
میں جنگی جرائم کے ٹرائل کو پسند کرتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ ان درندہ صفت انسانوں کو ایک عبرتناک مثال بنا دیں اور جیسا کہ چرچل نے کہا تھا ’’انہیں گردن سے پکڑیں‘‘۔ اگر نیمبرگ ٹرائلز فاتحین کا انصاف تھے تو بھی میں ایسے ہی ٹرائل کو ترجیح دیتا ہوں، بجائے اس کے کہ ہٹلر کی فورسز جیت جائیں اور جرمن وزارتِ انصاف کے تحت چلنے والی نازی پیپلز کورٹ کے سامنے ہمارا ٹرائل ہوتا۔
اس وقت جنگی جرائم کے ٹرائل کا مطالبہ ہر طرف سے زور پکڑ رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے سوئس جوڈیشل اتھارٹیز کے سامنے رفعت الاسد پر جنگی جرائم کی پاداش میں مقدمہ چلایا گیا۔ رفعت الاسد شام کے صدر بشارالاسد کے چچا اور حافظ الاسد مرحوم کے بھائی ہیں۔ ان پر ۱۹۸۰ء میں تدمرجیل، اور ۱۹۸۲ء میں حمہ میں قتل عام کا الزام ہے۔ یو این کمیشن برائے شام اور ایمنسٹی ان پر جنگی جرائم کی پاداش میں مقدمہ چلانے میں فریق ہیں۔ اب اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے داعش کے خلاف متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں اس پر ’’نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم‘‘کا ارتکاب کرنے کے الزامات کا ثبوت حاصل کرنے کا کہا گیا ہے۔
دنیا کے دیگر انسانوں کی طرح میں بھی انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کو ٹرائل کا سامنا کرتے دیکھنا چاہتا ہوں، لیکن اس دوران میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ قدرے توازن قائم ہو جائے تو بہتر ہے۔ جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے والوں نے بوسنیا کی جنگ کے بعد الزامات کا دائرہ پھیلا دیا۔ اس کے نتیجے میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے سرب مجرموں کے ساتھ ساتھ بوسنیا اور کروشیا کے مسلمان بھی ہیگ عدالت کے کٹھہرے میں کھڑے دکھائی دیے۔
میں نے ایک مرتبہ واروک شائر کے ایک پولیس افسر سے شرط لگائی تھی کہ وہ کبھی بھی میلاسویک (Milosevic) کو کبھی بھی عدالت میں نہیں لے جاسکے گا۔ تاہم وہ پولیس افسر پُرعزم تھا۔ اس کا کہنا تھا: ’’ہم اسے پکڑیں گے، ہم اسے ہیگ عدالت کے سامنے پیش کریں گے‘‘، اور یہ کہتے ہوئے وہ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک اور اجتماعی قبر کی طرف بڑھ گیا۔ یہاں میں غلطی پر تھا۔ وہ پولیس افسر درست تھا اور میں غلط، لیکن وہ جیل میں ہی مر گیا(ہیگ عدالت کے بہت سے دیگر ملزمان کی طرح، جو فیصلہ سنائے جانے سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہوگئے)۔ تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کہا گیا کہ آپ جنگی جرائم کا ارتکاب کرکے بچ نہیں سکتے۔ صدام حسین بھی نہیں بچ سکا، اگرچہ اُن کا ٹرائل ایک مضحکہ خیز ڈرامے بازی تھی۔ لبرل یورپ کی طرف سے کوئی احتجاج دیکھنے میں نہ آیا، جب صدام حسین کو توہین آمیز طریقے سے سزا دی گئی، جبکہ اس کے سیاسی مخالفین جشن منا رہے تھے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ صدام حسین کو سنائی جانے والی سزا ہیگ کے معیار سے شرمناک حد تک برعکس تھی۔ کردوں کو گیس سے ہلاک کرنے کا ذکر تک نہ کیا گیا، کئی سال پہلے اپنے مسلکی حریف شیعوں کو ہلاک کرنے کی پاداش میں سزا سنائی گئی۔ اس طرح ہیگ نے پوری کوشش کرتے ہوئے اس ٹرائل کو مسلکی رنگ دے دیا۔ اس پر کرد ششدر رہ گئے تھے۔
مجھے شک ہے کہ اگر داعش کا اصل لیڈر گرفتار ہوگیا تو اس پر بھی ایسا ہی مقدمہ چلے گا۔ میں تصور کرسکتا ہوں کہ اگر اسے کبھی کٹھہرے میں کھڑا کرنے کی نوبت آئی تو اس سے کم ازکم یہ سوال ہر گز نہیں پوچھا جائے گا کہ اُس نے وہ جدید ہتھیار کہاں سے حاصل کیے تھے جن سے اُس کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں خون کی ہولی کھیلی۔ جب ڈیوڈ کیمرون نے ’’دہشت گردوں کی فنڈنگ‘‘ کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنایا تو ہماری نیک سیرت ٹریسامے نے اس کی رپورٹ کو خفیہ رکھا تاکہ خلیج کی ایک اہم ریاست کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیافنڈنگ کرنے والے اصل مجرم نہیں جو انتہا پسندوں کو ہتھیار خریدنے کے لیے رقم فراہم کرتے ہیں؟
مجھے ایک مرتبہ ہیگ کے ایک افسر کی فون کال آئی۔ میں اُس وقت بیروت میں تھا۔ اُس افسر نے مجھے کہا کہ ایک سرب کمانڈر جو ایک عقوبت خانے کا نگران تھا کے خلاف ثبوت فراہم کروں۔ میں نے بوسنیا جاکر اس سرب افسر کا انٹرویو کیا تھا۔ میں نے کہاوہ میری شائع شدہ رپورٹ کو مقدمے کی کارروائی کے لیے استعمال کرسکتا ہے، لیکن میں بذاتِ خود گواہی کے لیے پیش نہیں ہوں گا، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ جنگ کے دوران رپورٹر اور جنگ کے بعد جاسوس کا کردار ادا کرنے لگ جائیں۔ مجھے دھمکی دی گئی کہ عدالت کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کی بناء پر مجھے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میں ہیگ کا احترام کرتا ہوں اور اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ عدالت مشرق وسطیٰ کے جنگی مجرموں کا ٹرائل کرے۔ میں نے سربیا اور چنالیا میں فلسطینیوں کے قتل عام کا بھی ذکر کیا۔ میں نے یہ بھی استفسار کیا کہ کیا لبنانی کرسچین ملیشیا کو بھی گرفتار کیا جائے گا جنہوں نے ۱۹۸۲ء میں ۱۷۰۰ فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کیا تھا؟ بلکہ اس سے بھی اہم، کیا انہیں قتل عام کی کھلی چھٹی دینے والے اُس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع ایریل شیرون (جو بعد میں وزیراعظم بھی بنے) کو بھی گرفتار کرکے عدالت کے کٹھہرے میں کھڑا کیا جائے گا؟ قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے دوبارہ اُس افسر کی فون کال وصول نہیں ہوئی۔
دوسری جنگ عظیم سے قبل اگر کچھ افراد یا جماعتیں ایسے کام کرتی تھیں جو تسلیم شدہ بین الاقوامی قانونِ جنگ کے منافی ہوں تو وہ جنگی جرائم تصور ہوتے تھے۔ مثلاً مقبوضہ ممالک کے باشندوں یا غیر لڑاکا فوجیوں کا جنگی سرگرمیوں میں ملوث ہونا۔ عارضی صلح ہو جانے کی صورت میں بھی قتل و غارت گری اور متشددانہ کارروائیاں جاری رکھنا یا صلح کے سفیروں پر گولی چلانا جنگی جرائم کے ذیل میں آتا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد بین الاقوامی جنگی ٹریبونل نے جارحانہ جنگ کے منصوبے باندھنا، شہری آبادی کو قتل کرنا، اس سے بدسلوکی کرنا یا غلامانہ مزدوری کرانے کے لیے لوگوں کو دوسرے ملک میں لے جانا بھی جنگی جرائم میں شامل کردیے۔
وہ افراد جو جنگی جرائم کا مطالبہ کرتے نہیں تھکتے وہ بھی دراصل من پسند ٹرائل چاہتے ہیں۔ وہ ہر گز نہیں چاہتے کہ تمام مجرموں کو بلاتخصیص گرفتار کرکے کٹھہرے میں کھڑا کردیا جائے خواہ ان پر کوئی الزام ہو یا نہ ہو۔
