
غزہ اور خان یونس کے حالات پر اب آنسو بھی خشک ہوچکے ہیں، فلسطینیوں کی جانب سے۳۰ مارچ سے ’’گھرواپسی‘‘ کے نام سے اسرائیل کی لگائی گئی باڑ کے قریب عظیم مارچ کا آغاز کیا گیا۔
اس مارچ کا مقصدفلسطینیوں کو ان کے گھروں تک واپسی کا حق دلانا ہے جہاں سے انہیں۱۹۴۸ ء میں نکال دیا گیا تھا۔ ۴۳ سالہ صابرین النجار نے جنوبی غزہ میں واقع اپنے گھر میں الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آخری بارانہوں نے اپنی بیٹی کو زندہ کب دیکھا تھا۔صابرین نے کھڑے ہوکر مسکراتے ہوئے استقبال کیا، وہ اپنے رشتے داروں اور دوستوں میں گھری ہوئی تھیں۔ وہ احتجاج کا دسواں جمعہ تھا، جس میں صابرین کی ۲۱ سالہ بیٹی رزان اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بنیں۔ رزان زخمی فلسطینیوں کی رضاکارانہ طبی امداد میں مصروف تھیں صابرین نے بتایا کہ’ ’بس میری آنکھیں جھپکیں اور میری بیٹی گھر سے باہر تھی، میں اسے دیکھنے کے لیے بھاگ کر بالکونی میں گئی، وہ پوری گلی پار کرچکی تھی، وہ میرے سامنے سے کسی چڑیا کی طرح اڑ گئی‘‘۔ غزہ میں مظاہرے کی جگہ پر موجود عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ’’رزان زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے باڑ کے قریب پہنچیں، وہ مخصوص میڈیکل لباس پہنے ہوئے تھیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو غیر مسلح ثابت کرنے کے لیے کافی دور سے ہی اسرائیلی فوجیوں کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے،وہ باڑ کے دوسری جانب موجود زخمی مظاہرین کو وہاں سے نکالناچاہتی تھیں،جس کے لیے انہوں نے باڑ کاٹ کرجانے کا راستہ بنایا۔ اسرائیلی فوجیوں نے رزان کو سینے میں گولی ماری، جو ان کی پشت کو چیرتے ہوئے باہر نکل گئی۔رزان فلسطینیوں کی گھر واپسی مہم کی۱۱۹ ویں شہید ہیں۔ جب کہ اس مہم کے دوران اب تک ۱۳ ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔ رضار کار ردا نجار نے الجزیرہ کوبتایا کہ ’’ میں گولی لگنے کے وقت رزان کے بالکل ساتھ کھڑی تھی،جیسے ہی ہم نے زخمیوں کی امداد کے لیے باڑ کو پار کیا اسرائیلی فوجیوں نے ہم پر آنسو گیس چلائی،پھراسنائپر سے رزان کو گولی ماری گئی، جو اس کے سینے کو چیرتے ہوئے نکل گئی۔ اس گولی کے بارود سے ہماری ٹیم کے مزید تین لوگ بھی زخمی ہوئے۔ پہلے تو رزان کو احساس ہی نہیں ہوا کہ انہیں گولی لگی ہے،پھر وہ میری پیٹھ، میری پیٹھ کہہ کر رونے لگیں اور زمین پر گر گئیں۔حالانکہ صاف نظر آرہا تھا کہ ہم کون ہیں،ہم نے یونیفارم پہن رکھے تھے، میڈیکل بیگ ہمارے ہاتھ میں تھے اور ہمارے گرد کوئی مظاہرین بھی موجود نہیں تھے، وہاں صرف ہم موجود تھے‘‘۔ ۲۰؍اپریل کو الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے رزان کاکہناتھا کہ’’مظاہرے میں شریک ہونا اور زخمیوں کی مدد کرنا میں اپنا فرض سمجھتی ہوں، اسرائیلی فوج جتنے لوگوں کو گولی مارنا چاہے مار سکتی ہے، یہ پاگل پن ہے، اپنے لوگوں کے ساتھ مظاہرے میں موجود نہ ہونا میرے لیے سخت باعث شرمندگی ہوگا‘‘۔

گزشتہ ماہ نیویارک ٹائمز سے بات چیت میں رزان نے اپنے کام کے حوالے سے زبردست جوش وجذبے کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہناتھا کہ’’ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہے، زخمیوں کی مدد کرنا اور لوگوں کی زندگیاں بچانا،ہم یہ کام اپنے ملک کے لیے کررہے ہیں، یہی انسانیت کی خدمت ہے‘‘ رزان نے عورتوں کے باہر نکل کرکام کے حوالے سے معاشرے کے رویے کو بھی مسترد کردیا۔ وہ خود دن میں ۱۳ گھنٹے کام کررہی تھیں۔ رزان صبح۷بجے کام پر آتیں اور رات۸ بجے واپس جاتی تھیں۔ رزان کاکہناتھاکہ’’خواتین کے حوالے سے اکثر باتیں کی جاتی ہیں، مگر معاشرے کو ہمیں قبول کرنا پڑے گا، اگر لوگ خواتین کو خود سے قبول نہیں کریں گے تو انہیں ایسا کرنے کے لیے مجبور کردیا جائے گا کیونکہ ہم مردوں سے زیادہ طاقتور ہیں‘‘۔ صابرین نے بتایا کہ ان کی بیٹی ۳۰مارچ سے شروع ہونے والی مہم کے بعد سے زخمی مظاہرین کی امداد میں سب سے آگے تھی،وہ خان یونس میں ایک جانا پہچانا چہرہ بن گئی تھی۔ اس نے کبھی پروا نہیں کی کہ لوگ کیا کہتے ہیں، اس کی ساری توجہ اپنے کام یعنی لوگوں کو طبی امداد دینے پر تھی، اس سے اس کے عزم اورہمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صابرین کا مزید کہناتھاکہ میری بیٹی کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا، وہ ایک رضاکار تھی،اس نے اپنے لوگوں کے لیے بہت کچھ کیا۔
علاقے میں موجود رضاکاروں نے الجریزہ کو بتایاکہ اسرائیلی فوج مظاہرین کو نئی قسم کی گولی سے نشانہ بنارہی ہے، اس کا نام ’’بٹرفلائی بلٹ‘‘ہے۔ یہ گولی ہڈیوں، رگوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ شدید اندرونی زخم کا باعث بنتی ہے۔ صابرین نے بتایاکہ رزان کو جان بوجھ کر براہ راست بٹر فلائی بلٹ سے نشانہ بنایا گیا، جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ صابرین نے اسرائیلی فوجیوں کو ظالم اور ناقابل معافی قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تاکہ قاتلوں کو سزادلائی جاسکے،اس کے بعد وہ خاموش ہوگئیں۔ پھر صابرین نے کہا ’’ کاش میں اپنی بیٹی کو سفید شادی کے لباس میں دیکھ سکتی نہ کہ اس کفن میں‘‘ ان الفاظ نے وہاں موجود خواتین کو رلا دیا۔ فلسطینی وزارت صحت سے جاری بیان کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ کے مشرقی علاقے میں جمعہ کو غیر مسلح رضاکاروں کو نشانہ بنایا، رضاکاروں کی ٹیم طبی عملے کا لباس پہنے تھی اور زخمیوں کی مدد کررہی تھی۔ رضاکاروں نے اپنے ہاتھ بھی اوپر اٹھا رکھے تھے، تاکہ بتایا جاسکے کہ بھاری اسلحے سے مسلح قابض اسرائیلی فوج کو ان سے کوئی خطرہ نہیں، اس کے باوجود قابض اسرائیلی فوج نے رضاکار رزان کے سینے میں گولی مار دی اور کئی رضاکاروں کو زخمی کردیا۔ ریڈ کریسنٹ ا یمرجنسی کے ڈائریکٹر محمد الحسی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’’گولی لگنے کے بعد اسپتال منتقلی سے قبل انہوں نے رزان کو طبی امداد دی تھی۔ رزان کو گولی مارنا اسرائیل کی پہلی خلاف ورزی ہے اور نہ آخری، طبی عملے پر حملہ کرنا جنگی جرم ہے۔ چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت جنگ اور امن دونوں میں طبی عملے کی مدد کرنا ضروری ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدر کے مطابق اسرائیلی حملوں میں جمعے کو۱۰۰ سے زائد مظاہرین زخمی ہوئے جن میں سے۴۰ گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے جب کہ دیگر کو آنسو گیس کی وجہ سے زخم آئے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ’’گھر واپسی مارچ‘‘ کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی فوج نے ۲۳۸ طبی عملے کے رضاکاروں اور ۳۸؍ایمبولینسوں کو نشانہ بنایا ہے۔ رزان کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں رزان کے ساتھیوں کو اسپتال میں روتے دیکھا جاسکتا ہے، ان کے چہروں پر غم و غصہ بہت واضح تھا۔
ٹوئٹر پر رزان کے حوالے سے ہیش ٹیگ ’’اینجل آف مرسی‘‘ استعمال کیا گیا، ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے د نیا بھر کے صارفین رزان کے قتل کی مذمت کررہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے اقوام متحدہ کے اسپیشل کوآرڈینیٹر نکولے نے ٹوئٹ کی کہ’’طبی عملہ کوئی ہدف نہیں، اسرائیل کو طاقت کا استعمال محدود کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں رزان کی موت کی تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے صورتحال کا ذمہ دار حماس کو قرار دیا، (غزہ کا انتظام حماس کے ہاتھ میں ہے) اس بیان میں حماس پر بچوں اور عورتوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ رزان کے جسد خاکی کی آمد سے قبل اس کے والد رزان کا خون سے بھرا ہوا میڈیکل یونیفارم لے کر باہر آئے اور میڈیا کو دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ ہے رزان کا ہتھیار، انہوں نے یونیفارم کی جیب سے پٹیاں اور کاٹن نکال کر میڈیا کو دکھا یا اور پھر کہا یہ ہے رزان کاہتھیار‘‘۔

(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“In Gaza, grief and pain for slain ‘angel of mercy’ paramedic”. (“aljazeera”. June 3, 2018)
Leave a Reply