
ممکنہ طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اب امریکا وسطیٰ ایشیا میں عسکری مداخلت ختم کردے گا۔تاہم،خطے میں انتشار اور عدم استحکام برقرار رہے گا۔یکم اکتوبر کو تاجکستان اور طالبان حکومت کے درمیان شروع ہونے والی کشیدگی اور لفظی جنگ کے نتیجے میں روس نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔اگر چہ ان دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان باہمی تعاون کا معاہدہ موجود ہے۔ افغانستان میں جاری غیر یقینی صورتحال کے باوجود روس کی قیادت میں حلیف ممالک تاجکستان،افغانستان سرحد پر جنگی مشقوں کی تیاری کررہے ہیں۔ وسطی ایشیا کے یہ ممالک اپنی سلامتی کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔امریکا کے افغانستان سے انخلا کے بعد روس اور چین آپس میں مزید قریب آرہے ہیں۔ لیکن ابھی صورتحال واضح نہیں کہ خطے میں ان ممالک کے تعاون اور مسابقت کی کیا صورت بنتی ہے۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے کچھ ہی دن بعد روس نے ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ دو جنگی مشقیں کی ہیں۔ان مشقوں میں ۲۵۰۰؍افواج نے حصہ لیا تھا۔
چین بھی اپنے دفاع کے حوالے سے پیش بندی کررہا ہے۔ روس کی فوجی مشقوں کے فوری بعد، چین نے بھی تاجکستان کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی مشقیں کی ہیں۔ تاجکستان کے ساتھ چین کے تزویراتی اشتراک میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ چین کی یہ خواہش ہے کہ افغانستان کے ساتھ مل کر اویغور کے عسکریت پسندوں کو واپس لاکر کیمپوں میں منتقل کرے، اس حوالے سے چین نے پڑوسی ممالک میں غیر معمولی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں چین کے جنرل سیکرٹری نے اویغور سے متعلق خفیہ طور پر رابطے بھی کیے تھے،جسے نیویارک ٹائمز سامنے لے آیا تھا۔
شی جن پنگ نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اویغور کے عسکریت پسند چین پر حملے کے لیے تاجکستان کی سرزمین کو استعمال کرسکتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے کوئی شواہد موجود نہیں تھے۔ حال ہی میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ چین نے تاجکستان میں کارروائی کرکے کئی عام شہریوں کو نشانہ بنایا تھا۔
چین اور روس بھی اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ دونوں ہی ممالک افغانستان سے ممکنہ طور پر در آنے والی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ان دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ وہ خطے سے امریکا کے عمل دخل کو ختم کردیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد امید ہے کہ وسطی ایشیا میں امریکا اپنی مداخلت اور موجودگی کو مزید کم کردے گا۔
تاہم، انخلا کے فوری بعد امریکا نے ازبکستان اور کرغزستان کی سرزمین کو استعمال کرکے کارروائی کی۔ ۲۰۱۴ء میں امریکا نے روس سے کشیدگی کے نتیجے میں ان دونوں ممالک میں موجود اپنے عسکری مستقر (Bases) بند کردیے تھے۔
اگرچہ امریکا نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ افغانستان، تاجکستان سرحد پر سہولیات میں اضافہ کرے گا، لیکن وہ ان ممالک کو دی جانے والی امداد میں کمی کرکے ۲۰۲۰ء تک اسے ۴۵۰ ملین ڈالر سے صرف گیارہ ملین ڈالر تک لے آیا تھا۔ اس دوران امریکا نے ان ممالک کے ساتھ فوجی مشقوں میں بھی غیر معمولی کمی کی تھی۔
(ترجمہ: محمودالحق صدیقی)
“In Post-American Central Asia, Russia and China are tightening their grip”. (“warontherocks.com”. Oct. 7, 2021)
Leave a Reply