وہ اُن طاقتور حلقوں کی تادیب نہیں چاہتے جن سے انہیں فنڈز ملتے ہیں یا جو ان سے ہتھیار خریدتے ہیں، یا یو این کے بل ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ رفعت الاسد کئی عشروں سے یورپ میں رہ رہے تھے۔ اُن پر اس وقت سے ہی حمہ میں شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام تھا۔ تاہم وہ لندن میں پرتعیش زندگی بسر کرتے رہے۔ یہی نہیں دنیا کے بیشتر ملکوں کے حکمران جو اپنے اپنے ممالک کے خلاف سنگین کرائم کے مرتکب ہیں لندن میں نہ صرف ان کی عظیم الشان جائیدادیں ہیں بلکہ وہ یہاں بھی شاہانہ زندگی ہی گزارتے ہیں؟ ان میں غالباً دنیا کے ہر براعظم کے حکمران شامل ہیں۔ میں نے اُس وقت بھی انڈی پینڈنٹ کے پلیٹ فارم سے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کئی برس سے برطانیہ میں پُرسکون زندگی گزارنے والے رفعت الاسد کی طرف کیوں نہیں دیکھتی، آخر اس میں کیا چیز حائل ہے؟
ٹرائل انٹرنیشنل کو سوئس سماعت کے تعطل سے کچھ مسائل ہیں۔ یونیورسل جسٹس کے مطابق سوئٹزرلینڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا احتساب کرے۔ تاہم ٹرائل کے الزامات غیر واضح ہیں۔ الزام ہے کہ رفعت الاسد نے دس ہزار سے لے کر چالیس ہزار افراد کو ہلاک کیا۔ میں بھی اس وقت حمہ میں تھا۔ فرض کریں میں کہتا ہوں کہ ہلاکتوں کی تعداد بیس ہزار تھی، لیکن عین ممکن ہے کہ یہ صرف دس ہزار ہو۔ لیکن چالیس ہزار کے اعداد و شمار کہاں سے آئے ہیں؟
بالکل اسی طرح ایمنسٹی نے شامی صدر (جو رفعت کا بھتیجا ہے) پر پانچ ہزار سے تیرہ ہزار پھانسیوں کا الزام لگایا تھا، تعداد میں اتنا فرق کیوں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہیڈ لائنز کو سنسنی خیز بنانے کے لیے ہلاکتوں کی تعداد بڑھائی جاتی رہی ہو؟
منافقت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ یقیناً ہم اُن افراد کو کسی طور پر جنگی جرائم کی پاداش میں عدالت کے کٹھہرے میں کھڑا نہیں کریں گے جنہوں نے ۲۰۰۳ء کی جنگ سے پہلے عراق پر پابندیاں لگا کر کم و بیش پانچ لاکھ بچوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا اور شہروں کے شہر کھنڈرات میں تبدیل کردیے۔ ایسا ہم محض اس لیے نہیں کریں گے کہ اس کا مطلب یو این کو موردِ الزام ٹھہرانا ہوگا۔
اس سے پہلے بھی ایک شخص کے دامن پر لاکھوں عراقی باشندوں کے خون کے چھینٹے پڑے ہوئے ہیں۔ انہیں دنیا سینئر بش کے نام سے یاد کرتی ہے۔ کیا ہم انہیں بدترین جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے سکیں گے اور انہیں بھی کٹھہرے میں دیکھیں گے؟ یقین کریں میں جنگی جرائم کے ٹرائل کے خلاف نہیں۔ رفعت کو سزا دیں، لیکن پھر طالبان کی سرپرستی کرنے والے بھی ہیں۔ انتہا پسندوں کے ہاتھوں پردنیا بھر کے لاکھوں افراد کا خون ہے، لیکن ان کے سرپرستوں کو تلاش کرنا شروع کردیا تو کئی امریکی صدر، برطانوی وزیراعظم اور مشرق وسطیٰ کے مقدس حکمران کٹھہرے میں کھڑے ہو جائیں گے۔
اور آپ کو پتا ہے کہ یہی اصل مسئلہ ہے۔ دنیا میں قانون کی نظروں میں سب برابر نہیں ہوتے۔ اس وقت یمن کے شہری بھی انصاف کے طلبگار ہیں۔ کوئی ہے جو اُن کی فریاد سنے؟ دس ہزار ہلاکتیں، چالیس ہزار زخمی، کوئی علاج معالجہ نہیں۔ بھوک اور ہیضہ اور مرتے ہوئے بچے۔ انسانیت کے ساتھ روا رکھی جانے والی اس سفاکی کی دادرسی کس عدالت میں ہوگی؟
“I’m all for war crimes trials in the Hague”. (“Independent”. Sept. 29, 2017)
Leave a Reply