
تیل کی قیمت ۵۰ ڈالر فی بیرل پہنچ جانے سے ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اضافہ توانائی کی معیشت و سیاست میں کسی نئے دور کے ظہور کی علامت ہے۔ اس سوال کو اگر مزید کریدا جائے تو سوال کی نئی شکل یہ ہو گی کہ کیا ہم ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں کہ تیل کی مستقل شدید ضرورت اور سپلائی کا غیرمعمولی فقدان قیمت میں مستقل اضافے کا سبب بنا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم مگر اس کا جواب ہاں میں ہو سکتا ہے جس کی کم از کم صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے چین۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق امریکی روزانہ تقریباً دو کروڑ دس لاکھ بیرل تیل خرچ کرتے ہیں لیکن چین روزانہ ۶۴ لاکھ بیرل تیل خرچ کرتے ہوئے دوسرے نمبر پر ہے اور اس کی ضرورت ۲۰۲۰ء تک دوگنی ہو جائے گی جیسا کہ مختلف تجزیہ نگاروں نے گذشتہ ہفتے واشنگٹن ڈی سی میں منعقدہ “Centre for Strategic & International Studies (CSIS) کی کانفرنس میں اظہارِ خیال کیا۔ علاوہ ازیں چین اپنی نئی ضروریات کا بیشتر حصہ درآمدات کے ذریعہ پورا کرے گا۔ چین کی اپنی ملکی پیداوار روزانہ ۳۵ لاکھ بیرلز کی مقدار کے ساتھ مستحکم ہے۔ یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ چین کی یا دیگر ترقی پذیر ممالک کی بالخصوص ہندوستان کی اضافی ضرورت‘ تیل کی کتنی اضافی مقدار کی پیداوار کی متقاضی ہو گی۔ تیل کے زلزلہ خیز بازار زلزلے کی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ۱۹۷۴ء تک امریکا دنیا میں سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک تھا۔ سپلائی وافر مقدار میں تھیں اور تیل کی قیمتیں امریکا کے اپنے کنٹرول میں ہوتی تھیں جیسا کہ Daniel Yergin نے اپنی ۱۹۹۱ء کی تصنیف “The Prize” میں وضاحت کی ہے۔ یرجین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اپنی اضافی پیداواری صلاحیت کے ساتھ دی ٹیکساس ریل روڈ کمیشن‘ جو اپنے اس نام کے باوجود تیل سے متعلق امور کی تنظیم کا ذمہ دار تھا‘ قیمتوں کے استحکام کی خاطر پیداوار کو محدود کر دیا کرتا تھا اور بحرانی وقت کے لیے ’’سکیورٹی ریزرو‘‘ کا اہتمام کیا کرتا تھا۔ مارچ ۱۹۷۱ء میں اس کمیشن نے بھرپور پیداوار کی اجازت دے دی تھی تاکہ تیل کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کیا جاسکے۔ اس طرح امریکا کا اضافی ذخیرہ ختم ہو گیا۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں اور اس طرح OPEC مزید طاقتور ہو گیا۔ ہم تبدیلی کے اس نکتے پر جہاں کہ تیل کا عالمی نظام ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے‘ ایک مختصر المدت تصویر کشی یقینا پہلے ہی سے موجود رہی ہے۔ ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۹ء تک دنیا کی تیل کی ضرورت میں ہر سال روزانہ تقریباً دس لاکھ بیرلز تیل کا اضافہ ہوتا گیا۔ جیسا کہ یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے سربراہ Guy Caruso نے CSIS کی کانفرنس میں انکشاف کیا۔ لیکن ۲۰۰۴ء میں یہ مقدار غیرمتوقع طور پر ۲۷ لاکھ بیرلز یومیہ تک پہنچ گئی۔ تیسرا اضافہ چین کی طرف سے کیا گیا جو بجلی کی کمی کے سبب تھا۔ پاور حاصل کرنے کا کوئی قابلِ اعتماد ذریعہ نہ پاکر فیکٹریوں نے اپنے یہاں جنریٹر نصب کر لیے۔ چین کے ریگولر پاور پلانٹس میں کوئلے کا استعمال ہوتا ہے جبکہ جنریٹرز میں درآمد شدہ ڈیزل استعمال ہوتے ہیں۔ چین نے اس مسئلے کا حل مزید پاور پلانٹس تیار کر کے اور ریل کی دشواریوں کو دور کر کے کیا جس وجہ سے کوئلے کی شپمنٹ میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی تھیں۔ لیکن اب کی تیل کی ضرورت کی نئی وجوہات ہیں۔ چین میں اس وقت ۲ کروڑ کی تعداد میں کاریں اور ٹرکیں ہیں۔ جیسا کہ انرجی کنسلٹینٹ James Dorian کا کہنا ہے۔ ۲۰۲۰ء تک ان کی تعداد ۴ کروڑ تک پہنچ جائے گی (۲۰۰۱ء میں امریکا میں کاروں‘ وینوں اور ٹرکوں کی تعداد ۲۳ کروڑ تک تھی)۔ تیل کی روز افزوں ضرورت نے تیل کے پیداوار کے عالمی نظام کو ان کی حدوں میں محدود کر دیا ہے۔ CSIS کے Frank Verrastro کا کہنا ہے کہ تقریباً ۱۵ لاکھ بیرلز کی یومیہ Spare Capacity ۳۰ سالوں میں انتہائی کم ترین Capacity ہے۔ سپلائی کا سب سے بڑا مرکز سعودی عربیہ میں ہے۔ اونچی قیمتیں جزوی طور سے سپلائی میں مزید پیدا ہونے والی رکاوٹوں کے خوف کی مظہر ہیں جو کہ دہشت گردی‘ جنگ‘ سیاسی اتھل پتھل یا حادثات کے سبب ہو سکتی ہیں۔ نظری طور پر اونچی قیمتیں جزوی طور سے خود اصلاح کا سبب بھی ہو سکتی ہیں۔ اس سے مانگ کم ہو سکتی ہے اور سپلائی بڑھ سکتی ہے لیکن نظریے کی‘ نئے حقائق سے ہم آہنگی کی خاطر ہمیشہ تجدید ہونی چاہیے۔ یہاں دو طرح کا نظریہ ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ امیر ترین ممالک میں خاص طور سے امریکا میں بڑھتی ہوئی آمدنی کے پیشِ نظر تیل کی اونچی قیمتوں کا برداشت کرنا آسان ہے۔ حالیہ ترین مہینے میں امریکا کی تیل کی ضرورت میں درحقیقت ایک سال قبل کی بہ نسبت ۲ فیصد کا اضافہ ہوا (اور وہاں اس طرح افراطِ زر کو ایڈجسٹ کیا گیا۔ آج گیس کی قیمت ان سطحوں سے جو ۱۹۸۰ء اور ۱۹۸۱ء میں پہنچ گئی تھیں‘ اب بھی تقریباً تین گنی نیچی ہیں)۔ ایک دوسری حقیقت یہ ہے کہ بڑی تیل کمپنیاں تیل کے نئے ذخائر تلاشنے میں یا تو دلچسپی کم لے رہی ہیں یا اپنے اندر اہلیت نہیں پاتیں۔ Credit Suisse First Boston کی رپورٹ ہی کہ آدھی سے زائد اہم کمپنیاں اپنی کم ہوتی ہوئی تیل کی مقدار کی تلافی دوسری کمپنیوں کے تیل کے ذخائر خرید کر کر رہی ہیں یا اپنے موجودہ ذخائر کا ازسرِ نو جائزہ لے رہی ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں تیل کمپنیوں نے اپنی دو تہائی مقدار کی جگہ نئی دریافت شدہ ذخائر کو کام میں لایا۔ Verrastro کا کہنا ہے کہ یہ خراب کارکردگی اس بات کی مظہر ہے کہ تیل کے عالمی ذخائر کا ۷۲ فیصد سرکاری تیل کمپنیوں کے کنٹرول میں ہے۔ نجی کمپنیاں تیل کی دریافت کا ٹھیکہ ایسے عالم میں بھی قبول کر لیتی ہیں جبکہ انہیں نقصان کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور فائدے کی امید تھوڑی ہوتی ہے۔ اب تیل کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آج کی خریداری کے پیچھے جو خوف محسوس کیا جارہا ہے وہ اگر سچ ثابت نہیں ہوتا ہے تو قیمتیں گِر بھی سکتی ہیں۔ لیکن طویل المیعاد رجحانات حوصلہ افزا نہیںہیں۔ تیل کی عالمی مانگ لامتناہی ہے اور عالمی سپلائی کی گنجائش کم معلوم ہوتی ہے۔ خلیج فارس کے مشکل ذخائر پر انحصار شاید مزید بڑھ جائے گا۔ لہٰذا عالمی معیشت غیریقینی اور مہنگے ایندھن کی یرغمال ہو کر رہ جائے گی۔ جو تیل پیدا کرنے والے ممالک ہیں وہ مضبوط تر ہوں گے اور تیل خرچ کرنے والے ممالک کمزور تر ہو جائیں گے۔ طویل المیعاد فراہمی کے معاہدات کے لیے خرچ کرنے والے ممالک کے مابین مسابقت تیز ہو سکتی ہے۔ چین نے پہلے ہی اس طرح کے کچھ معاہدات کر لیے ہیں۔ امریکیوں کے لیے پیغام بہت سادہ ہے۔ ہم اپنی تیل کی ضروریات کا ساٹھ فیصد درآمد کرتے ہیں۔ ہم کسی بھی وقت تیل کی درآمد اچانک روک نہیں سکتے ہیں لیکن ہم اپنی داخلی پیداوار بڑھا کر اور ایندھن ٹیکس بڑھا کر اسے محدود ضرور کر سکتے ہیں۔ (مطلب یہ ہے کہ ٹیکس کی شرح اونچی کر کے‘ گیسولین کی کوالٹی کا معیار سخت کر کے‘ چھوٹی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کر کے اور ہائبرڈ اِنجنز کا رجحان عام کر کے)۔ یہ اقدام ہمارے اپنے خطرات کو کم کرے گا اور باقی دنیا کی جانب سے پڑنے والے دبائو سے بھی نجات دلائے گا۔ ایسی بحث جو پیداوار زیادہ خرچ کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرے‘ غلط ہے۔ ہمیں دونوں کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۴ اپریل‘ ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply