
جو کچھ ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکا میں ہوا، اگر وہ نہ ہوا ہوتا تو آج دنیا کتنی مختلف ہوتی؟ اگر ان حملوں کو ناکام بنا دیا جاتا یا پوری طرح کامیاب ہونے سے روک دیا جاتا تو کیا ہوتا؟ ایک سیدھا سا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ امریکیوں کو اس وقت باقی دنیا کی جتنی فکر لاحق ہے، لاحق نہ ہوئی ہوتی۔
نائن الیون سے کچھ ہی دن قبل یعنی ستمبر ۲۰۰۱ء کے ابتدائی دنوں میں ایک سروے میں صرف ۱۳ فیصد امریکیوں نے کہا تھا کہ امریکا کو دنیا کی قیادت تنہا سنبھالنا چاہیے۔ ۳۳ فیصد سے کچھ ہی زیادہ لوگوں نے غیرمعمولی دفاعی اخراجات کی وکالت کی تھی۔ اب یہ اعداد و شمار یقینا کہیں زیادہ ہوں گے۔ ٹھیک ہے نا؟
غلط، بالکل غلط! امریکا میں ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ صرف ۱۲ فیصد امریکی پوری دنیا کی قیادت صرف امریکا کے ہاتھ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی ستمبر ۲۰۰۱ء اور ستمبر ۲۰۱۱ء میں امریکیوں کی سوچ یکساں ہی ہے۔ قومی سلامتی اور دفاع پر بلند اخراجات کی حمایت کرنے والے امریکیوں کا تناسب خاصا کم ہوکر اب صرف ۲۶ فیصد رہ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورز کے گرنے سے قبل باقی دنیا کی جتنی فکر کیا کرتے تھے اب اُس سے کہیں کم فکر لاحق ہے!
۱۰ برسوں میں امریکا نے بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر مسلم دنیا میں تین حکومتوں کو ختم کیا ہے۔ مگر اِس کے باوجود امریکی خود کو اِن حکومتوں کے گرنے سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ کمزور محسوس کرتے ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں ۲۵ فیصد امریکیوں کا خیال تھا کہ امریکا عالمی قیادت کے حوالے سے دس سال قبل جتنا اہم تھا اب اس سے کہیں کم اہم ہے۔ اور اب ۲۰۱۱ء میں یہی رائے رکھنے والے امریکیوں کا تناسب ۴۱ فیصد ہے۔
تین ممکنہ توجیہات یہ ہوسکتی ہیں:
٭ نیو کنزرویٹیوز نے جو نظریہ پیش کیا تھا، بیرون ملک طاقت کا استعمال اُس کے مقابلے میں کہیں سخت اور دشوار گزار ثابت ہوا ہے۔
٭ مالیاتی بحران نے امریکیوں میں بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے زیادہ اور بہتر کام کرنے کے عزم اور ولولے کو شدید دھچکا لگایا ہے۔ اور
٭ نائن الیون نے امریکی رائے عامہ پر اُتنے گہرے اثرات مرتب نہیں کیے جتنا کہ خیال کیا جاتا رہا ہے۔
مگر خیر، یہ سوچنا بھی تاریخ کے عمل کو سمجھنے میں شدید ناکامی کے مترادف ہوگا کہ نائن الیون نے کسی اہم تبدیلی کی راہ ہموار نہیں کی۔ دنیا اب بہت پیچیدہ ہے اور کوئی ایک واقعہ بھی دنیا بھر میں واقعاتی سلسلے پر خاصی شِدّت کے ساتھ اثر انداز ہوسکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہم یہ تصور نہیں کرسکتے کہ وہ اثرات کیا ہوسکتے ہیں۔
آئیے ہم ویسا ہی کھیل کھیلیں جیسا مزی لین سوفٹ ویئر کمپنی میں میرے دوست آج کل ڈیزائن کر رہے ہیں اور جس میں معاشیات، سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے باہمی تفاعل کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ ’’نیو ورلڈ ڈِز آرڈر‘‘ کے نام سے ڈیزائن کیے جانے والے اس وڈیو گیم کے ذریعے کوئی بھی کھلاڑی ماضی کے مختلف واقعات کو ایک اعتبار سے دہرا سکتا ہے۔
چلیے، جنوری ۲۰۰۱ء سے شروع کرتے ہیں اور اس تصور کے ساتھ القاعدہ کے بارے میں رچرڈ کلارک کے انتباہ کو کونڈولیزا رائس اور پال وولفووز نے سنجیدگی سے لیا اور دہشت گردوں کے اُن حملوں کو ناکام بنایا جو ہمارے سامنے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ ء کو وقوع پذیر ہوچکے ہیں۔ گیم بہت اچھی طرح شروع ہوتا ہے۔ القاعدہ کے خلاف پیشگی کارروائی ہوتی ہے اور اس کے قائدین کو خفیہ کارروائیوں کے ذریعے گرفتار کرکے متعلقہ حکومتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ ان سب باتوں سے نمٹ کر جارج واکر بش اپنی پہلی محبت یعنی ٹیکسوں میں کٹوتی پر توجہ دینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
مگر پھر تین سال بعد اس خفیہ کارروائی کی پوری تفصیل نیو یارک ٹائمز کے صفحات پر نمودار ہوتی ہے۔ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جان کیری اس خفیہ کارروائی کو بش جونیئر کا مجرمانہ اقدام قرار دیتے ہیں۔ لبرل پنڈت بھی جھاگ اڑانے لگتے ہیں۔ امریکیوں کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ ہوا کیا ہے۔ اسامہ بن لادن سعودی عرب میں جیل کی کوٹھری سے امریکا کی شدید مذمت پر مبنی بیان جاری کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں ایسی عوامی لہر اٹھتی ہے جس میں ہر اس حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے جو امریکا کی ہم نوا ہو۔
قطر کی حکومت چلی جاتی ہے۔ پھر کویت کی حکومت کا بھی دھڑن تختہ ہو جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، سعودی حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ اور پھر ٹی وی پر مبصرین نمودار ہوکر بتاتے ہیں کہ کس طور امریکا کی حامی ان بادشاہتوں کے خلاف جذبات پنپ رہے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ مبصرین نے اس طرف کبھی اشارہ بھی نہ کیا ہو۔ جان کیری استفسار کرتے ہیں… مشرق وسطیٰ کس نے گنوایا؟ (یاد رکھیے کہ نائن الیون سے قبل خود بش جونیئر بھی اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ بیرون ملک زیادہ مہم جوئی کی جائے)۔ ڈیموکریٹس ۲۰۰۴ء کا صدارتی انتخاب جیت جاتے ہیں۔ اور اسامہ بن لادن کی ریاست اسلامک ری پبلک آف سعودی عربیہ ریاض میں امریکیوں کو ان کے سفارت خانے میں یرغمال بنالیتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اگر نائن الیون کے واقعات نہ ہوئے ہوتے اور ان کے جواب میں افغانستان اور عراق پر لشکر کشی نہ کی گئی ہوتی تو ہم آج عرب دنیا کے موسم بہار کے بجائے اسلامی موسم سرما کے ساتھ جی رہے ہوتے۔
وڈیو گیم کے ذریعے تاریخ کو ری پلے کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ نائن الیون کے واقعات نہ ہوئے ہوتے تو امریکیوں سے زیادہ خود حملہ آوروں کے ممالک پر اس کا زیادہ اثر مرتب ہوا ہوتا۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۱۶؍ستمبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply