بھلائی اور برائی میں تعارض
دوسری مثال جسے میں نے اپنی کتاب أولویات الحرکۃ الاسلامیۃ کے آخر میں دوسرے ضمیمے کے طور پر شامل کیا ہے اور اسے عنوان دیا ہے: فصل جامع فی تعارض الحسنات والسیئات (برائیوں اور بھلائیوں کے بارے میں ایک جامع فصل)۔
اس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ بھلائیوں کے کچھ فوائد ہوتے ہیں اور اگر وہ واجب ہوں تو ان کے ترک میں نقصانات ہوں گے، اور دوسری طرف برائیوں میں نقصان ہے اور مکروہ میں کچھ نقصانات اور کچھ فوائد ہیں۔ اب تعارض یا تو دو بھلائیوں کے درمیان ہوگا جن کو آپس میں جمع کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس کا حل یہ ہوگا کہ جو احسن ہوگا اس کو مقدم کیا جائے گا اور مرجوح کو فوت ہونے دیا جائے گا۔ یا تعارض دو برائیوں کے درمیان ہوگا اور ان دونوں سے بیک وقت بچنا ممکن نہیں ہوگا، بلکہ ایک میں مبتلا ہونا لازمی ہوگا۔ اس کا حل یہ ہے کہ زیادہ برائی کو دفع کیا جائے اور ادنیٰ کو برداشت کیا جائے۔ یا ایک بھلائی اور ایک برائی کے درمیان تعارض ہوگا اور دونوں کو الگ کرنا ممکن نہیں ہوگا، بلکہ اگر بھلائی کرتے ہیں تو اس کے ساتھ برائی لازم آتی ہے اور اگر برائی چھوڑتے ہیں تو اس کے ساتھ بھلائی کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ تو یہ دیکھا جائے کہ دونوں کے چھوڑ دینے میں زیادہ فائدہ ہے یا دونوں کے کرنے میں۔ پھر اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔
پہلی بات کی مثال، جیسے واجب اور مستحب کے درمیان تعارض، فرض عین اور فرض کفایہ کے درمیان تعارض، یا مانگے جانے والے قرض کی ادائیگی کو نفل صدقے پر مقدم رکھنا۔
دوسری کی مثال، جیسے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کو غیر معین جہاد پر خرچ کرنے سے مقدم کرنا، یا والدین پر خرچ کو اس قسم کے جہاد پر خرچ کرنے سے مقدم کرنا۔
جیسا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے: پوچھا گیا، کون سا عمل افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’وقت پر نماز ادا کرنا‘‘۔
پوچھا گیا: اس کے بعد؟ فرمایا: ’’والدین کے ساتھ نیک سلوک‘‘۔
پوچھا گیا: پھر کون سا عمل؟ فرمایا: ’’پھر اللہ کی راہ میں جہاد‘‘۔
اسی طرح جہاد کو حج پر مقدم کرنا، جیسا کہ کتاب و سنت میں ہے، اس شخص پر لازم ہے جس پر دونوں چیزیں لازم ہوں اور اس شخص پر مستحب ہے جس پر دونوں چیزیں مستحب ہوں۔
اور قرأت قرآن کو ذکر پر مقدم کرنا، جب قلبی اور زبانی عمل ہونے کے لحاظ سے دونوں برابر ہوں۔ اور نماز کو ان دونوں پر مقدم کرنا جب وہ قلبی عمل ہونے میں ان دونوں کے ساتھ شریک ہو جائے۔ اگر یہ شرطیں نہ ہوں تو کبھی فہم اور جذبے کے ساتھ ذکر کو اس قرأت پر مقدم کیا جاسکتا ہے جو گلے سے نیچے نہ اترتی ہو۔ یہ ایک وسیع باب ہے۔
تیسری کی مثال، جیسے ہجرت کرنے والی خاتون کا کسی محرم کے بغیر سفرِ ہجرت اختیار کرنا بمقابلہ اس کے کہ وہ دارالحرب میں مقیم رہے۔ جیسا کہ ام کلثومؓ نے کیا تھا جن کے بارے میں سورۃ الممتحنہ کی آیات نازل ہوئیں: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کرکے تمہارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کرلو‘‘۔ (الممتحنہ: ۱۰)
یہی معاملہ جہاد کے باب میں بھی ہے۔ اس میں اصول تو یہ ہے کہ بچے اور خواتین وغیرہ جو مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کرتیں، ان کو قتل کرنا حرام ہے۔ مگر جب جنگ ایسی ہو کہ ان کو نشانہ بنانا پڑتا ہو جیسے اگر منجنیق سے ان کی کسی جگہ کو نشانہ بنائیں، یا رات کے وقت حملہ ضروری ہو تو پھر درمیان میں اس طرح کے لوگ مر جائیں، یہ بھی جائز ہوگا۔ مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ طائف کا محاصرہ کیا گیا تو ان کے قلعوں کو منجنیق سے نشانہ بنایا گیا اور رات کے وقت ان میں سے ایسے لوگ بھی نشانہ بن گئے جو سو رہے تھے، مگر یہ فتنے کو دفع کرنے کے لیے ضروری تھا اور اس میں ایسے لوگوں کو مارنا جائز تھا جن کا قتل مقصود نہیں تھا۔
اسی طرح تَتَرُّسْ کا مسئلہ بھی ہے جس کو فقہا نے ذکر کیا ہے۔ تو چونکہ جہاد اس لیے ہوتا ہے کہ کفر کے فتنے کو دفع کیا جائے اور اس بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹا نقصان کرنا پڑے گا۔ اسی بنا پر فقہا کے درمیان اتفاق ہے کہ جب مسلمانوں سے ضرر کو دفع کرنا اس کے بغیر ممکن نہ ہو کہ ان ڈھال بنائے جانے والوں کو قتل کریں تو یہ جائز ہوگا۔ اگر ان کے قتل کا نقصان زیادہ ہو لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ ہو تو اس میں دو قول ہیں۔ (یعنی اس صورت میں جب کہ کافر کسی بچے یا عورت یا اپنے ملک کے کسی مسلمان کو سامنے رکھے تاکہ مسلمان ان کو نشانہ بنانے سے ہچکچائیں اور اس طرح ان کے فوجی محفوظ رہیں)
چوتھی بات کی مثال، جیسے اضطرار کی حالت میں مردار کا گوشت کھانا۔ یہاں کچھ کھا لینا ’حَسن ‘ اور ’واجب‘ ہوتا ہے اور وہ اس کے بغیر ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی حرام کھائے۔ اور اسی کی ’مصلحت‘ راجح ہے۔ یہ حرام چیز نہ کھانا بھی ایک طرح کا ’علاج‘ ہے مگر ’نقصان دہ علاج‘ اور اس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہے۔ کیونکہ اس میں ’صحت‘ کی جگہ ’بیماری‘ آجاتی ہے اور دوسری طرف وہ ’صحت‘ بھی یقینی نہیں ہے جس کے لیے اس ’بیماری‘ کو گوارا کیا گیا ہے۔ اسی طرح شراب کو دوا کے طور پر استعمال کرنے کا معاملہ بھی ہے۔
معلوم ہوا کہ برائی کو دو مقامات پر برداشت کیا جاسکتا ہے، ایک اس مقام پر جہاں زیادہ برائی کو روکنا مطلوب ہو اور وہ برائی اس کے بغیر دفع نہ ہوسکتی ہو کہ چھوٹی برائی کا ارتکاب کیا جائے۔ اور دوسرا اس مقام پر کہ اس برائی کے ارتکاب سے کسی ایسی چیز کا حصول مطلوب ہو جس کا نفع اس برائی کے ارتکاب کی صورت میں ہونے والے نقصان سے زیادہ ہو۔
اور بھلائی کو دو مقامات پر چھوڑا جاسکتا ہے: ایک اس صورت میں جب یہ اپنے سے زیادہ حسن چیز کے فوت ہونے کا ذریعہ بنے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ ایک ایسی برائی کو اپنے ساتھ لائے جس کا نقصان اس بھلائی کے فائدے سے زیادہ ہو۔ یہ سب کچھ دینی موازنات کے ساتھ متعلق ہے۔
