قرآن کی نظر میں ’’بیہودہ کلام‘‘
اور انسانوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ نادانی میں (لوگوں کو) راہِ خدا سے گمراہ کریں اور اس کا مذاق اُڑائیں۔ انہی لوگوں کے لیے رُسوا کن عذاب ہو گا۔(لقمان: ۶)
نکات:
’’لھو‘‘ یعنی ایسی ایسی چیز جو انسان کو اہم مقصد تک پہنچنے سے روک دے۔ ’’لھو الحدیث‘‘ ایسی بیہودہ بات کو کہتے ہیں جو انسان کو حق بات کی طرف جانے سے روک دے یا ایسے قصے کہانیاں جو انسانوں کو گناہ کی طرف کھینچ لیں۔ یہ انحراف مختلف اسباب کی وجہ سے ہو سکتا ہے جن میں سے ایک سبب ساز و آواز اور اس طرح کے امور ہیں۔
٭ نضر بن حارث نامی ایک شخص حجاز سے ایران جایا کرتا تھا۔ وہ رستم و سہراب اور دوسرے ایرانی افسانے سیکھ کر آتا اور حجاز کے لوگوں کو سناتا اور کہتا کہ اگر محمدﷺ نے تمہارے لیے قومِ عاد اور قومِ ثمود کے قصے بیان کرتے ہیں تو میں تمہارے لیے عجم کے قصے بیان کروں گا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب چند لوگ ایک گانے والی کنیز خرید کر لائے۔ اس طرح وہ لوگوں کو پیغمبرِ اکرمﷺ کی تلاوت سننے سے محروم کرنا چاہتے تھے۔ یہ آیت ان کی مذمت میں نازل ہوئی۔
٭ یہ آیت باطل گفتگو کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو گمراہ کرنے کے لیے ایک اہم ترین عامل ہے۔ دیگر قرآنی آیات (سورہ زخرف:۵۴، شعراء:۲۹، نساء:۶۰، طٰہٰ:۸۵، احزاب:۶۷) میں چند اور عوامل کا ذکر بھی ہوا ہے۔
پیغام:
۱۔ حق اور حقیقت کے خلاف مکاریاں کرنے اور ثقافتی حملوں (Cultural on Slayghts) کی تاریخ بڑی طویل ہے۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ…
۲۔ حکمت کے مقابلے میں جو بھی چیز آئے گی وہ لہو (بیہودہ) اور کمال تک پہنچنے میں رکاوٹ ہے۔(کتاب الحکیم۔ لھو الحدیث)
۳۔ اللہ کے راستے میں مخالفوں کے اعتراضات غیر منطقی اور خالی از حکمت ہوتے ہیں۔ لہو باتیں بے بنیاد ہوتی ہیں۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ…
۴۔ ایسے وسائل خریدنا جو انسان کو کمال تک پہنچنے سے روک دیں جہالت اور نادانی کی علامت ہے۔ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ…
۵۔ عمل کے مطابق سزا دینا عدالت کی نشانی ہے۔ لہٰذا جو حق کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے سنجیدہ نہیں لیتے ان کے لیے اہانت آمیز اور ذلیل و رُسوا کرنے والا عذاب منتظر ہے۔ وَیَتَّخِذَہَا ہُزُوًا اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌo
باطل اور بیہودہ محافل اور گفتگو سے دور رہیں:
ایسی محافل جہاں فسق و فجور اور گناہ کا ارتکاب کیے جانے کا اندیشہ ہو، جہاں پر قوت شہوت کو تحریک ملے، اسلام کی نظر میں اس طرح کی محفل میں جانا حرام ہے۔
امام محمد باقرؑ نے فرمایا کہ غنا ان گناہوں میں سے ایک ہے جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے آتشِ جہنم کا وعدہ کیا ہے۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ بنا بریں غنا (گانا، گیت، موسیقی) گناہِ کبیرہ ہے، یعنی ایسا گناہ جس پر قرآن مجید نے عذاب دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
روایات میں آیا ہے کہ:
٭ غنا، نفاق کو پروان چڑھاتا ہے اور انسان کو غربت و افلاس میں مبتلا کر دیتا ہے۔
٭ جو عورتیں گانا گاتی ہیں اور جو انہیں پیسے دیتے ہیں اور جو ان پیسوں کو خرچ کرتا ہے ان سب پر لعنت کی گئی ہے، اسی طرح عورتوں کو گانا سکھانے کی تربیت دینا بھی حرام ہے۔
٭ جس گھر میں غنا ہو وہ گھر درد ناک عذاب اور مصیبت سے محفوظ نہیں رہ سکتا، ایسے گھر میں دعا قبول نہیں ہوتی اور رحمت کے فرشتے اس گھر سے دور رہتے ہیں۔
غنا کے اثرات:
۱۔ بُرے اخلاق کا رواج، تقویٰ سے دوری، شہوت اور گناہ کی طرف رغبت، زندگی میں کمی، شہوت کی زیادتی، شخصیت کی تباہی وغیرہ۔ غرض غنا روح کے ساتھ وہی کرتا ہے جو شراب جسم کے ساتھ کرتی ہے۔
بعض لوگ شراب نوشی اور ہیروئن پینے کے بعد خود کو بے خیالی کی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں انہیں کچھ پتا نہیں چلتا۔ بعض لوگ باطل پرستوں کی گفتگو سننے کے بعد یا گلوکارہ کی آواز سُن کر اپنی غیرت و حمیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اور بے فکری کی دنیا میں گُم ہو جاتے ہیں۔
۲۔ خدا سے غفلت، ذمہ داری سے غفلت، محروم اور مجبور لوگوں کے امور سے غفلت، مستقبل سے غفلت، استعداد اور امکانات سے غفلت، دشمنوں سے غفلت، نفس اور شیطان سے غفلت، لہٰذا علم اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی انسان اس آگ میں جَل رہا ہے جس کا سرچشمہ اس کی اپنی غفلت ہے۔ خدا سے غفلت انسان کو حیوانات کی سطح تک بلکہ اس سے بھی نیچے گرا دیتی ہے۔ (اعراف: ۱۷۹)
آج استعماری طاقتیں نوجوان نسل کو مشغول اور بے حس رکھنے کے لیے تمام امکانات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ پاپ میوزک اور انواع و اقسام کے کنسرٹ وغیرہ کو استعمار اپنے مخصوص اہداف کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
۳۔ تحریک آمیز اور اعصاب شکن موسیقی سے ہونے والے جسمانی و نفسیاتی نقصانات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں جس کے بارے میں متعدد کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’طاہرہ‘‘ کراچی۔ مارچ ۲۰۰۹ء)