
صدر امریکا بارک حسین اوباما نے پاکستان و افغانستان سے متعلق جس نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے وہ بیک وقت بہتر امکانات اور بدترین خدشات سے بھری ہوئی ہے۔ آنے والے دنوں میں ان میں سے کون سی بات سامنے آئے گی، اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ یہ پالیسی صدر اوباما کے اعلانیہ نظریئے اور طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھتی ہے یا امریکی اسٹیبلشمنٹ کے روایتی طرزِ عمل کو جاری رکھتے ہوئے ایک نئی حکمت عملی کے بطور اختیار کی گئی ہے۔ اگر اسے اوباما کے اعلانیہ نقطہ نظر کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں خوش گمانیوں کے پہلو موجود ہیں اور شبہات کو مثبت تعبیر دی جا سکتی ہے تاہم اس پہلو سے بھی اس میں کئی باتیں وضاحت طلب ہیں۔
بارک اوباما نے افغانستان کے مسئلے کو پاکستان سے جوڑ کر دیکھا ہے اور یہ بات فرض کی جا سکتی ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے بنیادی مقصد کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے قبائلی علاقوں کی بے قابو صورتحال نیز پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے مسئلہ کو اس سے منسلک کر کے ایک جامع حکمت عملی پر کام کرنے کی شروعات کی جائے۔ ’’جامع حکمت عملی‘‘ اپنانے کا اعلان تو وہ پہلے سے کرتے ہی رہے ہیں اور ان کی نئی پالیسی کے اعلان سے حکمت عملی کی جو جامعیت سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان میں برسوں اور صدیوں سے چلی آ رہی افراتفری اور انارکی کو، عوام کی حقیقی نمائندگی پر مبنی جمہوریت کا نظام قائم کر کے بالآخر ختم کیا جائے۔ اوباما یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوج کے اہداف واضح نہیں تھے۔ انہوں نے افغانستان آپریشن کے ذمہ داروں سے یہ وضاحت بھی طلب کی تھی کہ افغانستان میں ہمارا مشن آخر ہے کیا؟ انہیں اس سوال کے جو جوابات ملے وہ اس سے مطمئن نہیں تھے اور اس کے بعد ہی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ واضح اہداف کے ساتھ اور پوری طرح مرکوز حکمت عملی اپنائی جائے۔ جس میں وہاں سے فوج کی واپسی کا پروگرام بھی شامل ہو۔ اوباما کے دعوئوں اور اعلانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ اس مسئلہ کو سمجھ چکے ہیں کہ مغربی ملکوں کے ذریعے افغانستان (یا دیگر مسلم ممالک) میں جمہوریت اور استحکام کی جو ظاہری کوششیں ہوتی رہی ہیں ان میں ان کا خاص زور اس بات پر رہا ہے کہ اپنے تابعدار اور مغربی اقدار کی پیروی کرنے والے لوگوں کو اقتدار میں لایا جائے جبکہ ان لوگوں کو جو اپنے مذہب اور اپنی سماجی روایتوں میں یقین رکھتے ہیں یا معاشرے اور ریاست کا کردار اسلامی بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں اقتدار سے باہر رکھنے کی کوشش کی جائے۔ جس کی وجہ سے حکومت عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں ہوتی ہے اور عوام اسے ایک تھوپی ہوئی حکومت سمجھ کر اس کے خلاف برسرپیکار رہتے ہیں۔
چنانچہ اوباما کی نئی پالیسی کی اگر مثبت تعبیر ڈھونڈی جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو تو وہ ’’دشمن‘‘ سمجھتے ہیں اور انہیں الگ تھلگ کر کے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں متحارب طالبان کو جمہوری عمل میں شریک ہونے کا موقع دینا چاہتے ہیں اور اپنے تئیں ایک غیر جانبدار اور آزاد انتخاب کے ذریعے عوام کی پسند کے لوگوں کو مقامی نظریات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے کی چھوٹ دینا چاہتے ہیں۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وہ عسکری گروہوں پر سخت دبائو بنائیں گے اور عسکریت پسندوں کو جہاں سے کمک اور رسد مل رہی ہے یا جو ان کی کمین گاہیں ہیں وہاں وہ فوجی قوت جھونکیں گے۔ یہ واضح طور پر پاکستان کے قبائلی علاقے ہیں جنہیں دنیا کا سب سے خطرناک علاقہ کہا جا رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جو شورش برپا ہے، اس کی وجہ پاکستانی حکومت کی پالیسیاں اور سابقہ امریکی انتظامیہ کی اسلام مخالف جنگ میں اس کا ساتھ دینا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ افغانستان میں امریکی قبضہ گیری کے خلاف جنگ کرنے والے مجاہدین کو بھی یہاں پناہ اور مدد ملتی ہے۔ مگر امریکی حکومت ان دونوں معاملوں کو ملا کر دیکھتی ہے۔ چنانچہ اوباما اور ان کی انتظامیہ اس منصوبے پر کام کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کہ پاکستان کے تمام قبائلی علاقوں میں گھیرا تنگ کیا جائے اور جو غیر ملکی مجاہدین یا اسامہ بن لادن و ایمن الظواہری اور ان کی مبینہ تنظیم القاعدہ یہاں موجود ہے انہیں یا تو ختم کر دیا جائے یا یہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا جائے۔
قبائلی علاقوں پر یہ دبائو بنانے کی ذمہ داری اوباما نے پاکستان پر ڈالی ہے وہ اپنی فوج وہاں نہیں بھیج رہے ہیں۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی اہلیت کو بڑھانے کے مقصد سے پہلے تو وہ ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے وہاں عدلیہ اور چیف جسٹس کو بحال کروانے، نیز اپوزیشن کے ساتھ ٹکرائو ختم کرنے کے لیے حکومت پر دبائو بنایا۔ اور اب وہ ’’نئی پالیسی‘‘ کے تحت پاکستان کو بڑی خطیر مالی اور فوجی امداد دے رہے ہیں۔ لیکن اوباما اس بات کو بھی سمجھ رہے ہیں اور پاکستان کی موجودہ حکومت نے بھی انہیں اس پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ فوجی کارروائی ہی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ بلکہ مذاکرات کے ذریعے لوگوں کی جائز امنگوں کو سمجھنے اور انہیں پورا کرنے کی کوشش بھی کی جائے اور ترقیاتی منصوبے پر کام کر کے قبائل کی پسماندگی کو دور کرنے کا کام بھی کیا جائے۔ چنانچہ پاکستان کو جو مالی امداد دی جا رہی ہے اس کا ایک بڑا حصہ ڈیولپمنٹ پر خرچ ہو گا۔ لیکن ایک بہت بڑی حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قبائل کے عسکریت پسند نوجوانوں اور انہیں تائید و حمایت دینے والے ان کے قبائل پسماندگی اور غربت کی وجہ سے آمادہ جنگ نہیں ہیں۔ ان کا اصل ایجنڈا یامطالبہ اپنی روایتی خود مختاری کو برقرار رکھنا اور شرعی قوانین کے تحت جینے کی آزادی کو محفوظ رکھنا ہے۔ ان کا اعتبار پاکستانی حکومت اور سیاستدانوں پر سے اٹھ چکا ہے اور وہ ملک کی حکومت اور فوج کو امریکا کا آلہ سمجھ کر اس کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ اس لیے اوباما اگر واقعی تنازعات کا خاتمہ چاہتے ہیں اور لوگوں کے اپنی پسند کی زندگی جینے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں (جیسا کہ وہ اپنی تقریروں میں کہتے رہے ہیں) تو انہیں سرحدی قبائل کے ان جذبات اور مطالبات کا احترام کرنا ہو گا اور انہیں یہ بھروسہ دلانا ہو گا کہ امریکا براہِ راست یا پاکستانی حکومت کے ذریعے ان پر غیر ملکی اور غیر اسلامی کلچر تھوپنا نہیں چاہتا ہے۔
سوات کی وادی میں شرعی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ پورا کر کے پاکستانی حکومت نے اس سمت میں ایک قدم اٹھایا ہے۔ اس پیش رفت کی عالمی سطح پر شدید نکتہ چینی ہوئی تھی لیکن بارک اوباما کی طرف سے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ اس لیے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان حکومت نے انہیں اعتماد میں لے کر یا ان کی ایما سے یہ فیصلہ کیا۔ لیکن علاقے میں سرگرم عسکریت پسندوں کو اس معاملے میں حکومت کی نیت پر شبہ ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس میں شک و شبہ کو دور کرنے کے لیے واضح علامتیں سامنے لائی جائیں۔
پاکستان کی طالبانی تحریک افغانستان کی تحریک مزاحمت کا ایک ایکسٹینشن (توسیع شدہ حصہ) ہے اگر افغانستان و پاکستان میں عوام کی حقیقی نمائندگی پر مبنی شفاف انتخابی عمل کا ایک مستقل نظام قائم ہو جائے اور غیر ملکی (امریکی) مداخلت کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا جائے تو دونوں ملکوں میں آمادہ ٔ جنگ لوگوں کے محرکات کمزور پڑ جائیں گے اور ایک پرامن سیاسی معاشرہ قائم ہونے کی امید پیدا ہو جائے گی۔ اس لیے بارک اوباما اگر افغانستان میں طالبان یا دیگر مزاحمت پسندوں سے مذاکرات پر آمادہ ہیں تو یہ موقف پاکستان کے متحارب گروپوں کے معاملے میں بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک اسامہ بن لادن یا القاعدہ کا تعلق ہے تو اس معاملے میں بھی بارک اوبامہ ان مفروضات پر چل رہے ہیں جو انہیں سابقہ انتظامیہ نے وراثت میں سونپ دیے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں اوبامہ آخر ایک بدلا ہوا نقطہ نظر کیوں نہیں اختیار کر سکتے؟ اور خود ۱۱ ستمبر کے واقعہ کے بارے میں وہ ان شکوک و شبہات پر توجہ کیوں نہیں دینا چاہتے جنہیں امریکا کے کئی دانشور حلقے قابلِ فہم تجزیات کے ذریعے قوم کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں۔
جڑواں ٹاوروں کی تباہی اور پینٹاگون کی عمارت پر حملے کے بارے میں اب ایک ہی نظریہ باقی نہیں بچا ہے، بلکہ بہت سے لوگ اسے ایک سازش اور فرضی حملہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے اسامہ بن لادن یا ۱۱ ستمبر کے حوالے سے بش انتظامیہ کے اسٹیریو ٹائپ نظریئے پر ہی اوباما یقین رکھیں گے تو ان کے اپنے فہم اور اپنے نقطۂ نظر کی صلاحیت مشکوک ہو جائے گی۔ اسامہ بن لادن کا ظہور جس بنیادی مسئلہ کے حوالے سے ہوا تھا وہ یہ تھا کہ امریکی حکومت پوری مسلم دنیا میں بے جا مداخلت کر رہی ہے اور مسلم ملکوں کے حکمرانوں کو اپنے آلہ کار کی طرح استعمال کر رہی ہے۔ مسلم ملکوں میں عوام کی رائے کو آزادی کے ساتھ اظہار کا موقع نہیں مل رہا ہے او وہاں کے معاملات عوام کی مرضی اور خواہش کے بجائے امریکا اور اس کے حلیف ملکوں کے منصوبوں کے مطابق چل رہے ہیں اور ان ملکوں میں اسلامی تہذیب کے مقابلے پر امریکا اور یورپ کی بے دین تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس اشتعال انگیز احساس کو بغاوت اور مزاحمت میں تبدیل کرنے کی وجہ یہ بات بنی کہ کعبہ اور روضہ رسول کی مبارک و محترم سرزمین کے آس پاس امریکی فوج نے ڈیرے ڈال دیے اور نہ صرف امت مسلمہ کا جسم بلکہ رگ جاں بھی امریکا کے خونخوار پنجوں کی گرفت میں آ گئی۔ اسامہ بن لادن اس صورت حال کے خلاف اعلان جنگ کی علامت ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں پوری مسلم دنیا کی ہمدردی اور خاموش حمایت حاصل ہے۔ چنانچہ بارک اوبامہ اگر غلطیوں کی تلافی چاہتے ہیں تو اسامہ بن لادن کے موقف کو بھی سمجھنے کی ضرورت انہیں محسوس کرنی پڑے گی۔ وہ اسامہ بن لادن سے براہ راست بات کریں یا نہ کریں لیکن اسامہ بن لادن جن مسائل کی پیداوار ہیں ان مسائل کو تو انہیں حل کرنا ہی ہو گا۔ وگرنہ وہ ایک اسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش سے نئے اسامہ پیدا کرنے کی غلطی کرتے رہیں گے۔ اور بارک حسین اوباما تاریخ کی ایک قابل فخر ہستی بننے کے بجائے ایک اور قابل لعنت و ملامت امریکی بن کر تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جائیں گے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’افکار ملّی‘‘ دہلی۔ مئی ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply