
دنیا بھر میں ۷؍ارب ۸۰ کروڑ افراد کے لیے کورونا ویکسین کی دستیابی یقینی بنانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اب تک پوری دنیا سے صرف ایک بیماری کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکا ہے اور وہ چیچک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیو کو پوری دنیا سے ختم کرنے کی کوشش علاقائی بنیاد پر ہی کامیاب ہوسکی ہیں۔ دنیا بھر میں پولیو کے کیس آج بھی سامنے آرہے ہیں۔
کورونا وائرس کا معاملہ محض اخلاقی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ یہ بہت حد تک عمومی تحفظ اور جیو پالیٹکس کا کیس بھی ہے۔ چین اور روس نے کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کو اب سفارتی کرنسی کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ چین کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کو سفارتی کرنسی قرار دینے سے ذرا بھی نہیں ہچکچارہا اور اس نے تو ’’ہیلتھ سِلک روڈ‘‘ کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہنا شروع کردیا ہے۔
آندرے آرٹیگا لکھتے ہیں کہ یورپ نے اب تک کورونا ویکسین کے حوالے سے جو کچھ کیا ہے وہ نیم دلانہ اور ناکافی ہے۔ وعدے اور دعوے تو بہت کیے گئے ہیں مگر یہ سب کچھ عمل کی کسوٹی پر اب تک کھرا ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے نتیجے میں یورپ کو شدید دھچکا بھی لگ سکتا ہے۔
اسٹیفن رِکٹر۔ایڈیٹر اِن چیف دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام
پوری دنیا کو کورونا وائرس اور دیگر بیماریوں کے وائرس سے بچانا لازم ہے۔ اس حوالے سے عالمگیر سطح پر بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے کی مہم شروع کرنا لازم ہے۔ اگر یہ کام مکمل کرنا ممکن نہ ہو تب بھی کوشش تو کرنی ہی ہے۔ یورپ اس حوالے سے سست دکھائی دیا ہے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ یورپی قائدین کورونا کے حوالے سے عالمگیر ویکسینیشن میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ حالیہ جی سیون سربراہ کانفرنس سے تو کچھ ایسا ہی محسوس ہوا ہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے عالمگیر سطح کی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ اب عالمگیر ہے۔ پوری دنیا میں صحتِ عامہ کے لیے خطرات ابھرے ہیں۔ اگر اس مصیبت کا سامنا اور تدارک کرنا ہے تو مل جل کر ہی کچھ کرنا ہوگا۔ امیونائزیشن یعنی بیماریوں سے محفوظ رکھنے والے ٹیکوں اور ویکسینیشن کی مہم کا مکمل کیا جانا لازم نہیں۔ روئے ارض پر بسنے والے ہر انسان کی ویکسینیشن ممکن ہی نہیں۔ ہاں، آبادیوں کی واضح اکثریت کو ویکسین دینا یا ٹیکے لگانا ممکن ہوسکتا ہے اور یوں بیماریوں کی روک تھام ممکن ہے۔
کیا دنیا کے ہر فرد کے لیے کورونا ویکسی نیشن ممکن ہے؟
اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ پوری دنیا کی ویکسینیشن تو دور کی بات رہی، اب تک تمام بچوں کو اس وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگانا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ ہاں، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین فراہم کرنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔
یورپ سمیت پورے مغرب نے اندازہ لگانے میں پھر غلطی کردی۔ برڈ فلو اور سوائن فلو کے حوالے سے بھی مغرب نے غلط اندازے لگائے اور ٹھوکر کھائی اور کورونا وائرس کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں سوائن فلو میکسیکو سے پھیلا اور ۲۰۰ ممالک تک پہنچا۔ اس وبا نے ۱۸؍ہزار سے زائد جانیں لیں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے مغرب کا خیال تھا کہ یہ ایشیا تک محدود رہے گا۔
کورونا کی وبا پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششیں اب تک خاطر خواہ اثرات یقینی نہیں بناسکی ہیں تاہم ہمت ہاری نہیں گئی ہے۔ کوویکس، ویکسین الائنس (گاوی) اور ایکٹ ایکسلریٹر کی لانچنگ کی گئی ہے، جس کا مقصد ویکسین کی دو ارب خوراکوں اور ٹیسٹ وغیرہ کا بندوبست کرنا ہے۔ کم آمدنی والے ۹۲ ممالک میں کم و بیش چار ارب افراد کے لیے کورونا ویکسین کی فراہمی یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
یورپ چاہتا تو بہت کچھ ہے مگر کچھ زیادہ کر نہیں پارہا۔ اب تک ویکسین کی تیاری اور فنڈنگ دونوں معاملات میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکراں نے امریکی صدر جوبائیڈن پر زور دیا ہے کہ اپنی ویکسین کی پیداوار کا کم ازکم ۵ فیصد افریقی ممالک کو فراہم کرے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ امریکا فوری طور پر ۲؍ارب ڈالر اور دو سال کی مدت میں مجموعی طور پر ۴؍ارب ڈالر فراہم کرے گا۔
جی سیون نے رواں سال انتہائی غریب ممالک میں ۲۰ فیصد آبادی کی ویکسینیشن کے لیے ساڑھے سات ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اگر یہ وعدہ بھی ایفا ہو جائے تو کورونا کی عالمگیر ویکسینیشن کے لیے کم ازکم درکار رقم (۲۰؍ ارب ڈالر) کا نصف ہی حاصل ہوسکے گا۔
چین نے الزام لگایا ہے کہ مغربی دنیا نے کورونا ویکسین کی ذخیرہ اندوزی کرلی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریز نے بھی کہا ہے کہ مغرب کے ۱۰ ممالک نے ۷۵ فیصد کی حد تک ویکسینیشن کرلی ہے جبکہ ۱۳۰ ممالک ایسے ہیں جنہیں اب تک کورونا ویکسین کی ایک خوراک بھی نہیں ملی۔ بعد میں آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ۱۳۰ میں سے ۵۶ فیصد ممالک کو اب تک کورونا ویکسین کی ایک خوراک بھی نہیں مل سکی ہے۔
کورونا ویکسین کا معاملہ اس لیے بھی پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے کہ پوری دنیا کو اس وائرس سے بچانے کی بات ہو رہی ہے۔ وائرس کے نئے ورژن سامنے آئے ہیں۔ ایسے میں ویکسین کی پیداوار اور ذخیرہ کاری اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے۔ حکومتوں کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ کورونا ویکسین سب سے پہلے اُن کے باشندوں کو ملے۔ اگر پس ماندہ ممالک کے اربوں افراد کو یہ ویکسین بروقت نہ مل سکی تو ایک بار پھر کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیل جانے کا خدشہ پیدا ہوگا۔
عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کی پہلی خاتون سربراہ (افریقا کی) گونی اوکونجو آئیویالا نے کورونا ویکسین کی بنیاد پر پائی جانے والی قوم پرستی سے خبردار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہوگی کہ عالمی تجارتی تنظیم کی چھتری تلے معاملات درست ہوجائیں۔ گونی اوکونجو آئیویالا نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ کورونا ویکسین کی تیاری کے لائسنس فراہم کیے جائیں۔
چین اور روس نے اب کورونا ویکسین کو اپنے سفارتی مقاصد کے لیے بروئے کار لانا شروع کردیا ہے۔ چین ’’سائنوویک‘‘ کے زیر عنوان کورونا ویکسین تیار کر رہا ہے مگر اُس نے کوویکس ویکسین کی ہوا نہیں لگنے دی ہے۔ روس بھی کورونا ویکسین کو سفارتی وزن بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
کورونا ویکسین سب سے زیادہ تعداد میں بنانے والا ملک بھارت ہے۔ اس نے ایسٹرا زینیکا ویکسین بھی بنائی ہے اور کوویکزن ویکسین بھی تیار کی ہے، جس کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں۔ کہا جارہا ہے کہ بھارت پڑوسیوں کو بھی کورونا ویکسین فراہم کر رہا ہے۔
اب یورپ کو بھی احساس ہو رہا ہے کہ ردِعمل ظاہر کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اسپین کا ارادہ ہے کہ اپریل کے وسط میں آئبیرو امریکا سربراہ کانفرنس میں کورونا ویکسین متوسط آمدن والے ممالک کو فراہم کرنے کا معاملہ اٹھایا جائے۔
افریقا میں آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اس لیے وہاں کورونا ویکسینیشن کی فوری ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔ یورپ کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے افریقا میں بھی ویکسینیشن بہر کیف لازم ہے۔
حاصلِ کلام
ایک بار پھر ناگزیر ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینیشن اور علاج سے متعلق کوششوں کو مربوط کیا جائے۔ یورپ نے ویکسین کی خریداری کو مرکزی نظام کے تحت کرنے کی بات کرکے عالمگیر اشتراکِ عمل کا ڈول ڈال کیا ہے۔ یورپ نے کورونا کی وبا سے نمٹنے کے معاملے میں ابتدائی مرحلے میں بُودے پن کا مظاہرہ کیا تھا، مگر اب وہ سنبھل چکا ہے اور اہم اقدامات کر رہا ہے۔ جی ٹوئنٹی نے پلان آف ایکشن تیار تو کرلیا تھا مگر اس پر اب تک عمل نہیں ہو پایا۔ کورونا وائرس کے نئے ورژن سامنے آئے ہیں جبکہ دوسری بیماریاں بھی ہیں جن سے بروقت نمٹنا لازم ہے۔ یہ تصور تیزی سے جڑ اور زور پکڑ رہا ہے کہ ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Immunizing the World: Can We Do It?”. (“theglobalist.com”. February 24, 2021)
Leave a Reply