
یقیناً یہ عنوان چونکا دینے والاہے۔ اس لیے نہیں کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ بلکہ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ بھارت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیر کے ساتھ جو کھلواڑ کیا، اس نے کشمیر کی آزادی کو ایک ناقابلِ انکار حقیقت بنا کر رکھ دیا۔ کشمیر میں بھارت کی فوج کی تعداد ۹ لاکھ ہو یا ۲۰ لاکھ یا ایک کروڑ، یہ بات ناقابلِ تردید حقیقت کا روپ دھار چکی ہے کہ بھارت چاہے جتنا زور لگالے وہ کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکتا۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵۔اے کے تحت کشمیریوں کو جو فریب دیا گیا، کشمیری اس پر صبر و شکر کر لیتے۔ بھارت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دے کر دیکھ لیا، ظلم و ستم ڈھا کر دیکھ لیا، کشمیری کبھی اس کے دام میں نہیں آئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کشمیر عملاً تقسیم ہو چکا ہے اور اس کے سینے پر پہلے جنگ بندی لائن اور اب کنٹرول لائن کے نام سے ایک خون آلود لکیر کھینچ دی گئی۔ بھارت اس لائن کو کشمیر پر قبضے کے لیے اور پاکستان اپنے دفاع کے لیے ایک دلیل کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے مطابق کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جبکہ پاکستانی حکمرانوں کی نظر میں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ بھارت کے کشمیرکے ساتھ اقتصادی مفادات وابستہ ہیں جبکہ پاکستان کے کشمیر کے ساتھ مذہبی اور تہذیبی و تمدنی رشتے ہیں۔ اقتصادی مفادات کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے۔
کشمیر کی اس صورتحال کوذہن میں رکھاجائے تویہ کہے بِنا چارہ نہیں کہ دوملکوں کی باہمی رقابت کاسب سے بڑا سبب کشمیر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سے اگر کشمیر ہٹ جائے تو بلاشبہ پورا برصغیر اقتصادی اعتبار سے دنیا کا ممتاز ترین خطہ بن سکتا ہے۔ دونوں ملک اپنے ا پنے بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں اور فائدہ اسلحہ سازوں کو ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اور معمولی سی غلطی پورے خطے کو براہ راست اور پوری دنیا کو بالواسطہ طور پر ایٹمی تابکاری کے بھیانک خطرے سے دوچار کرسکتی ہے۔ بظاہر جنگ مسئلے کاحل نہیں ہے، چار جنگیں ہوچکیں لیکن مسئلہ کشمیر جوں کا توں برقرارہے۔ ان حالات میں پُرامن تحریک کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ جنگوں کی تباہ کاریوں کا پورا خطہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ کنٹرول لائن کے خاتمہ اور دونوں ملکوں کی افواج کو ایک دوسرے کے سامنے سے ہٹائے بغیر معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔
تقسیمِ کشمیر کو کشمیریوں نے کبھی قبول نہیں کیا۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے بہت پہلے ۱۹۵۸ء میں جنگ بندی لائن کے خاتمے کے لیے چوہدری غلام عباس مرحوم اور سردار عبدالقیوم خان مرحوم نے پُرامن تحریک چلائی تھی۔ اس کے بعد مقبول بٹ شہید نے کم ازکم تین بار کنٹرول لائن کو روندا۔ ۱۹۸۸ء کے بعد ہزاروں کشمیریوں نے کنٹرول لائن کے آرپار جانے کی روایت قائم کی۔ ۱۹۹۲ء میں جمو ں کشمیر لبریشن فرنٹ نے امان اللہ خان کی قیادت میں کنٹرول لائن کے خاتمے کی منظّم ترین تحریک کا آغاز کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دونوں ملک کشمیریوں کے جذبات کا اقرار کرتے اور کنٹرول لائن پر پابندیاں نرم کرکے کشمیریوں کی امنگوں کے پورے ہونے کی راہ ہموار کرتے لیکن ایسانہ ہوا بلکہ آزاد کشمیر کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کا رخ کرنے والے اپنوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ ۱۹۹۲ء کی منظّم ترین کاوش کے بعد بھی باربار کنٹرول لائن توڑنے کی تحریکیں چلتی رہیں۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد آزاد کشمیر اور پاکستان کے لوگوں میں شدید بے چینی پیداہوگئی جواب تک ختم نہیں ہوئی، اور ختم بھی کیسے ہو کہ اب مقبوضہ کشمیر میں شدید کرفیو کو تین ماہ ہونے کو ہیں۔ کشمیریوں نے اقوام عالم کے جاگنے کا انتظار کرکے دیکھ لیا۔ ۷ستمبر ۲۰۱۹ء کو بھی لبریشن فرنٹ نے تیتری نوٹ پونچھ میں ایک دھرنے کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کشمیریوں کی تسلّی دی کہ ۲۷ستمبر ۲۰۱۹ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ان کے خطاب تک کشمیری کنٹرول لائن کی طرف نہ جائیں، وہ عالمی رائے عامہ کوجھنجھوڑ کر بھارت پر دباؤ ڈلوائیں گے تاکہ کسی طرح کرفیو ختم ہو اورکشمیری مسلسل قید سے رہا ہوسکیں۔ ۲۷ستمبر کو انہوں نے بلاشبہ ایک بہترین تقریر کی لیکن اقتصادی مفادات کی زنجیروں میں بندھی عالمی برادری بیدار نہ ہوئی تو ایک بار پھر کشمیریوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے بھمبر تا سری نگر براستہ چکوٹھی امن مارچ کا اعلان کردیا۔ بھمبر تا سری نگر براستہ چکوٹھی امن مارچ کا آغاز ۴؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو ہوا۔ نسبتاً ایک چھوٹی تنظیم ہونے کے باوجود لوگوں کی بہت بڑی تعداد جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی پکار پر نکل آئی۔ اس موقع پر عمران خان سے ایک زیادتی کا ارتکاب ہوگیا اور اقوامِ متحدہ میں ان کی بہترین تقریر کی عملاً نفی ہوگئی۔ خان صاحب نے کنٹرول لائن کی طرف جانے والوں کو بھارتی بیانیے کا علمبردار قرار دے دیا، جوکہ درحقیقت ایک غلط بات تھی۔ عالمی برادری توجہ نہ دے، دو ایٹمی ملک جنگ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہ ہوں توکشمیری کیا کریں؟ کیا وہ کنٹرول لائن کی پوجا شروع کردیں؟ پاکستان اور بھارت سکھ برادری کے لیے بلا ویزہ راہداری کا اہتمام کریں لیکن کشمیری کنٹرول لائن کے آرپار نہ جاسکیں اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والابھارتی بیانیے کا علمبردار کیسے ہوسکتاہے؟
عمران خان کے ۵؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کے بیان نے کنٹرول لائن کے خلاف کشمیریوں اور اہلِ پاکستان کو یکسو کر دیا، اس کا مظاہرہ اب تک مسلسل ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی لبریشن فرنٹ سے نظریاتی اعتبار سے دورہے لیکن کنٹرول لائن کے خلاف تحریک میں وہ بھی شریک ہے۔ مسلم کانفرنس، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، عوامی تحریک، تمام قوم پرست جماعتیں اور ان کے کارکن کنٹرول لائن کے خاتمے کی تحریک میں ساتھ ساتھ ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ باقی جماعتوں کی مجموعی کاوشوں سے بھی آگے جماعت اسلامی نے تحریک آزادی کشمیر کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز و محور بنالیا۔ ملک بھر میں جماعت نے بے شمار کانفرنسیں، مظاہرے اور تقریبات منعقد کیں، جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
بھمبر سے سری نگر جانے کے راستے میں چکوٹھی کامشکل ترین مقام بھی آتا ہے، حسبِ سابق کاروان کو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا۔ ۱۶؍اکتوبر ۲۰۱۹ء تک شدید سردی اور ناقابلِ بیان حد تک مشکلات میں دھرنا دیا گیا۔ جہلم ویلی کے لوگوں نے مہمان نوازی کی حد کردی لیکن موسم کی سختیاں اپنی جگہ۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے آزادی مارچ کو چکوٹھی کے مقام پر روکے جانے پر اسے دھرنے میں بدل دیا گیا۔ اس دھرنے کو جماعتِ اسلامی یوتھ کے صدر نثار شاہق نے سینے سے لگا لیا تو باقی جماعتوں کے لیے بھی لازم ہوگیا کہ وہ بھی چکوٹھی جاکر دھرنے میں حاضری دیں۔ نثار شاہق کے بلند آہنگ موقف کے بعد دھرنا ایک زیارت گاہ بن گیا، پورے آزاد کشمیر، پاکستان اوردنیا بھرسے آزادی پسندلوگ دھرنے میں بنفسِ نفیس شریک ہونے لگے یا ہمدردی کا اظہار کرنے لگے۔ دھرنے کے عین وسط میں ۱۱؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے راولاکوٹ میں خطاب کرتے ہوئے اس کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو نثار شاہق نے بھمبر میں اقوامِ متحدہ کے مبصرین کویادداشت پیش کرنے کی کوششں کی جو کہ اپنوں کے ہاتھوں ناکام ہوئی۔ ۱۴؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو جماعت اسلامی پاکستان نے اسلام آباد میں خواتین کشمیر کانفرنس منعقد کر کے کنٹرول لائن کے خلاف موقف کو گھرگھر پہنچادیا۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا دھرنا اس وقت ختم ہوا جب دنیا بھرمیں اس کا پیغام پہنچ گیا اور اقوام متحدہ کے مبصرین نے معاملہ سے اپنے صدر دفتر کو آگاہ کرنے کا وعدہ کیا۔ بادل نخواستہ فاروق حیدر (وزیراعظم آزاد کشمیر) نے ۶ماہ کے بعد مشترکہ طور پر کنٹرول لائن توڑنے کا اعلان کرکے دھرنا ختم کروایا۔ چکوٹھی کا دھرنا اس لحاظ سے قابلِ ذکر تھا کہ اس میں جماعتی اور تنظیمی تفریق مٹ گئی تھی۔ دھرنے میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ سری نگرسے ہجرت کرکے آنے والے رفیق ڈار، سلیم ہارون، بشارت علی نوری، جہانزیب اوردیگر کی مادرِ وطن کے لیے تڑپ پورے مجمع کو اپنی گرفت میں لیے رہی۔ ڈائلیسز پر مقبول بٹ کے ساتھی عبدالحمید بٹ اپنے عمر رسیدہ ساتھیوں حافظ انور سماوی، کمانڈر فاروق، نوجوان رہنماؤں توقیر گیلانی، منظورچشتی اور ساجد صدیقی کے ساتھ جذباتی نوجوانوں کو آزاد کشمیر کی پولیس کے ساتھ ٹکرانے سے روکتے رہے۔ آصف ہاشمی اور ان کی اہلیہ نصرت قریشی کے ترانوں نے لوگوں کے دلوں کو گرمانے کا کام کیا۔ عالمی حالات و واقعات اورعالمی تحریکوں کے بارے میں شرکا کو سردار انور ایڈوکیٹ نے مسلسل آگاہ رکھا۔
طاہرہ توقیر آزاد کشمیر کی خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد سمیت مسلسل سردی میں بیٹھی رہیں۔ جذبے کا یہ عالم تھا کہ خود راقم الحروف کو کئی راتیں ایک چادر میں بسرکرنا پڑیں، اس لیے کہ دھرنے میں صرف ایک خیمہ میسر تھا جس کی ایک طرف کھلی ہوئی تھی۔ دوسری طرف ۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو اسلام آباد میں ۵کلومیٹر طویل کشمیری پرچم لہرا کر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے یکجہتی کا اظہارکرنے والوں میں آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد، جنرل حمیدگل مرحوم کی صاحبزادی عظمیٰ گل اور صاحبزادہ عبداللہ گل سرفہرست تھے۔ تاہم ایک المیہ بھی ہوا اور وہ یہ کہ ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو مظفر آباد میں آزاد کشمیر کی انتظامیہ نے کشمیری قوم پرستوں کے ایک اجتماع پر تشددکرکے اتحاد ویگانگت کی فضا کو مکدرکردیا، جس کی شدید مذمّت کی گئی وہ لوگ آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں کی کشمیر کے بارے میں پالیسیوں کے شدید ناقد تھے۔ ایک بار پھر فاروق حیدر آگے آئے اور انہوں نے معاملے کومزید بگڑنے سے بچالیا۔
۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو آزادکشمیر کے یوم تاسیس کے موقع پر کوٹلی آزادکشمیر میں عزم جہاد کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے امیرسراج الحق اور آزاد کشمیر جماعت کے رہنماؤں ڈاکٹر خالد محمود، نثار شاہق اور مقبوضہ کشمیر کے رہنما غلام محمد صفی نے آزادکشمیر اور پاکستان کی حکومتوں کو ۳۰ نومبر ۲۰۱۹ء تک کی ڈیڈ لائن دے دی کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے مطلوبہ اقدامات کریں ورنہ اس کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کر دیا جائے گا۔ انہوں نے آزاد کشمیر حکومت کو پوری ریاست کی نمائندہ حکومت تسلیم کیے جانے اور آزادکشمیر کی فوج کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا۔ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء وہ سیاہ دن تھا جب بھارتی فوج کشمیرمیں داخل ہوئی تھی۔ اس دن کی یاد میں بھی بھرپور احتجاج کیاگیا۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تک کے حالات کا تجزیہ کرنے اور عمران خان کی جانب سے کنٹرول لائن کی طرف جانے سے روکنے پر مبنی بیانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ متوقع طور پر لبریشن فرنٹ، جماعت اسلامی اور دیگر آزادی پسند جماعتیں ایک ساتھ مل کر کنٹرول لائن کوکم ازکم ۶مقامات سے عبورکرنے کی کوشش کریں گی۔ آزادکشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر بھی ان کے ساتھ ہوں گے اس لیے کہ وہ اس کا پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں اور وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کی مرحومہ نانی صاحبہ انہیں بار بار خواب میں کنٹرول لائن توڑنے اور سر پر کفن باندھ کر سری نگرکی جانب جانے کا حکم دے رہی ہیں۔ یہ خواب اب کشمیر کے بچے بچے کی زبان پر آچکاہے۔
تیرانگرمیرانگر-سری نگر، سری نگر
تیراشوق، میراشوق –لال چوک، لال چوک
فتح کی سمت متحد -بڑھے چلو
سری نگرہے منتظر -بڑھے چلو
کربلائے کشمیر ہے منتظر-بڑھے چلو
کشمیر کے سینے پر کھنچی منحوس لکیر کے خاتمے کے لیے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے اقدام اورسب کشمیریوں اور اہلِ پاکستان کی جانب سے اس کی حمایت سے یقیناً مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے حوصلوں کوجلاملی ہوگی۔ خاص طورپر یاسین ملک، سیدعلی گیلانی، آسیہ اندرابی اوردیگرحریت پسند کوپتہ چل گیا ہوگا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔
Leave a Reply