
گزشتہ دنوں ترکی نے اپنی سالانہ فضائی فوجی مشق انجام دی، اس فوجی مشق میں اس نے چین کو شریک کر کے واشنگٹن و تل ابیب میں سے ہر ایک کو حیرانی و پریشانی اور اضطراب و بے چینی میںمبتلا کر دیا اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ترکی ناٹو کا اہم رکن ہے اور ناٹو کو یہ بات کسی قیمت پر پسند نہیں کہ اس کا کوئی رکن ملک کسی دوسرے ملک کے ساتھ مل کر فوجی مشق کرے۔ خاص طور پر چین جیسے ملک کے ساتھ جس کے بارے میں ناٹو کا خیال ہے کہ وہ حریف ملک اور مدمقابل ہے۔ ترکی نے چین کے ساتھ فوجی مشق کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ اس سال اس نے سابقہ روایتوں کے برخلاف صہیونی مملکت اسرائیل کو اپنی مشق میں حصہ بننے سے روک دیا تھا اور اسرائیل کو روکنے کی وجہ سے امریکا کے بشمول ناٹو سے وابستہ دیگر ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اظہارِ یکجہتی و یگانگت کے طور پر اس مشق میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا اور اس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ باخبر ترک ذرائع کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جارحانہ حملہ کے بعد ترکی نے صہیونی مملکت اسرائیل کو اپنی سالانہ فضائی فوجی مشق میں حصہ لینے سے روک دینے کا فیصلہ کیا تھا، امریکا اور ناٹو کا بائیکاٹ کرنے اور اس میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ صہیونی مملکت کو اس میںشرکت کی اجازت نہ دینے کے خلاف احتجاج کے طور پر تھا، مگر ترکی نے امریکا و اسرائیل کے بشمول ناٹو ممالک کو اس وقت حیرت و اضطراب میں مبتلا کر دیا جب اس نے اپنی یہ سالانہ مشق چین کے ساتھ کرنے کا اعلان کیا۔ ترکی کا خیال ہے کہ چین ہی صہیونی مملکت کا نعم البدل اور قابل بھروسہ متبادل ہے۔ اس طرح ناٹو ممالک کی عدم شمولیت کی پابجائی ترکی نے تو کرلی مگر چین کی شمولیت نے نہ صرف اسرائیل کو اضطراب و بے چینی میں مبتلا کر دیا بلکہ امریکا کی نیند بھی اس سے اڑ گئی اور وہ شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہوگیا۔ کیونکہ اس مشق کی انجام دہی میں ترکی نے نہ صرف چین سے تعاون حاصل کیا اور ناٹو کے حریف ملک سے مل کر اسے انجام دیا بلکہ اس نے اس کے لیے علاقائی تعاون بھی حاصل کر لیا۔ یعنی چینی جنگی جہازوں کو لاجسٹک امداد فراہم کی گئی اور وہ پاکستان و ایران کی فضائوں سے پرواز کرتے ہوئے ترکی پہنچے اور اس کے لیے ایران و پاکستان کی فضائی حدود کھول دی گئی۔ یہاں انہیں ایندھن اور رسدات بھی فراہم کیے گئے اور ان کی میزبانی بھی کی گئی جو یقینا امریکا و اسرائیل جیسے ملک کے لیے باعث تشویش تھی۔
اس فوجی مشق میں چین نے اپنے سخوئی ۔۲۷ چار طیاروں کے ذریعہ حصہ لیا، اس فوجی مشق میں امریکا نے رخنہ ڈالنے اور روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوشش کی، مشقیں شروع کرنے سے عین قبل مداخلت کرتے ہوئے امریکا نے ترکی سے کہا کہ وہ اپنی اس مشق میں امریکا سے خریدے گئے F-16 طیاروں کو شامل نہ کرے کیونکہ خطرہ ہے کہ اس طرح کے جنگی طیاروں کی ٹیکنالوجی کا انکشاف چین کو ہوجائے گا اور اس ٹیکنالوجی کا راز چین حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، واشنگٹن نے انقرہ کو یاددہانی کرائی کہ اس نوعیت کے طیارے کی خریداری کے وقت طے شدہ معاہدہ میں ایک پیراگراف اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اس لڑاکا طیارے کی ٹیکنالوجی کا انکشاف کسی تیسرے ملک کے سامنے نہیں ہونا چاہیے اور چین اگر اس مشق میں حصہ لیتا ہے تو مشق کے دوران چین کو اس ٹیکنالوجی کا علم ہو جائے گا، اس کے سامنے اس طیارے سے متعلق کوڈ ورڈ کھل جائیں گے، امریکا کی اس مداخلت اور اس طرح کی باتوں کی وجہ سے ترکی نے مجبور ہو کر مشق میں F-16 طیاروں کو شامل نہیں کیا اور اسکی جگہ F-4 طیاروں کو شامل کیا جو F-16 کا متبادل ثابت ہوا۔
اس طرح ترکی نے چین کے ساتھ مل کر اس مشق کو انجام دیا۔ یہ مشق ۱۵ دن تک جاری رہی مگر ترکوں نے اس کی زیادہ تشہیر نہیں کی اور نہ ہی ذرائع ابلاغ پراس کے مناظر دکھائے گئے۔ بلکہ حتی الامکان اسے مخفی اور نگاہوں سے اوجھل رکھنے ہی کی کوشش کی گئی، اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اس مشق کو انتہائی درجہ راز میں رکھنے کی کوشش کی گئی اور ایک مشترکہ صحافتی بیان میں اختصار کے ساتھ اس کے شروع ہونے کا اعلان کیا گیا، پھر اس کے پایہ تکمیل کو پہنچنے کی اطلاع دی گئی۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین و ترکی کا فوجی تعاون درحقیقت اس تعاون کی تکمیل ہے جو معیشت کے شعبہ میں ان دونوں ملکوں کے درمیان جاری ہے۔
ترکی نے چین کو اپنے ساتھ شامل کر کے امریکا کو پیغام دیا اور اس کے سامنے واضح کیا ہے کہ ترکی علاقائی طاقت ہے اور خطہ میں اس کا رول اہمیت کا حامل ہے جسے کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔ ترکی نے واشنگٹن کو یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ چین و ترکی کا یہ تعاون آئندہ بھی جاری رہ سکتا ہے اور آئندہ مراحل میں بھی دونوں ملک باہمی اشتراک و تعاون سے اس طرح کی مشقیں انجام دے سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اگر یہ مشق اس بار ترکی کی سرزمین پر انجام دی گئی ہے تو آئندہ مرحلہ میں چین کی سرزمین پرانجام دی جائے۔
چین و ترکی کی مشترکہ مشق اگر اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ انقرہ و بیجنگ کے درمیان فوجی تعلقات میں قربت پیدا ہوئی ہے اور اس قربت و یگانگت کے نتیجے میں آئندہ چل کر اتحاد بھی قائم ہو سکتا ہے تو دوسری طرف یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ ترکی واشنگٹن اور تل ابیب سے دور ہو رہا ہے، بلکہ خود ناٹو اتحاد سے بھی وہ دوری اختیار کرنے لگا ہے، کیونکہ واشنگٹن اور ناٹو اتحاد سے وابستہ دیگر ملکوں نے انقرہ کے تعلق سے منفی موقف اپنا رکھا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ صہیونی مملکت کے جارحانہ طرزِ عمل اور اس کی ظالمانہ و بدبختانہ حرکتوں کے تعلق سے ترکی کے سخت موقف کی وجہ سے اور اس کے ردعمل میں ان ملکوں نے صہیونی مملکت کی تائید و حمایت اور اس کے ساتھ یکجہتی و یگانگت کے اظہار میں اس کی فوجی مشق میں حصہ لینے سے پہلوتہی کیا۔
سابقہ فوجی مشقوں کے برخلاف حالیہ فوجی مشق کو صیغۂ راز میں رکھنے اور اس پر پردہ ڈالے رکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انقرہ کی یہ کوشش تھی کہ ناٹو اتحاد میں شریک ان کے اتحادی ان منصوبوں سے واقفیت حاصل نہ کر سکیں جن منصوبوں کو اس مشترکہ فوجی مشق میں روبعمل لایا گیا، ترکی کا خیال ہے کہ اس مشق میں چین کی شرکت اور ناٹو ارکان کی بے رخی و پہلوتہی کے بعد یہ مشق ناٹو کی مشق نہیں رہی کہ انہیں اس کی معلومات حاصل کرنا ضروری ہو، اس لیے اس مشق کے اسرار ورموز کو مشق میں حصہ لینے والے ملکوں تک ہی محدود رہنا چاہیے، یہ راز ان ہی ملکوں کی ملکیت ہیں لہٰذا دوسروں کو اس سے واقف نہیں کروایا جاسکتا۔ چین و ترکی کے تعلقات کی اس بڑی تبدیلی کا سب سے بڑا نقصان صہیونی مملکت کو ہوا، کیونکہ ترکی کی سرزمین پر کی جانے والی سابقہ مشقوں کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل ہی کو ہوتا تھا کیونکہ اس مشق کے ذریعہ اسرائیلی ہوابازوں کو صہیونی مملکت کے دو بڑے دشمن ملک یعنی شام و ایران کے فضائی حدود اور اس کے راستوں سے مکمل واقفیت حاصل ہوتی رہتی تھی۔
اسرائیلی قائدین کو بخوبی اندازہ ہے کہ یورپی ممالک کے تعاون کے باوجود کوئی بھی ملک ترکی کے محل وقوع اور اس کے فضائی حدود کا عوض و متبادل ثابت نہیں ہو سکتا ہے انہیں اس حقیقت کا اندازہ ہے کہ ترکی کی سرحدیں شام و ایران سے ملتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ترکی کے اندر مشق کرنا اور فوجی مہم انجام دینا درحقیقت دو دشمن ملک کے آب و ہوا میں فوجی مشق کرنے کے مترادف ہے اسی لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ترکی کا میدان کھو دینے کے بعد اسرائیل اپنی خفت مٹانے، شرمندگی کا ازالہ کرنے اور اس نقصان کی پابجائی کرنے کے لیے یونان اور پولینڈ و رومانیہ جیسے مشرقی یورپی ممالک کے ساتھ مشترکہ فوجی مشق کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ مگر سب سے زیادہ اسے اس بات سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ ترکی کے اندر اس وقت ڈرامائی تبدیلی آرہی ہے اور اس کی پالیسی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے اور خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ترکی اتحاد و تحائف کے مقام سے ہٹ کر اس کے ساتھ محاذ آرائی و مقابلے کے مقام میں نہ تبدیل ہو جائے۔ خاص طور پر جبکہ ترکی خطہ میں اس وقت ایسا رول ادا کرنے لگا ہے جو اسرائیل کے تعلق سے معاندانہ ہے اور اس کے اندر بطور خاص یہ تبدیلی اس وقت سے پیدا ہوئی ہے جب سے غزہ پر اس نے فوجی حملہ کیا تھا پھر اس جلتے پر ’’سفینہ آزادی‘‘ نامی اس کے بحری بیڑے پر خونریز حملہ کرکے تیل چھڑکنے کی کوشش کی تھی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply