مصر کا موجودہ بحران اس حوالے سے خطرناک ہے کہ جمہوریت کی طرف سفر کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہو رہی ہیں۔ سیاست کے اصولوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں صدر محمد مرسی کے حامی اور مخالفین دونوں ہی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔
صدر مرسی نے آئینی اعلامیہ جاری کرکے ہنگامہ برپا کردیا۔ اخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا لازم تھا کیونکہ ایسا نہ کیے جانے کی صورت میں آئینی عدالت کی جانب سے صدر کے اختیارات میں کٹوتی کا حکم نامہ جاری کیے جانے کا خدشہ تھا۔ اگر عدالتی فیصلہ آ جاتا تو منتخب اسمبلی کی حیثیت غیر موثر ہو جاتی۔ مشاورتی کونسل بھی ختم کردی جاتی۔ اسی عدالت نے جون میں پارلیمان بھی تحلیل کی تھی۔
اگر صدر مرسی کو آئینی عدالت پر بھروسا نہیں تھا تو اس کا سبب بھی ایسا نہیں کہ سمجھا نہ جاسکے۔ اس کے تمام جج حسنی مبارک کے دور میں مقرر کیے گئے تھے اور چند ایک نے اخوان المسلمون کے حوالے سے اپنی معاندانہ سوچ کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔
بہر کیف، صدر کا جاری کردہ اعلامیہ بڑی غلطی تھا۔ اپنے آپ کو قانونی کارروائی سے مستثنیٰ قرار دے کر صدر مرسی نے کئی ججوں کو ناراض کردیا۔ انہوں نے سیکولر، قوم پرست اور انقلابی سوچ رکھنے والوں کو یکساں طور پر ناراض اور متذبذب کردیا۔ حسنی مبارک دور میں اقتدار میں رہنے والے عناصر نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھاکر صدر کے خلاف محاذ قائم کرلیا۔ ان میں چند جرنیل، جج اور کاروباری افراد شامل ہیں، جنہوں نے سابق حکمراں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے دور میں بہت مال بنایا تھا۔ اپوزیشن لیڈر محمد البرادعی نے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ صدر مرسی کے مخالفین نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر یہ تاثر دیا ہے کہ اخوان نے قومی سیاست کو ہائی جیک کرلیا ہے اور اب ملک کو اس پارٹی کے شکنجے سے کسی نہ کسی طور نکالنا ہی ہوگا۔ صدر مرسی کے اعلامیے کے بعد سے ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں۔ پرتشدد جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ ایسے میں اخوان المسلمون الگ تھلگ ہوکر رہ گئی ہے۔ ان کے ساتھ صرف سلفی مسلک کے لوگ رہ گئے ہیں۔
اپوزیشن نے بھی ایک بھیانک غلطی کی ہے۔ بائیں بازو اور قوم پرستوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے نوجوانوں کے چند گروپس کے ساتھ مل کر صدر مرسی کے خلاف محاذ تو قائم کرلیا مگر ساتھ ہی ساتھ انہوں نے سابق حکمران حسنی مبارک کے ساتھیوں کو بھی ساتھ ملاکر معاملات کو مزید بگاڑ دیا۔ یہ لوگ جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کے نام پر اخوان المسلمون سے دشمنی نکال رہے ہیں۔ ملک میں ایک بار پھر لوٹ مار اور خون خرابہ شروع ہوگیا ہے۔ قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں ایک بار پھر حکومت کے مخالفین جمع ہیں۔ ملک کو جمہوریت کی طرف لے جانے والے راستے پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نیشنل سالویشن فرنٹ کے سربراہ اسامہ غزالی حرب کہتے ہیں کہ اخوان اور صدر مرسی سے مقابلے کی کوشش میں حسنی مبارک کے ساتھیوں سے ہاتھ ملانا کوئی اچھا سودا نہیں ہے۔ اس حوالے سے ان سے بھیانک غلطی سرزد ہوئی ہے۔
صدر مرسی اور اخوان المسلمون کی جانب سے آئین پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کا راستہ روکنے کی کوشش بجائے خود بڑی خرابی پیدا کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اخوان کے مخالفین کو موقع درکار تھا، جو انہیں آسانی سے مل گیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جمہوریت کی طرف جانے والا راستہ بند ہو جائے۔ سابق دور حکومت کے عناصر سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ افراد کے گروہ ایک بار سرگرم ہوگئے ہیں۔ ان جرائم پیشہ افراد کو دو سال قبل تحریر اسکوائر میں انقلاب پسند لوگوں کے خلاف بھی عمدگی سے استعمال کیا گیا تھا۔ لوگوں کو وہ مناظر یاد ہیں، جب اونٹوں پر سوار جرائم پیشہ افراد نے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی وردی میں حسنی مبارک کے مخالفین پر بدترین تشدد سے گریز نہیں کیا تھا۔
اپوزیشن کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ آئین کے نئے مسودے پر ریفرنڈم کرایا گیا تو مصری عوام کی اکثریت تائید میں فیصلہ دے گی اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صدر مرسی کو ایک بار پھر عوام کی حمایت ملے گی اور ان کی قانونی حیثیت مزید مستحکم ہو جائے گی۔ سابق حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے عناصر نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے وہ جرائم پیشہ افراد سے بھی مدد لے رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح حکومت کو دباؤ میں لیں اور عوام کو یہ یقین دلا دیں کہ ملک کو جمہوریت کی طرف لے جانے کا دعویٰ کرنے والی جماعت (اخوان) دراصل صرف خرابیاں پیدا کرنے والے حالات کو جنم دے رہی ہے۔ صدر مرسی نے بھی معاملات کو درست کرنے کا عندیہ دے دیا ہے جو اپوزیشن کے لیے یقیناً کوئی اچھی خبر نہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ نئے آئین کے مسودے سے بعض متنازع شقیں نکال دی جائیں اور قومی اتفاق رائے کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں تیز کردی جائیں۔
اپوزیشن کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے نئے آئین کے مسودے کی مخالفت کرتے کرتے ایسی حرکات کی ہیں جن سے عوام کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ وہ ایک منتخب اور قانونی حکومت کا تختہ الٹنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ صدر نے اپنا اعلامیہ واپس لے لیا ہے اور نئے آئین کے مسودے پر ریفرنڈم کے لیے بھی گرین سگنل دے دیا ہے، مگر اس کے باوجود اپوزیشن اپنی بات پر اَڑی ہوئی ہے اور اب تک وہ ریفرنڈم کے خلاف جانے کی بات کر رہی ہے۔ عوام کو یہ سب کچھ عجیب لگ رہا ہے۔ صدر مرسی کا پیچھے ہٹ جانا بھی اپوزیشن کو رام کرنے میں ناکام رہا ہے، جو اس امر کا مظہر ہے کہ اپوزیشن کچھ اور چاہتی ہے۔ یعنی اخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہ، جبکہ یہ حکومت عوام کی مرضی سے قائم ہوئی ہے۔ چند عجیب و غریب تجاویز بھی سامنے آئی ہیں۔ علا الاسوانی (Alaa Al-Aswany) کا کہنا ہے کہ تمام ناخواندہ افراد کو ریفرنڈم میں رائے دینے سے روک دیا جائے۔ مصر میں ۲۶ فیصد آبادی ناخواندہ ہے اور ۳۳ فیصد خواتین ہیں۔
مصر کا موجودہ سیاسی بحران جمہوریت کی طرف لے جانے والے راستے پر کوئی آخری رکاوٹ نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر میں یہ کشمکش جاری ہی رہے گی۔ حسنی دور میں مزے کرنے والے یقینی طور پر سب کچھ آسانی سے برداشت اور قبول نہیں کریں گے اور ملک میں حقیقی، جمہوری تبدیلی لانے والے حالات کو سبوتاژ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مصر کو سیاسی امور میں مکمل قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ انقلاب کے بعد سے ملک میں معیشت کا قبلہ درست نہیں کیا جاسکا ہے۔ دو برس کی مدت میں خرابیاں بڑھتی گئی ہیں۔ اخوان المسلمون کے لیے بھی ملک کو بہتر ڈھنگ سے چلانا کوئی آسان کام نہیں۔ اپوزیشن کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ غیر ضروری دباؤ ڈالنے کا سلسلہ تھمے۔ دوسری طرف صدر مرسی اور اخوان المسلمون کو بھی بیشتر امور میں اتفاق رائے اور افہام و تفہیم کی راہ پر چلنا ہوگا تاکہ بے جا تصادم کی راہ ہموار نہ ہو۔ اپوزیشن کو یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ اسلام نواز عناصر ملک کی سیاست کا لازمی اور ناگزیر جز ہیں۔ ان کے وجود سے انکار ملک میں مزید انتشار اور تشدد کی راہ ہموار کرے گا۔ اخوان کو بھی چاہیے کہ تمام سیاسی عناصر کو ساتھ لے کر چلے تاکہ محاذ آرائی اور تصادم سے بچا جاسکے۔ مصر پہلے ہی خاصا غیر مستحکم ہے۔ ایسے میں سیاسی بحران آتے رہے تو مسائل بڑھتے ہی رہیں گے۔ کسی بھی اہم ایشو پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا ہی دانش مندی ہوگی۔ یہ تاثر نہیں دیا جانا چاہیے کہ اخوان تمام سیاست دانوں کو ساتھ لے کر نہیں چلنا چاہتی یا یہ کہ ہر معاملے میں اپنی بات منوانا چاہتی ہے۔
(مضمون نگار معروف ’’الجزیرہ‘‘ ٹی وی چینل کے دس سال سربراہ رہے۔ گزشتہ سال انہوں نے اس ذمہ داری سے استعفیٰ دے دیا تھا۔)
(“In a Polarised Egypt, the Thugs and the Remnants Return to Centre Stage”…”The Guardian”. Dec. 12th, 2012)
Leave a Reply