رہی یہ بات کہ کوئی واجب اس وجہ سے ساقط ہو جائے کہ اس میں دنیا کا نقصان ہے یا کسی حرام کو اس وجہ سے مباح قرار دیا جائے کہ دنیا میں اس کا احتیاج ہے، جیسے روزے کو سفر کی وجہ سے ساقط کیا گیا ہے اور احرام یا نماز کے بعض ارکان کو بیماری کی وجہ سے ساقط کیا جاتا ہے، تو یہ ایک اور باب ہے جو دین میں وسعت اور عدم حرج میں شامل ہے جس کے حوالے سے قوانین میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
رہا پہلا باب تو اس کی جنس ایسی ہے کہ اس میں قوانین کا اختلاف ممکن نہیں ہوتا، اگرچہ عین کے لحاظ سے وہ بدل جائیں، بلکہ یہ تو عقلاً بھی ثابت ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: عاقل وہ نہیں ہے جو خیر اور شیر میں تمیز کرسکے، بلکہ وہ ہے جو دو خیرین میں سے زیادہ خیر اور دو شرین میں سے زیادہ شر کی پہچان کرسکے، شاعر کہتا ہے:
’’عقل مند وہ ہے جس کے جسم میں اگر دو بیماریاں ظاہر ہوں تو وہ ان میں سے اس کا علاج پہلے کرتا ہے جو زیادہ خطرناک ہو‘‘۔
یہ بات سارے امور کے بارے میں ہے۔
اسی وجہ سے لوگوں کی عقل میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ جب بارش نہ ہو رہی ہو تو ان دنوں میں بارش ان کے لیے رحمت ہوتی ہے، اگرچہ اس کے ذریعے زمین سے جو غلّے پیدا ہوتے ہیں اس سے ظالم اقوام کو ان پر ظلم کرنے کے لیے مزید قوت مل جاتی ہے، مگر بارش نہ ہو تو یہ ان کے لیے زیادہ نقصان کی بات ہے۔ اسی طرح لوگ سلطان کے وجود کو اس کے عدم وجود پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ کسی عاقل کا قول ہے کہ ظالم حکمران کے ساٹھ سال اس سے بہتر ہیں کہ لوگوں کا کوئی حکمران نہ ہو۔
پھر حکمران سے اپنے ظلم اور سرکشی کے حوالے سے یا ان حقوق کے حوالے سے پوچھا بھی جاسکتا ہے، جن کو وہ ناجائز طور پر لوگوں سے چھینتا ہے۔ لیکن میں یہاں کہتا ہوں کہ جو شخص اقتدار کا مالک بن جاتا ہے یا اس کے بعض فروع کا ذمہ دار بنتا ہے جیسے امارت، ولایت، یا قضا وغیرہ، تو اگر اس کے لیے اس کی ذمہ داریاں ادا کرنا اور اس کے محرمات سے بچنا ممکن نہ ہو مگر یہ انہی امور کا ارادہ کرتا ہے جن کی یہ استطاعت نہیں رکھتا، جبکہ دوسرے ان کی استطاعت رکھنے کے باوجود اسے انجام نہیں دیتے، تو اس کے لیے ولایت جائز ہے، بلکہ کبھی تو اسی کی ولایت واجب ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ ولایت ان واجبات میں سے ہے جس کے مصالح کو حاصل کرنا ضروری ہے، جیسے دشمن کے خلاف جہاد، مالِ غنیمت کی تقسیم، حدود کا اجرا اور امن و امان کا قیام وغیرہ، تو اس ولایت کا قیام بھی ضروری ہوگیا۔ مگر جب یہ کام اس کے بغیر ممکن نہیں کہ کسی غیر مستحق کو ہی حکمران بنا دیا جائے اور بعض ناجائز امور انجام دیے جائیں، اور کسی کو بعض ایسی چیزیں دی جائیں جن کا وہ مستحق نہیں تھا اور اس کے لیے ان کا ترک بھی ممکن نہیں ہوتا، تو یہ مسئلہ اس باب سے بن جائے گا کہ ’’جس چیز کے بغیر کسی واجب یا مستحب کا حصول ممکن نہ ہو تو اس چیز کو حاصل کرنا واجب یا مستحب بن جاتا ہے‘‘۔ البتہ اس میں یہ شرط ہے کہ اِس غیر کا فساد اُس واجب یا مستحب کی مصلحت کے مقابلے میں کم ہو۔ (مطلب یہ کہ اس فعل سے ہمیں نقصان کم اور فائدہ زیادہ حاصل ہو رہا ہو) بلکہ اگر ولایت واجب نہ ہو اور وہ کسی ظلم پر مشتمل ہو اور جو شخص ولایت حاصل کرے گا وہ ظلم کو قائم کرے گا اور دوسرا شخص ولایت کا ارادہ اس لیے کرتا ہے کہ ظلم کو کم کرلے، اور اس سلسلے میں زیادہ ظلم کو دفع کرنے کے لیے کم بری چیز کو اپناتا ہے، تو اس نیت کے ساتھ اس کا یہ اقدام جائز ہوگا۔ اور یہ جو چھوٹا گناہ اس نیت سے کرتا ہے کہ اس نقصان کو دفع کرے جو زیادہ ہے تو یہ درست ہوگا۔
