حکومت نے بنگلہ دیش واپسی کی اجازت دی تھی۔ انہوں نے ہی جماعت پر سیاسی پابندی اٹھائی تھی۔ توہے کوئی عوامی لیگ میں جو جنرل ضیاء الرحمان کو غدار کہہ سکے۔ وہ میجر ضیاء الرحمان، جس نے چٹاگانگ ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرکے بنگلہ دیش کی آزادی کا پہلا اعلان نشر کیا اور مال خانے کے ہتھیاروں سمیت سرحد پار جا کر آزادی پسندوں کو منظم کرتا رہا۔
مگر یہ بات بھی درست ہے کہ جس نے جو جرم کیا، اُسے اس کی پوری سزا ملنی چاہیے۔ اچھا آپ کے پاس تو جماعتِ اسلامی کے نائب امیر دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت سنانے کے لیے نسل کشی، قتلِ عام، ریپ اور ٹارچر کے ٹھوس ثبوت اور عینی شاہدوں کی کثیر تعداد تھی۔ پھر بھی ان کی طرف سے پیش ہونے والے گواہ سکھ رنجن بالی کو عین عدالت کے دروازے سے پولیس کیوں اغوا کر کے لے گئی اور وہ ایک برس بعد بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کی جیل میں کیوں پایا گیا اور برطانوی جریدے ’’دی اکانومسٹ‘‘ کو یہ کیوں لکھنا پڑ گیا کہ دلاور سعیدی کے مقدمے کے مرکزی جج کے استعفیٰ کے بعد دیگر ججوں نے صفائی کے تمام گواہوں کو سنے بغیر سزائے موت سنا دی۔ اچھا تو ابوالکلام آزاد عرف بچو رضاکار کو اپنی صفائی میں ایک بھی گواہ کیوں نہ مل سکا؟ محمد قمر الزماں اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل جماعتِ اسلامی کو سال بھر بغیر فردِ جرم کے رکھا گیا اور پھر جنگی جرائم کی فردِ جرم سامنے آگئی۔ علی احسن محمد مجاہد پر سات الزامات لگے، پانچ میں بری، مگر دو کی بنیاد پر سزائے موت؟؟
ویسٹ پاکستان اسمبلی کے ایک اسپیکر فضل القادر چوہدری کو بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جنگی جرائم میں شراکت کی مد میں جیل میں ڈالا گیا۔ ۱۹۷۳ء میں وہ بلا مقدمہ جیل ہی میں مرگئے۔ اب ان کے بیٹے صلاح الدین قادر چوہدری چار مرتبہ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے بعد جنگی مجرم قرار پائے۔ ۲۳؍الزامات میں سے ۹ کی بنیاد پر سزائے موت سنا دی گئی۔
۲۰۱۰ء میں جنگی جرائم کا جو ٹریبونل تشکیل پایا، اُس کے چیف جج محمد نظام الحق اور دو معاون جج، اے ٹی ایم فضلِ کبیر اور اے کے ظہیر احمد تھے۔ محمد نظام الحق مقدمات کی سماعت کے دوران برسلز میں مقیم بیرسٹر احمد ضیاء الدین سے اسکائپ اور ای میل پر مسلسل صلاح مشورے کرتے رہے۔ ۲۳۰ سے زائد ای میلز اور ۱۷؍گھنٹے کی اسکائپ ریکارڈنگ اخبار ’’امردیش‘‘ کے ایڈیٹر محمود رحمان کے ہتّھے چڑھ گئی۔ انہوں نے اسے شائع کر دیا۔ حکومت نے اس جرم میں اُن پر بھی غداری کا مقدمہ بنا دیا۔ ایک ٹیپ میں چیف جج محمد نظام الحق کہہ رہے ہیں کہ عوامی لیگی حکومت بالکل پاگل ہوگئی ہے۔ وہ ۱۶؍دسمبر کو یومِ آزادی سے پہلے پہلے تمام مقدموں کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ مجھ پر مسلسل دباؤ ہے۔ اس ریکارڈنگ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد نظام الحق نے ٹریبونل سے استعفیٰ دے دیا، لیکن حکومت نے نیا ٹریبونل تشکیل دینے کے بجائے فضلِ کبیر کو چیف جج بنا دیا۔ حسینہ واجد نے کہا کہ کسی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کارروائی جاری رہے گی۔
ہیومین رائٹس واچ، ایمنسٹی، امریکا، یورپی یونین، جرمنی، برطانیہ، آسٹریلیا اور اقوامِ متحدہ نے ۲۰۱۰ء میں وار کرائمز ٹریبونل بنانے کا خیر مقدم کیا تھا۔ لیکن آج یہ سب تنظیمیں یک زبان ہیں کہ مقدمات انصاف کے بین القوامی معیارات کے مطابق نہیں چلائے گئے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کراچی۔ ۱۶؍دسمبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply