سری لنکا ایک بار پھر دو راہے پر کھڑا ہے۔ گوٹابایا راجا پکسا نے صدر کا منصب سنبھال لیا ہے۔ سری لنکا میں مصائب کی ایک طویل تاریخ ہے۔ سری لنکا نے بہت کچھ جھیلا ہے اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ سری لنکا میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تب لوگ بہت سی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں کہ اب کچھ بہتری آئے گی، معاملات درست ہوں گے اور ملک سلامتی و ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ ایک بار پھر پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ صدر کے منصب پر گوٹابایا راجا پکسا براجمان ہیں۔ اُن کے عہدِ صدارت میں اکثریتی طبقے کے راج کا خطرہ توانا تر ہوگیا ہے۔ محسوس کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق قوانین وضع اور نافذ کریں گے۔ اُن کے خلاف ووٹ دینے کے حوالے سے اقلیتوں میں غیر معمولی خوف پایا جاتا ہے۔
۱۶ نومبر کے صدارتی انتخابات نے سری لنکا کو گوٹابایا راجا پکسا کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ اب زیادہ سخت قوانین کے وضع اور نافذ کیے جانے کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ اپوزیشن تذبذب کی حالت میں ہے جبکہ عوام میں غیر معمولی اضطراب پایا جاتا ہے۔ گوٹابایا راجا پکسا کے حامی بہت خوش ہیں کہ اب ملک سلامتی، ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اپوزیشن کی یو این پی کا امیدوار اجیت پریما داسا صدارتی انتخاب میں ہار گیا۔ اس شکست کا تجزیہ کرکے غلطیاں دور کرنے کے بجائے یہ جماعت قیادت کی اندرونی لڑائی میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔
ایک طرف بھرپور اکثریت ہے اور دوسری طرف کمزور اپوزیشن۔ یہ سری لنکن عوام کے لیے بہت مشکل وقت ہے۔ پانچ سال کے دوران جمہوریت کو مستحکم کیا گیا ہے اور اب اس کے ثمرات سمیٹنے کا وقت ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کے ثمرات داؤ پر لگ گئے ہیں۔
مسلمانوں اور تامل زبان بولنے والے ہندوؤں نے گوٹابایا راجا پکسا کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ یہ دونوں برادریاں شدید خوف کے عالم میں ہیں کیونکہ انہیں معاندانہ کارروائیوں کا خدشہ ہے۔ جس اکثریتی راج کے یہ خلاف تھیں وہ اب سامنے کی حقیقت ہے۔
نئی عبوری حکومت گوٹابایا راجا پکسا کے بھائی مہندا پکسا کی سربراہی میں قائم ہوگئی ہے۔ کابینہ بھی تشکیل دی جاچکی ہے۔ پارلیمانی انتخابات ہی طے کریں گے کہ اب پانچ سال تک کس کا راج ہوگا۔
پارلیمانی انتخابات کے بعد آئین میں تیرہویں اور انیسویں ترمیم کے حوالے سے بہت کچھ مرکزِ نگاہ ہوگا۔ ان دونوں ترامیم کا تعلق اقتدار میں شراکت اور ایگزیکٹیو کے اختیارات کو منضبط کرنے سے ہے۔ یہ دونوں ترامیم سیاسی مہم جوئی کے طور پر تیزی سے منظور کی گئی تھیں۔ اور انہیں اب تک ادھوری تصور کیا جاتا ہے۔ اگر راجا پکسا برادران نے ان میں کسی تبدیلی کی کوشش کی تو شدید منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
سری لنکن معیشت اچھی حالت میں نہیں۔ طویل خانہ جنگی کے دوران اور اس کے بعد بہت سے اچھے مواقع ضائع کردیے گئے۔ عالمی معیشت میں پیدا ہونے والی گراوٹ بھی سری لنکن معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ سابق حکومتوں کی ناکامیوں سے نئی حکومت کیا سبق سیکھے گی۔ کیا اکثریتی راج کے تحت جابرانہ انداز اختیار کرکے خرابیوں کو مزید بڑھاوا دیا جائے گا؟ چند ماہ کے بعد یہ طے ہوگا کہ پارلیمانی استحکام کی کیفیت کیا ہوگی، سویلینز کے معاملات میں فوج کے کردار کا معاملہ کیا ہوگا، عدلیہ اور میڈیا کے کردار کا کیا بنے گا۔ یہ وقت ایسی حزب اختلاف کے کھڑے ہونے کا ہے، جو مطلق العنانیت کی راہ روکنے کی صلاحیت و سکت رکھتی ہو۔
اگر حکومت کو واضح اکثریت حاصل ہو تب بھی محض اکثریت کے حصول کو کامیابی کی دلیل نہیں مانا جاسکتا۔ ایسٹر کے موقع پر ہونے والی دہشت گردی کے باعث حکومت کی آمدنی میں خاصی گراوٹ آئی ہے۔ حکومت سادگی اپنانے پر مجبور ہے۔ اخراجات میں کٹوتی کی جارہی ہے۔ معاشی شرح نمو بھی گرگئی ہے۔ بیرونی قرضوں پر بڑھتے ہوئے انحصار کو کم کرنے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر کو مستحکم کرنے پر بھی حکومت متوجہ نہیں۔ دیہی ترقی کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ یہ تمام عوامل مسائل کو مزید خطرناک بنارہے ہیں۔ صدر، ٹیکنوکریٹک چیمپینز اور وزیر اعظم کے اقدامات سے اب تک تو کچھ بہتر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
سری لنکا کو عجیب بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ ایوان صدر اور پارلیمان دونوں ہی طرف سے مطلق العنانیت کا خطرہ موجود ہے اور توانا تر ہوتا جارہا ہے۔ مہندا راجا پکسا اور گوٹابایا راجا پکسا کی شکل میں دو بھائیوں میں اقتدار و اختیار کا ارتکاز ہوگیا ہے۔ ریاستی امور میں خرابی بڑھنے کے آثار ہیں۔ اپوزیشن کو کمزور سے کمزور تر کرنے کی شعوری کوشش بعید از قیاس نہیں۔ عدلیہ، میڈیا اور شہری آزادیوں پر قدغن لگائے جانے کا خطرہ ہے۔ ان تینوں کا کردار محدود کیے جانے کی کوشش کا خدشہ ہے۔ قوم پرستی اور سوشلزم کی اپنی مضبوط بنیاد کو بروئے کار لاکر سیکورٹی کے نام پر نگرانی کا وہی پرانا نظام لانے کی کوشش کی جاسکتی ہے، جس کے تحت کریک ڈاؤنز بھی ہوں گے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ قومی معیشت کو فروغ دینے کے لیے بیرونی طاقتوں اور ذرائع مثلاً بھارت، چین، امریکا اور کیپٹل مارکیٹس پر زیادہ انحصار کیا جائے۔
پہلی دفاعی لائن کے طور پر تو ان اسلاموفوبک فورسز کے خلاف صف آراء ہونے کی ضرورت ہے، جنہوں نے اکثریتی طبقے میں اپنی جڑیں گہری کرلی ہیں۔ حکومت کو اسلام یا کسی بھی اور مذہب کے حوالے سے بے بنیاد باتوں کا پھیلایا جانا روکنا ہوگا۔ عشروں کی محنت کے بعد جن آدرشوں کا حصول ممکن بنایا جاسکا ہے اُن کے دفاع کے لیے پوری قوم کو اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ معاشی استحصال کے خلاف مزدور تنظیموں اور تحریکوں کو بھرپور جوش و خروش کے ساتھ آواز بلند کرنی ہوگی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“In Gotabaya’s Lanka: Many fear the rise of majoritarian sentiment in Sri Lanka”.(“Indian Express”. November 28, 2019)
Leave a Reply