کشمیر: ملائیشیا ، بھارت میں بڑھتی کشیدگی

بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور آرٹیکل ۳۷۰ پر ملائیشیا کی جانب سے پاکستان کی حمایت کے بعد بھارت اور ملائیشیا کے درمیان تجارتی کشیدگی بڑھ گئی ہے اور دونوں ہی ملک ایک دوسرے کو تجارتی محاذ پر سزا دینے کی کوشش میں ہیں۔

گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان، ترکی اور چین کی طرح مسئلہ کشمیر کو اٹھاتے ہوئے ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے جب بھارت کو نشانہ بنایا تو بھارت کے لیے یہ کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ مہاتیر محمد نے الزام لگایا تھا کہ بھارت نے جموں و کشمیر پر قبضہ کر لیا ہے۔ ملائیشیا اور بھارت کے تعلقات اچھے ہوا کرتے تھے لیکن کشمیر کے مسئلے پر مہاتیر محمد کا پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا بھارت اور ملائیشیا کے تعلقات کو متاثر کرسکتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ملائیشیا نے پاکستان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیوں کیا۔

ملائیشیا پاکستان کے ساتھ کیوں؟

’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘ سے ملائیشیا کی نیشنل یونیورسٹی میں اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ماہر روی چندرن کشن مورتی نے کہا: ’ملائیشیا اور پاکستان کے درمیان ایک طویل عرصے سے اچھے تعلقات ہیں۔ ۱۹۵۷ء میں ملائیشیا کی آزادی کے بعد پاکستان ان ممالک میں شامل تھا، جنھوں نے سب سے پہلے اسے خود مختار ملک کے طور پر تسلیم کیا تھا‘۔

روی چندرن نے کہا: ’پاکستان اور ملائیشیا دونوں ہی بہت ساری اسلامی اور دیگر تنظیموں کا حصہ ہیں۔ ان دونوں کے درمیان تعلقات میں چین کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ملائیشیا اور چین کے تعلقات معمول کے ہیں لیکن پاکستان اور چین کے تعلقات بہت خاص ہیں۔ چین پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات بھارت کے ساتھ اچھے نہیں ہیں۔ جب تک مہاتیر اقتدار میں تھے پاکستان کے ساتھ ملائیشیا کے تعلقات اچھے رہے‘۔ اس سے قبل مہاتیر ۱۹۸۱ء سے ۲۰۰۳ء تک اقتدار میں تھے۔

عمران اور مہاتیر

عمران خان نے گذشتہ سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے وزیراعظم بننے کے بعد نومبر میں ملائیشیا کا دورہ کیا۔

عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے تین ماہ قبل ۲۰۱۸ء میں ۹۲ سالہ مہاتیر محمد ایک بار پھر سے ملائیشیا کے وزیر اعظم بنے تھے۔ عمران اور مہاتیر کی انتخابی مہم میں بدعنوانی سب سے بڑا موضوع تھا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک پر چین کا قرض بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ مہاتیر محمد نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ۲۲؍ارب ڈالر کے چینی منصوبوں کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے روک دیا تھا۔

عمران خان نے کہا تھا: ’مجھے اور مہاتیر کو عوام نے بدعنوانی سے عاجز آ کر حکومت سونپی ہے۔ ہم دونوں کو قرض کی ادائیگی کا مسئلہ درپیش ہے۔ ہم اکٹھے ہوکر اپنے مسائل سے نمٹ سکتے ہیں۔ مہاتیر ملائیشیا کو ترقی کی راہ پر گامزن کر چکے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہم مہاتیر کے تجربے سے سیکھیں گے‘۔

دونوں مسلم ممالک ہیں۔ عمران خان اور ملائیشیا کے درمیان یہ قربتوں کی ابتدا تھی۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی حالات کشیدہ ہوئے تو عمران خان نے مہاتیر محمد کو فون کیا۔

مہاتیر محمد کے دورِحکومت میں پاکستان ملائیشیا کے سب سے زیادہ قریب آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ملائیشیا کے مابین ۲۰۰۷ء میں اقتصادی شراکت کا معاہدہ ہوا تھا۔

عمران خان کے دورے پر مہاتیر نے توانائی کے شعبے میں پاکستان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ پانچ اگست کو جب ہندوستان نے جموں و کشمیر کو دی جانے والی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا تو مہاتیر ان ممالک کے سربراہوں میں سے ایک تھے جنھیں عمران خان نے فون کیا اور ان کی حمایت حاصل کی۔

بھارت اور ملائیشیا کے تجارتی تعلقات

ملائیشیا کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارتی تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا۔ انھوں نے کہا تھا کہ بھارت بھی ملائیشیا کو اشیا برآمد کرتا ہے اور دونوں کے مابین کاروباری تعلقات یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہیں۔

بھارت نے کشمیر کے متعلق ملائیشیا کے موقف پر سخت ناراضی کا اظہار کیا اور اب کہا جارہا ہے کہ دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت ملائیشیا سے پام آئل کی درآمد کو محدود کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہندوستان ملائشیا سے دیگر اشیا کی درآمد پر بھی غور کرسکتا ہے۔

مہاتیر محمد نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کہا تھا کہ بھارت نے کشمیر کو اپنے زیر قبضہ رکھا ہوا ہے۔ بہرحال حکومت ہند کی جانب سے اس بارے میں ابھی تک باضابطہ کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

درآمدی محصول میں اضافے کا خدشہ

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بھارت ریفائنریز نے نومبر اور دسمبر میں ملائیشیا سے پام آئل کی خریداری روک دی ہے۔ ایجنسی کے مطابق انھیں خدشہ ہے کہ ہندوستانی حکومت درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کرسکتی ہے۔

پیر کے روز پانچ تاجروں نے رائٹرز کو بتایا کہ انہوں نے نومبر دسمبر کی شپمنٹ کے لیے پام آئل کی خریداری بند کردی ہے۔ بھارت ملائیشیا کے پام آئل کا بڑا خریدار رہا ہے۔

ملائیشیا کی پام آئل انڈسٹری بھارت کے اس طرزِ عمل سے متاثر ہوسکتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا کو بھارت کے اس فیصلے سے فائدہ ہوسکتا ہے۔

رائٹرز نے اس معاملے میں بھارت کی وزارتِ تجارت سے رابطہ کیا لیکن انھیں کوئی جواب نہیں ملا۔ ممبئی کے ایک تاجر نے رائٹرز کو بتایا: ’ملائیشیا کے ساتھ کاروبار کرنے سے پہلے ہمیں وضاحت کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں ملتی ہے تو ہم انڈونیشیا سے کاروبار شروع کریں گے‘۔

ممبئی میں سبزیوں کے تیل کی کمپنی کے سی ای او سندیپ بجوریا نے کہا: ’دونوں طرف کے تاجر کنفیوژ ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہونے والا ہے‘۔

ہندوستان میں خوردنی آئل کی بڑی کھپت

بھارت دنیا میں خوردنی تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ وہ ہر سال ۹۰ لاکھ ٹن پام آئل درآمد کرتا ہے اور یہ بنیادی طور پر ملائیشیا اور انڈونیشیا سے آتا ہے۔ بھارت میں کھانے میں استعمال ہونے والے تمام قسم کے تیل میں سے دو تہائی پام آئل استعمال ہوتا ہے۔

۲۰۱۹ء سے قبل نو مہینوں میں ہندوستان نے ملائیشیا سے ۳۰ لاکھ ٹن پام آئل درآمد کیا۔ ملائیشین پام آئل بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق ملائیشیا سے بھارت کی ماہانہ درآمد ۳۳ ہزار ٹن ہے۔

جب تک مہاتیر محمد اقتدار میں رہے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے رہے۔ ۲۰۰۳ء میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملائیشیا بھارت کے قریب تر ہوتا گیا۔ پچھلے سال جب مہاتیر کی ایک بار پھر سے حیرت انگیز واپسی ہوئی تو ملائیشیا ایک بار پھر پاکستان کے قریب آ گیا۔

(بشکریہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۹ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*