یہ وہ باب ہے جس میں نیتوں اور مقاصد کے لحاظ سے تبدیلی آتی ہے۔ مثلاً ایک ظالم اور طاقتور نے کسی سے مال کا مطالبہ کیا، اور وہ مجبور ہے کہ اسے مال دے دے۔ اس دوران ایک اور آدمی ان کے درمیان میں آتا ہے اور مظلوم کے اوپر سے زیادہ ظلم کو دفع کرنے کے لیے اس سے نرمی کے ساتھ مال لے لیتا ہے اور اسے ظالم کے سپرد کرتا ہے کہ مال لے لو مگر اسے کچھ نہ کہو، اور اس طریقے سے مظلوم کی جان اور عزت بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ مگر یہ اس نیت سے درمیان میں آئے کہ ظالم کا حامی بنے تو گناہ گار ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان اشیا میں نیت اور عمل کا فساد دیکھنا چاہیے۔ نیت کا فساد یہ ہے کہ اس اقدام سے اس کا مقصد حکمرانی اور مال حاصل کرنا ہو، اور عمل کا فساد یہ کہ اس کا مقصد محرمات کا ارتکاب اور واجبات کو ترک کرنا ہو۔ وہ یہ اقدام اس لیے نہیں کرتا کہ حرام اور حلال میں تعارض آگیا ہے یا اسے زیادہ صالح اور زیادہ نفع بخش کی تلاش ہے۔
پھر حکمرانی، خواہ جائز ہو، یا مستحب ہو، یا واجب، مگر کسی خاص آدمی کے بارے میں اس کے بجائے کوئی اور چیز زیادہ واجب یا زیادہ محبوب ہوگی، اس صورت میں اس کو کبھی وجوباً اور کبھی استحباباً خیر الخیرین (دو اچھی چیزوں میں جو زیادہ اچھی ہو) کو مقدم کرنا چاہیے۔
حضرت یوسفؑ کو شاہِ مصر کی طرف سے خزائن الارض کی ولایت دیا جانا اسی باب سے تھا، بلکہ انہوں نے خود ہی مطالبہ کیا تھا کہ انہیں زمین کے خزانوں کا ذمہ دار بنایا جائے۔ وہ بادشاہ اور اس کی قوم کافر تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اس سے پہلے یوسف تمہارے پاس بینات لے کر آئے تھے مگر تم ان کی لائی ہوئی تعلیم کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہے‘‘۔ (المومن:۳۴)
دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آبا و اجداد نے رکھ لیے ہیں‘‘۔ (یوسف:۳۹)
یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ ان کے کفر کے باوجود یہ بات ضروری ہے کہ ان کے ہاں کوئی نہ کوئی اصول ہوگا، جس کے ذریعے وہ لوگوں سے مال لیتے تھے اور اسے حکمران، اس کی فوج اور اس کے نوکر چاکروں پر خرچ کرتے تھے اور یہ طریقہ انبیا کی سنت اور ان کے عدل میں شامل نہیں تھا۔ مگر حضرت یوسفؑ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اللہ کے دین کو نافذ کرنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے پہلے شاہی فرمان میں کرنے کا اعلان کرتے، ورنہ قوم اس کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوتی۔ چنانچہ انہوں نے پہلے وہی عدل و احسان کیا جو ان کے لیے ممکن تھا، انہوں نے حکومت کے ذریعے اپنے اہل بیت کا اکرام کیا، جو اس کے بغیر ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہے کہ ’’جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ (التغابن: ۱۶)
جب دو واجب کام ایک ساتھ آجائیں اور ان دونوں کو ایک ساتھ انجام دینا ممکن نہ ہو تو جو زیادہ تاکیدی ہوگا اسی کو مقدم کیا جائے گا۔ اس صورت میں دوسرا واجب نہیں رہے گا، اور جس نے اسے چھوڑ دیا، اس مقصد کے لیے کہ اس نے زیادہ تاکیدی کو اپنایا تو یہ فی الحقیقت واجب کا تارک شمار نہیں ہوگا۔
اسی طرح جب دو حرام ایک ساتھ آجائیں جن میں اگر چھوٹے کو اپنائیں گے نہیں تو بڑے میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو، اس صورت میں ادنیٰ کو اختیار کرنا فی الحقیقت حرام نہیں ہوگا۔
اگر اطلاق کے اعتبار سے اُسے ترکِ واجب اور اِسے فعلِ حرام کا نام دیا جائے تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ اس طرح کے مسئلے میں کہا جاسکتا ہے کہ واجب کو عذر کی وجہ سے ترک کیا گیا اور حرام کو ایک راجح مصلحت، یا ضرورت و احتیاج یا زیادہ حرام کی وجہ سے اختیار کیا گیا۔
یہ تعارض کا باب ہے اور یہ ایک بہت وسیع باب ہے۔ خاص طور پر اُس دور میں اور اُس مقام پر جس میں نبوت اور خلافت علی منہاج النبوۃ کے آثار کم ہوچکے ہوں۔ ان مقامات اور ادوار میں یہ مسائل بہت پیش آتے ہیں۔ اور ان کا موجود ہونا امت میں فتنے کا سبب بنتا ہے۔ جب نیکیاں برائیوں کے ساتھ خلط ملط ہو جائیں، تو اشتباہ پیدا ہوتا ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نیکیوں کو دیکھتے ہیں اور انہی کو راجح قرار دے دیتے ہیں، خواہ اس کے ساتھ زیادہ برائیاں ہی کیوں نہ آجائیں۔ اور بعض لوگ ہوتے ہیں جو برائیوں پر نظر رکھتے ہیں اور اسی پہلو کو راجح قرار دے لیتے ہیں اگرچہ ان کی وجہ سے بڑی بھلائیاں ہی کیوں نہ چھوٹ جائیں۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو متوسط الحال ہوتے ہیں وہ دونوں امور کا خیال رکھتے ہیں۔
ایک عالم کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ان مسائل کی انواع میں فکر و تدبر کرے۔ بعض اوقات۔۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔۔ ضروری ہوتا ہے کہ بعض اشیا میں امر و نہی میں عفو سے کام لیا جائے، یعنی اس کے بارے میں نہ حلال ہونے کا حکم دیا جائے اور نہ اسے بالکل ساقط کرے۔ مثلاً یہ کہ وہ ایک نیک کام کا حکم دیتا ہے مگر اس میں کسی بڑے گناہ کے ارتکاب کا خطرہ ہوتا ہے تو وہ اس خطرے سے بچنے کے لیے اس معروف کا حکم نہ دے۔ جیسے آپ ایک مجرم کو ظالم بادشاہ کے پاس لے جاتے ہیں، اور وہ اسے سزا دینے میں حد سے تجاوز کرے، اور اس سے کوئی ایسا ضرر لازم آجائے جو اس کے گناہ سے زیادہ ہے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ یا مثلاً وہ ایک بُرے کام سے روکے مگر اس سے کسی بڑے معروف کا ترک بھی لازم آئے، جس کا فائدہ اس منکر کے ترک سے زیادہ ہے، تو اس صورت میں اسے منکر کو روکنے سے خاموشی اختیار کرنی چاہیے، اس خوف سے کہ اس کے ساتھ کسی ایسے کام کا ترک لازم نہ آئے، جس کا کرنا اللہ اور اس کے رسول نے لازم کیا ہے۔ اور اس کا فائدہ اس منکر کے ترک سے بہت بڑا ہے، جسے روکنے کا اس نے ارادہ کیا ہے۔
(مجموع الفتاویٰ، ابن تیمیہؒ)
Leave a Reply