کابل میں کوئی خودکش حملہ نہ بھی ہو تو اکثر یہ بندوق بردار گروہوں کی گرفت میں ہوتا ہے، جنہیں ملکی اشرافیہ کا تحفظ اور آشیرباد حاصل ہوتی ہے، اگر قومی حکومت اس بدامنی پر قابو نہیں پاسکتی تو یہ امر بہت سے لوگوں کے لیے باعث حیرت ہوگاکہ پھر یہ ملک کے دور دراز علاقوں میں پھیلی یورش پر کیسے قابو پاسکتی ہے؟
کابل پولیس کے چیف جنرل سید محمد روشن دل نے نیویارک ٹائمزکو ایک انٹرویو میں بتایاکہ ’’عوام کی اکثریت کی تشویش کی وجہ وہ ٹھگ گروہ ہیں، جو طاقت کی بات کرتے ہیں، جو قانون شکنی کرتے ہیں، جن کے پاس مسلح ملیشیا ہیں‘‘۔ نئے وزیر داخلہ امر اللہ صالح اور پولیس چیف جنرل روشن دل کے آنے کے بعد اب حکومت نے کابل میں امن و امان کی بحالی کی منظم کوششیں دوبارہ شروع کر دی ہیں، جوکہ ریکارڈ ہلاکتوں کی وجہ سے ختم ہو چکی تھیں یا کرپشن اور وار لارڈز کے طاقت کے غلط استعمال کی وجہ سے کمزور پڑ چکی تھیں۔
گزشتہ موسم خزاں میں پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کابل اور اس کے گرد ونواح میں داعش کے ٹھکانوں پر ایک بھرپور حملہ شروع کیا تھا۔ اس مہم کا سہرا امریکی اور افغان حکام کو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں حملوں میں کمی آئی ہے، اگرچہ شورش پسند چوری چھپے ٹرک بم حملوں کے لیے گولہ بارود لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اب پولیس فورسز کابل میں قائم ’’جرائم کے اہرام‘‘ توڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
حکام کہتے ہیں کہ انہوں نے شہر کے ان پندرہ سو افراد کی شناخت کرلی ہے، جو جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور جن کے پاس تیس ہزار غیر قانونی ہتھیار موجود ہیں۔ ان کی بیخ کنی کا کام نچلی سطح سے شروع کیا گیا ہے اور اوپر بیٹھے چند طاقتور ہاتھوں تک جائے گا۔ جنرل روشن دل کہتے ہیں کہ ہم جرائم کی بنیادوں کو اس لیے ہلا رہے ہیں تاکہ اوپر کی عمارت خود ہی مسمار ہو جائے۔
اب ایک نیا حکم نامہ جاری ہوا ہے، جس کے تحت پک اَپس اور ٹرکوں میں بیٹھے مسلح افراد کے لیے فوجی یا انٹیلی جنس اہلکاروں کا پیچھا کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے، مقامی پولیس کہتی ہے کہ وہ مجرموں کے گروہوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ہر طرح کی طاقت استعمال کرے گی اور اس سلسلے میں اسپیشل فورسز بھی اس کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ نیا حکم جاری ہونے کے بعد پہلے ہی دن پولیس نے ملک کے نائب صدر اور پارلیمان کے طاقتور ارکان کی گاڑیاں قبضے میں لے لیں اور یہ ایسا اقدام ہے جس کا پہلے تصور بھی محال تھا۔
اس طرح کے اقدامات نے کابل میں ایک خوشگوار تبدیلی پیدا کی ہے اور اب امید ہوگئی ہے کہ پولیس طاقتور مقامی مافیا پر پوری شدت سے ہاتھ ڈالے گی۔
جنرل روشن دل کو جو ۱۴؍برس تک فوج میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں، ستمبر میں اس وقت پولیس چیف مقررکیا گیا تھا جب کابل میں خودکش حملے عام تھے اور شہر ایک محاذ جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ انسداد دہشت گردی کا تجربہ رکھنے والے انٹیلی جنس چیف اور امریکی ایڈوائزرز کی مدد سے مقامی پولیس نے کابل شہر اور اس کے گرد و نواح میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے لیے تابڑ توڑ حملے کیے ہیں۔
امید کی اس کرن کی ایک وجہ نئے وزیر داخلہ امر اللہ صالح کی تقرری بھی ہے، جنہوں نے اس پولیس فورس کو ایک مرتبہ پھر ایک قومی ادارے کے طور پر اپنے پاؤں پرکھڑا کیا ہے، جو صرف گزشتہ چار برس میں اپنے ۱۹۰۰۰ جوانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔
امر اللہ صالح نے جو سابق انٹیلی جنس چیف رہ چکے ہیں، اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پولیس پر مقامی وار لارڈز کا اثر و رسوخ کم سے کم کر دیں گے اور پولیس فورس سے بدعنوانی کا خاتمہ کر دیا جائے گا، اگرچہ ان کے اٹھائے گئے کئی اقدامات کو کابل میں سراہا جارہا ہے، مگر تجزیہ نگار اور مقامی شہری کہتے ہیں کہ پھیلی ہوئی تباہی سے نمٹنے کے لیے مزید گہری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔
ویمین اینڈ پیس اسٹڈیز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر وزمہ فروغ کہتی ہیں ’’گزشتہ ہفتے سے عوام کی رائے تبدیل ہو گئی ہے، اب لوگ پُرامید ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ صورتحال میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے، لیکن اگر یہ کریک ڈاؤن جاری نہیں رہتا اور مجرمان اس دباؤ کی عارضی لہر کو برداشت کر جاتے ہیں تو وہ زیادہ طاقتور ہوکر ابھریں گے‘‘۔
کابل میں بیکری چلانے والے ۲۶ سالہ محمد ظہیر کا نئے وزیر داخلہ کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’جب آپ نئے نئے کسی عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو آپ توانا اور پرجوش ہوتے ہیں، مگر وقت یہ ثابت کرے گا کہ یہ سب کچھ محض دکھاوا ہے یا وہ سنجیدہ ہیں، مگر ایک دو ہفتوں سے کابل کی صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔ جرائم پیشہ افراد اس کے نام سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ بہت سے طاقتور لوگوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے‘‘۔
پچھلے ہفتے گرفتار کیے جانے والوں میں ملیشیا کا ایک کمانڈر بھی شامل ہے، جس پر ایک سو غیر قانونی ہتھیار رکھنے کا الزام تھا۔ ایک پارلیمانی امیدوار بھی ان میں شامل ہے، جو بزور طاقت بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرتا تھا اور ایک رکن پارلیمان کا بھائی بھی، جس پر بھتہ لینے کا الزام تھا۔
مگر یہ سارا کام اتنا آسان نہیں ہے، جب پولیس نے ایک ملزم عبدالحمید خراسانی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو وہ مقابلے پر اتر آیا، جس سے شمالی کابل مفلوج ہو کر رہ گیا اور وہ پولیس کے اندر اپنے چند بہی خواہوں کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ اب ایسی ویڈیو منظر عام پر آگئی ہیں جن میں خراسانی نے خود کو انصاف کے لیے لڑنے والے ایک جنگجو کے طور پر پیش کیا ہے، جسے وزیر داخلہ اپنے انتقام کا نشانہ بنا رہا ہے اس کے بقول جو خود سی آئی اے کا جاسوس ہے۔
حال ہی میں ایسی تصاویر بھی بانٹی گئی ہیں، جن میں خراسانی ایک ہاتھ میں کلاشنکوف تھامے اپنی کتاب کی نمائش کرتا دکھائی دیتا ہے، جس کا عنوان ہے Introduction to the Science of Politics اور اس کے عقب میں عراق کے سابق صدر صدام حسین اور لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کے بڑے بڑے پوسٹر بھی نظر آتے ہیں۔
امر اللہ صالح نے اپنے اسٹاف ممبرز کو بتایا کہ وہ پروفیشنلزم کے نئے معیار مقرر کرنا چاہتے ہیں، جس کے بعد پولیس کا بھی احتساب کیا جاسکے گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پولیس کو ترقی و تنزلی کے معاملات میں مقامی وار لارڈز کے اثر و رسوخ سے بچانے کا عزم بھی دہرایا۔
کابل میں امر اللہ صالح نے مشتبہ افراد کے ناموں کا اعلان کیا، جن میں نیچے سے لے کر اوپر تک لوگ شامل ہیں اور انہیں الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ وہ سرنڈر کرکے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دیں۔ اگر پولیس کو اپنے کام میں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو ان کی مدد کے لیے اسپیشل کمانڈوز کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
جنرل روشن دل کہتے ہیں ’’وہی پولیس جو کل تک ان بدمعاشوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتی تھی یا تھوڑا سا دباؤ پڑنے پر کنی کترا جاتی تھی، اب وہ سینہ تان کر کھڑی ہوتی ہے، حالانکہ ان کی تعداد میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی انہیں کوئی نئی ٹریننگ دی گئی ہے۔ اب وہ نئی امید پیدا کر رہے ہیں، ہم نے عوام کے لیے جو نئی توقعات پیدا کر دی ہیں، ہم انہیں ایک یقین میں بدلنا چاہتے ہیں اور ہم یہ کام اسی پولیس کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں، جس پر کل تک کوئی اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘‘۔
“In chaotic Afghan capital, crackdown on crime is turning heads”. (“Newyork Times”. Jan. 16, 2019)
Leave a Reply