
بین الاقوامی سوسائٹی برائے کرشنا ISKCON بنگلا دیش میں وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہو رہی ہے۔تاہم،اس کے اثر ونفوذ میں اضافے کی وجہ سے مسلمانوں میں تشویش اور اضطراب پیدا ہورہا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ اذان کے دوران بھی ہندو موسیقی اور ڈھول بجانے سے احتراز نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ مختلف ہندو جماعتوں کے سرکردہ افراد اس عمل کی تائید نہیں کرتے لیکن ISKCON اس پر عمل پیرا ہے۔ ۲۰۱۴ء تک اس کے بنگلا دیش میں ۱۹۰۰ تا حیات ارکان تھے،اس وقت یہ تعداد ۳۵۰۰۰ کے لگ بھگ ہے۔جبکہ ان سے وابستہ غیر ارکان افراد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں ان کے ۳۵ مندر تھے اب یہ تعداد ۷۱ تک پہنچ گئی ہے۔ ۱۹۹۰ء کے اواخر میں ISKCON نے پرانے ڈھاکا میں واقع سوامی باغ مندر کو اپنے قبضے میں لیا،اب یہ ان کا مرکزی دفتر ہے۔اس کے عین بالمقابل ۳۵۰ سالہ قدیم،تاریخی جامع مسجد سوامی باغ ہے،پانچ منزلہ عمارت پر مشتمل اس مسجد میں تقریباً ۱۵۰۰ نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔سوامی مندر کے لاؤڈ اسپیکرپر اکثر تیز موسیقی اور ڈھول کی تھاپ کی آواز سے نمازوں میں دانستہ خلل پیدا کیا جاتا ہے۔اس سال اگست کے آخری ہفتے میں کرشنا کے جنم دن کی تقریب کے موقع پر مندر سے مستقل، رات گئے تک اونچی آواز میں موسیقی اور کرشنا کے نعرے بلند کیے جاتے رہے۔عصر،مغرب اور عشاء کی نماز کے دوران بھی وقفہ نہیں کیا گیا۔خادم مسجد، مؤذن اور مقامی افراد حتیٰ کہ معتدل ہندو بھی اس شرمناک عمل پر خاصے برہم اور ناراض دکھائی دیے۔
مقامی ہندو تپن داس نے بتایا کہ ISKCON کے کچھ ارکان کافی عرصے تک مجھے اپنی رکنیت اختیار کرنے پر اصرار کرتے رہے۔ اس کا کہنا تھا کہ میں اسی ملک میں پروان چڑھا، میں نے ہمیشہ دیکھا کہ ہندو اپنی پوجا اور مذہبی رسومات کے وقت اذان کے احترام میں رک جاتے تھے، لیکن یہ لوگ انتہائی بدتہذیب اور بداخلاق ہیں، نماز کے اوقات کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔مسجد کمیٹی کے نائب چیئرمین محمد سراج الدین کا کہنا تھا یہ انتہائی درجے کا غلط عمل ہے۔انھوں نے بتایا کہ ہم ان افراد کو براہ راست کچھ نہیں کہتے کہ جھگڑے اور فساد کی کیفیت پیدا ہو۔بلکہ ہم انتظامیہ سے رجوع کرتے ہیں،ہم نے پولیس سے بھی کئی با ر شکایت کی۔ ISKCON کے افراد نے ہم سے اذان اور نماز کے اوقات کا شیڈول مانگا جو ہم نے فراہم کردیا۔کچھ دن کے لیے یہ لوگ رک گئے لیکن پھر اپنی ان حرکتوں کو شروع کردیا۔ ISKCON بنگلادیش کے سابق صدر کرشنا کرتن داس سے جب ہم نے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے پہلے تو ان الزامات کو ماننے سے انکار کردیا، پھر کہا ہر شخص حساس اور ایک جیسا رویہ نہیں رکھتا،مزید کہا جب میں عہدے پر تھا تو اس وقت بھی ایسی شکایات آئی تھی لیکن میں نے اس کو رکوادیا تھا۔ تاہم، اگلے ہی روز کرتن داس کیمرے کے سامنے اپنے اس بیان سے انکاری ہوگئے۔ ۲۰۱۴ء میں رمضان کے دوران بھی مندر انتظامیہ سے کہا گیا تھا کہ تراویح کے وقت ڈھول اور موسیقی سے اجتناب کریں۔لیکن ان کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کی وجہ سے کشیدگی کی فضا پیدا ہوگئی تھی،مقامی بزرگوں اور انتظامیہ کی مداخلت پر حالات قابو میں آئے تھے۔
جنرل سیکرٹری ہندو، بدھا، کرسچن پرشاد ایڈوکیٹ رانا داس گپتا نے اس پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اس جگہ پر مندر اور مسجد تو برسوں سے موجود ہیں پہلے تو ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوتی تھی،اب کیوں؟ انھوں نے کہا اس طرح کا رویہ مستقبل کے لیے مثبت پیش خیمہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ISKCON بین الاقوامی تنظیم ہے،اسے تحمل وبرداشت اور دوسرے مذاہب کا احترام کرنا چاہیے۔
سوامی باغ آ شرم کے بھرم چاری ایشوا گوراہداس جنھوں نے راجشاہی یونیورسٹی سے ۲۰۱۳ء میں میتھ میٹکس میں ماسٹرز کیا ہے، ان کا کہنا تھا تقریباً ہر سرکاری یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیم کے مراکز میں کم از کم ۳سے ۴؍ اساتذہ ISKCON کے پیروکار ہیں۔ ان جامعات میں ڈھاکا میڈیکل کالج، بنگلادیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، کھلنا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، بنگلا دیش ایگریکلچر یونیورسٹی اور سلہٹ ایگریکلچر یونیورسٹی و دیگر نمایاں ہیں۔ ISKCON کی رکنیت کی بنیادی شرط یہ ہے کہ امیدوار کم ازکم SSC پاس اور نوجوان ہو۔ ISKCON نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے فروغ کے لیے استعمال کرتی ہے۔ گوراہداس کا کہنا تھا ISKCON کی پذیرائی نوجوانوں میں سب سے زیادہ ہے۔کافی لوگوں کا خیا ل ہے بنگلادیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے طالب علم ابرار فہد کے مبینہ قتل میں ISKCON کا رکن امیت ساہا ملوث ہے۔
امیت ساہا پر لگنے والے الزامات کو محض اس لیے واپس لے لیا گیا تھا کہ اس کا تعلق ISKCON سے ہے اور اسے بچا نے کے لیے اس تنظیم نے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا تھا۔ امیت ساہا، بنگلادیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے سول انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کا طالب علم اور عوامی لیگ کے طلبہ ونگ کا ذمہ دار بھی ہے۔ الیکٹریکل ڈپارٹمنٹ کے طالب علم ابرار فہد کو اس کے کمرے میں تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ تمام بڑے اخبارات، ٹیلی وژن، سوشل میڈیا اور بہت سارے یونیورسٹی کے طلبہ کا کہنا ہے کہ امیت کا تعلق ISKCON سے ہے، اس نے ابرار کے فیس بک اکاؤنٹ کو چیک کیا اور اسے جماعت اسلامی کی طلبہ ونگ شبر کا کارکن ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ پورے ملک میں جب ابرار کی ہلاکت کی خبر پھیلی تو چھاترو لیگ کے کئی کارکنان کی گرفتاری اور یونیورسٹی سے اخراج عمل میں آیا تھا۔ لیکن امیت کو اس وقت بھی گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ ۸؍اکتوبر کو اپنے ایک بیان میں ایڈیشنل کمشنر تفتیشی برانچ نے صحافیوں کو بتایاکہ امیت کو جان بوجھ کر اس کیس سے بری نہیں کیا گیا، اگر ضرورت پڑی تو اس کو گرفتار کر لیا جائے گا۔بالآخر ۱۰؍اکتوبر کو امیت کی گرفتاری عمل میں آئی اور ۱۱؍اکتوبر کو عدالت نے اسے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔تاہم،مرکزی آشرم کے بھرم چاری سشل داس کا کہنا ہے کہ ISKCON کو جان بوجھ کر اس کیس میں ملوث کیا جا رہا ہے۔
اس سال جولائی میں ISKCON نے اپنے “Food for life” پروگرام کے تحت چٹاگانگ کے ۱۰؍اسکولوں کے بچوں میں غذائی سامان کی تقسیم کی، اس دوران انہیں ’’ہری کرشنا ہری رام‘‘ کہنے پر مجبور کیا گیا۔ تیمور عالم ایڈوکیٹ اس مسئلے کو ہائی کورٹ میں لے گئے۔ جسٹس نجم الحسن اور جسٹس قمرالقدیر پر مشتمل بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا NGO اسکولوں میں غذائی سامان تقسیم کر سکتے ہیں لیکن یہ عمل قطعاً غلط ہے کہ بچوں کو سامان کے لالچ میں اس طرح کے منتر کو پڑھنے پر مجبور کیا جائے۔
اگلے ہی دن ISKCON نے چٹاگانگ پولیس کے نام معذرت کا خط لکھا اور انہیں اس پروگرام کی وضاحت کرنی پڑی۔ جنرل سیکرٹری ISKCON سری کرشنا مندر جگناتھ نے بھی پریس کانفرنس میں اس پر معذرت کی اور کہا مستقبل میں اس کا خیال رکھا جائے گا۔ ایک الزام یہ بھی ہے کہ ISKCON نے زبردستی ایک ہندو مندر پر قبضہ کیا۔ جس پر فسادات پھوٹ پڑے تھے اور ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا۔ ۲۰۱۸ء میں مندر کو بند کرکے دفعہ ۱۴۴لگا دی گئی تھی۔ اس وقت یہ مندر ISKCON کے زیر انتظام ہے۔
(ترجمہ: محمودالحق صدیقی)
“In Bangladesh, ISKCON is throwing its weight about”. (“southasianmonitor.com”. October 29, 2019)
Leave a Reply