
قطر نے الاخوان المسلمون کے ۷؍راہنماؤں کو ایک ہفتے کے اندر اندر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ جن راہنماؤں کو ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں ان میں اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود حسین، آزادی اور انصاف پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ڈاکٹر عمر ودراج اور ڈاکٹر حمزہ زوبع، پارٹی کی مجلس عاملہ کے رکن انجینئر اشرف بدرالدین، اخوان المسلمون کے رہنما اور وزارت اوقاف کے سابق سیکرٹری ڈاکٹر جمال عبدالستار اور ان کے علاوہ اسلام کے دو بڑے علماء شیخ عصام تلیمہ اور اخوان کے قریب سمجھے جانے والے شیخ وجدی غنیم شامل ہیں۔ آنے والے وقت میں مزید راہنماؤں کو بھی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے امکانات ہیں۔
اخوان کے راہنما ڈاکٹر عمر ودراج نے قطر کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم مصر میں فوجی انقلاب کے خلاف مصری عوام کی جدوجہد کی حمایت پر قطر کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور خطے کے حالات کے پیش نظر ان کے تازہ فیصلے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘
ترک نیوز ایجنسی ناضول کے مطابق ایک بیان میں اخوان کے رہنماؤں نے بتایا ہے کہ ’’قطر نے ہمیشہ ہمیں خوش آمدید کہا اور عزت دی ہے۔ اس لیے ہم اس کے لیے کسی قسم کی مشکلات کا سبب نہیں بننا چاہتے۔ لہٰذا ہم اپنی سرگرمیوں کو قطر سے منتقل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
معروف مصری عالم دین شیخ وجدی غنیم نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ انہوں نے قطر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ ان کی وجہ سے قطر میں ان کے بھائیوں کے لیے کوئی مشکلات نہ ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے اور وہ جلد کسی اور ملک کو منتقل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حق پر ثابت قدم رکھے، حتیٰ کہ ہم شہادت پاکر اللہ سے ملاقات کریں۔‘‘ شیخ وجدی غنیم نے کہا کہ انہیں اپنے ملک مصر سے زیادہ عزت و احترام قطر میں ملا ہے، اس لیے وہ قطر کو اپنا پہلا وطن سمجھتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ قطر نے یہ اقدام خلیجی ممالک کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے بالخصوص سعودی دباؤ کم کرنے اور اس میں خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے ساتھ کیے جانے والے اپنے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے اٹھایا ہے۔
○○○
انٹرپول قطر چھوڑنے والے اخوانیوں کو گرفتار کرے۔ مصری حکومت
مصر کے چیف پراسیکوٹر نے پیرس میں قائم بین الاقوامی پولیس ایجنسی انٹرپول سے کہا ہے کہ وہ قطر چھوڑ کر کہیں اور جانے والے اخوان المسلمون کے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرے کیونکہ ان کے خلاف ملک میں فوجداری مقدمات زیر تفتیش ہیں۔
مصر نے جولائی ۲۰۱۳ء میں بھی منتخب صدر مرسی کی برطرفی کے بعد انٹرپول سے اخوان المسلمون کے ارکان کو گرفتار کرنے کی درخواست کی تھی۔مصری روزنامہ ’’الاہرام‘‘ کے انگریزی پورٹل کی اطلاع کے مطابق پراسیکوٹر ہشام برکات نے قطر اور ترکی سے راہ فرار اختیار کرنے والے اخوان المسلمون کے ارکان کے خلاف انٹرپول کے ریڈ نوٹسز کی تجدید کا مطالبہ کیا ہے۔
پان عرب روزنامہ ’’الشرق الاوسط‘‘ نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اخوان المسلمون سے وابستہ انتیس شخصیات قطر سے کہیں اور جارہی ہیں اور ان میں معروف عالم دین علامہ یوسف القرضاوی کے دفتر کے ایک سابق ذم دار عصام تلیمہ بھی شامل ہیں۔
اخوان المسلمون کے مؤید علامہ وجدی غنیم نے بھی ہفتے کے روز قطر سے کہیں اور چلے جانے کا اعلان کیا تھا۔انھوں نے یوٹیوب پر جاری کردہ ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ ’’میں نے قطر میں اپنے بھائیوں کو کسی قسم کی سْبکی سے بچانے کے لیے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔
بعض مصری اخبارات نے اپنی ہفتے کی اشاعت میں بتایا تھا کہ قطری حکومت نے اخوان کے سات سینئر عہدے داروں کو ایک ہفتے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔اخوان المسلمون کے سیاسی بازو آزادی اور انصاف پارٹی کے ایک رہنما عمرو دراج نے اپنے فیس بک صفحے پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’’اخوان کے متعدد ارکان قطر سے کہیں اور منتقل ہورہے ہیں تاکہ اس ملک کو کسی قسم کی سُبکی سے بچایا جاسکے۔
مصر اور قطر کے درمیان تعلقات میں گزشتہ سال جولائی میں سابق آرمی چیف عبدالفتاح السیسی کے ہاتھوں منتخب صدر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد سے کشیدگی پائی جارہی ہے۔واضح رہے کہ ڈاکٹر مرسی کی برطرفی کے بعد مصری سکیورٹی فورسز نے اخوان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا تھا۔اس دوران بہت سے ارکان نے ملک سے بھاگ کر قطر میں پناہ لے لی تھی۔مصر ماضی میں قطر سے انھیں حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
اخوان کے سینئر عہدے داروں کو پناہ دینے پر قطر کے دوسری خلیجی ریاستوں کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے اور سعودی عرب، بحرین اور یو اے ای نے دوحہ میں متعین اپنے سفیروں کو مارچ میں واپس بلا لیا تھا۔اس سے قبل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے کر بلیک لسٹ کردیا تھا اورمصر نے بھی اس قدیم مذہبی و سیاسی جماعت کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔
(بشکریہ: ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘۔ ۱۴؍ستمبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply