بھارتی مسلمانوں کی شرحِ تعلیم میں اضافہ

بھارت میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مسلمان معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ سماجی اور تعلیم کے میدان میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے بہت پیچھے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک درجن سے زا ئدریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام یونینیں ایسی ہیں جہاں مسلمان تعلیم کے میدان میں ہندوؤں سے قدرے بہتر پوزیشن میں ہیںاور اس کی وجہ ریاستی مشینری یا اس کی معاونت کے بجائے مسلمانوں کی خود انحصاری کی پالیسی ہے۔

بھارتی خواندگی مشن اور تعلیم بالغاں کے مشیر نفیس احمد کا کہنا ہے کہ ریاست آندھراپردیش‘ کرناٹک‘ جھاڑکھنڈ‘ مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا کے علاوہ مرکز کے زیر انتظام یونین مثلا چھتیس گڑھ‘ اڑیسہ‘ تامل ناڈو‘ پانڈیچری‘ جزائر انڈیمان نکوبار‘ دادر اینڈ نگر حویلی اور دمن اینڈ دیو میں مسلمانوں میں خواندگی کی شرح ہندوئوں سے زیادہ ہے۔ نفیس احمد کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ 2001ء کی رائے شماری کے مطابق وہ ریاستیں جہاں مسلمانوں کی آبادی قلیل ہے وہاں ان میں شرح خواندگی ہندوئوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جبکہ وہ ریاستیں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے وہاں وہ پسماندہ اور تعلیمی میدان میں پیچھے ہیں۔

بھارت کی 2001ء کی شماریاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں اوسطاً شرح خواندگی 64.84% فی صد ہے جو حضرات میں 75.26%فی صد اور خواتین میں 53.67%فی صد ہے۔ خواندگی کی اس شرح میں مسلمانوں کا تناسب 59.11% فی صد ہے جس میں مسلمان مردوں میں شرح خواندگی 67.6% اور مسلم خواتین میں یہ شرح 50.1% فی صد ہے جو اگرچہ ملک کی اوسط شرح خواندگی سے یقینا کم لیکن حوصلہ افزا ہے کیونکہ مذکورہ ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد قلیل ہے۔ مثال کے طور پر آندھراپردیش جہاں مسلمانوں میں شرح خواندگی 68% فی صد جبکہ ہندوئوں میں 59.4% فی صد ہے‘ چھتیس گڑھ میں مسلمانوں میں تعلیم کی شرح بھارت کی مجموعی اوسط شرح خواندگی (64.8% فی صد) سے 18% زائد ہے جبکہ یہاں ہندوئوں میں خواندگی کی شرح 63.9% فی صد بتائی جاتی ہے جو ملک کی مجموعی شرح خواندگی سے بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ گجرات میں مسلمانوں کی شرح خواندگی 73.5% فی صد جبکہ ہندوئوں کی 68.3% فی صد ‘ جزائر انڈیمان نکوبار جہاں مسلمان کل آبادی کا صرف 8.27% فی صد ہیں‘ میں مسلمانوں میں خواندگی کی شرح 89.8% فی صد اور ان کے مقابلے میں ہندو جو یہاں اکثریت میں ہیں ‘ میں شرح خواندگی 81.7% فی صد ہے۔

نفیس احمد کا کہنا ہے کہ وہ ریاستیں جہاں مسلمانوں میں شرح خواندگی ہندوئوں سے زیادہ ہے‘ وہاں ریاستی اداروں کا مسلمانوں سے تعاون معمول کا تھا‘ اصل بات یہاں مسلمانوں کی وہ سوچ ہے کہ جس کے تحت انہوں نے اپنی کمیونٹی میں تعلیم کو فروغ دینے اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے خود کوششیں کیں۔ ریاست کرناٹک جہاں مسلمان کل آبادی کا صرف 12.22% فی صد ہیں ‘ کے تعلیمی اداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے ‘ اس ریاست میں اوسط شرح خواندگی 66% فی صد ہے ‘ یہاں مسلمانوں میں خواندگی کا تناسب 70.1% فی صد اور ہندئوں میں 65.6% فی صد ہے۔ اسی طرح مہاراشٹرا جہاں مسلمان کل آبادی کا 10.6% فی صد ہیں ‘ میں شرح خواندگی 78.1% فی صد ہے جبکہ ہندوئوں میں یہ شرح 76.2% فی صد ہے۔ جھاڑ کھنڈ جو پہلے بہار کا حصہ تھا ‘ میں مسلمان کل آبادی کا 13.8% فی صد ہیں‘ ان میں شرح خواندگی 55.6% فی صد جبکہ ہندوئوں میں یہ شرح مسلمانوں سے ایک فی صد کم ہے۔ مدھیہ پردیش میں مسلمان کل آبادی کا 6.36% فی صد ہیں لیکن ان میں تعلیم کی شرح 70.3% فی صد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہندوئوں کی شرح تعلیم 62.8% فی صد ہے ۔ شورش زدہ ریاست اڑیسہ جہاں مسلمانوں کی آبادی بھارت کی کسی بھی ریاست میں سب سے کم یعنی کل آبادی کا صرف 2.07% فی صد ہے لیکن ان میں خواندگی کا تناسب 71.3% فی صد جبکہ ہندئوں میں 63.3% فی صد ہے۔ اس کے علاوہ تامل ناڈو میں مسلمان کل آبادی کا 5.56% فی صد ہیں لیکن ان میں شرح خواندگی 82.9% فی صد جبکہ ہندوئوں میں یہ شرح 72% فیصد ہے۔ پنو شری میں مسلمانوں میں خواندگی کی شرح 87.8% فی صد اور ہندوئوں میں 80.3% فی صد‘ دمن اینڈ دیو میں مسلم شرح خواندگی 80.3% فی صد جبکہ ہندوئوں میں یہاں خواندگی کا تناسب 77.7% فی صد ہے۔ دیگر ریاستیں جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ہندوئوں و دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے زیادہ ہے وہاں مسلمانوں میں شرح خواندگی کم ہے۔ مثال کے طور پر بہار میں مسلمانوں میں شرح خواندگی 42% فی صد‘ اترپردیش میں 47.8% فی صد‘ آسام 48.4% فی صد اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں 47.3% فی صد ہے۔

(ترجمہ:محمد آفتاب احمد)
(بشکریہ: پندرہ روزہ دی ملی گزٹ‘ نئی دہلی۔ یکم مارچ ۲۰۰۸)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*