مسلمان ہندوستان میں قابلِ لحاظ تعداد میں ہیں۔ اُن کے ووٹنگ کے طریقے کے بارے میں پانچ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ: کہا جاتا ہے کہ مسلم ووٹ بھاری تعداد میں استعمال کیے جاتے ہیں اور سیاست میں مسلمانوں کی حصے داری بھی زیادہ ہے جو کسی اور فرقے کے ووٹرز سے زیادہ ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ مسلمان عام طور پر یکجا ہو کر کسی ایک پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ مسلمان ووٹرز عمومی طور پر اپنے ووٹ کا فیصلہ آخری لمحات تک محفوظ رکھتے ہیں۔ چوتھی بات یہ کہ مسلم ووٹرز زیادہ بااختیار نہیں ہوتا اور ووٹ دینے کا فیصلہ مسلم فرقے کے روایتی لیڈروں یا مذہبی قیادت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ پانچویں اور آخری بات یہ کہی جاتی ہے کہ مسلمان دوسرے فرقوں کے مقابلے میں جمہوریت کی مدد کم کرتے ہیں۔ یہ خیال عام طور پر پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں ملک کے سیاسی نظام سے الگ تھلگ رہنے کا رجحان ہے اور وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ملک کی جمہوریت کے اصل دھارے میں ان کو شامل نہیں کیا جاتا۔ اس نکتہ نظر میں یہ بات پنہاں ہے کہ مسلمان ایک غیر معمولی سیاسی فرقہ ہیں جو دوسرے سے جداگانہ مؤقف رکھتے ہیں۔
ان خیالات میں بیشتر ایسے بھی ہیں جو ایک دوسرے کے خیالات سے متصادم ہیں۔ اس کے باوجود کوئی بات تو ایسی ضرور ہے جو جدید ہندوستان اور اسلام سے تعلق رکھتی ہے اور اسی وجہ سے مختلف قسم کے سیاسی تصورات اور ’’طلسمات‘‘ جنم لیتے ہیں۔ یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ دیگر سماجی گروپ کے برعکس مسلمانوں میں علاقوں کی تقسیم، طبقاتی کشمکش، عمر اور جنس (مرد یا عورت) ایسے عوامل ہیں جو مسلمان ووٹرز میں کوئی اہم رول ادا نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ یہ تمام عوامل ہندوستانی مسلمانوں کی ذہن سازی میں کوئی اہم رول ادا نہیں کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے کئی ایسے حلقے ہیں جو ان تصورات کو تسلیم کرتے ہیں۔ مسلمان ہوں یا غیر مسلم جہاں تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی بات ہے وہ بالعموم سیاست سے ناواقف ہوتے ہیں۔ دیگر ایسی نوعیت کے سماجی طبقات کی طرح ان میں بھی سچائی کا ایک عنصر پایا جاتا ہے جس کو مسخ کردیا جاتا ہے یا پھر بڑھا چڑھا کر پیش کردیا جاتا ہے۔
مسلمانوں کے تعلق سے جو عام طور پر غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ان کے تجزیے کی ضرورت ہے اور یہ تجزیہ ان کی شہادتوں کی روشنی میں کیا جانا چاہیے جو اس وقت دستیاب ہے۔ یہ تاثر کہ مسلم طبقہ بھاری تعداد میں ووٹ دیتا ہے، اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ وہ انتخابی حلقے جہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے (۳۰ فی صد سے زیادہ) اور جہاں زیادہ ووٹ استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ یہاں مسلمان ووٹ یکجا ہو کر حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور اس قسم کے حالات صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہندو ووٹرز کا رویہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ بہر صورت ایسے انتخابی حلقے بہت کم تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ عمومی حیثیت سے مسلمان ملک کی آبادی کا ۴ء۱۳ فی صد ہیں۔ اس کی وجہ سے رائے دہندوں میں مسلمانوں کی تعداد ظاہر ہے کم ہی ہوتی ہے۔ بیشتر مسلمان ایسے حلقوں میں رہتے ہیں جہاں اُن کی تعداد رائے دہندوں میں بہ مشکل ۱۰ فی صد ہوسکتی ہے۔ نیشنل الیکشن اسٹڈیز (NES) نے جو شہادتیں جمع کی ہیں اور جس کے لیے CSDS نے بھی کام کیا ہے اُس سے معلوم ہوا ہے کہ انتخابات میں مسلمان ووٹرز کی تعداد دوسرے طبقات ہی کی طرح ہوتی ہے۔ گزشتہ چار عام انتخابات میں مسلمان ووٹرز ۵۹ فی صد تھے جبکہ کل ہند سطح پر رائے دہندوں کا فی صد ۶۰ تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ۲۰۰۴ء میں جو انتخابات ہوئے تھے اُن میں تو مسلم ووٹرز کی تعداد ان کی اوسط تعداد سے بھی کم تھی۔ انتخابی مہم میں حصہ لینے کی جہاں تک بات ہے اُس میں کوئی بھی ایسی بات دیکھنے میں نہیں آتی جو انہیں مہم چلانے والے ہندوئوں سے کوئی الگ یا خاص مؤقف دے سکے۔ انتخابی مہم میں کسی طبقے کی تعلیم، اس کا سماجی درجہ وہ عوامل ہیں جواہم رول ادا کرتے ہیں۔ مہم میں مذہب کا عنصر نہیں ہوتا۔ عام طور پر مسلمان اپنی سیاسی جماعت کی وابستگی کا اعلان نہیں کرتے اور نہ ہی کسی پارٹی کے نام سے اپنی شناخت ظاہر کرتے ہیں یہی بات ہندوئوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ عام انتخابات میں مسلمانوں کی جانب سے رائے دہی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا کہ انہیں کوئی مخصوص ووٹ بینک کہا جاسکتا ہے۔
۲۰۰۴ء میں کانگریس اور اس کی حلیف جماعتوںنے 53 فی صد مسلم ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹی نے 11 فی صد مسلم ووٹ لیے تھے۔ ان دونوں کے علاوہ مسلمانوں کے زیادہ ووٹ سماج وادی پارٹی نے حاصل کیے تھے جو 16 فی صد تھے۔ اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مسلمان ایک گروہ یا بلاک کی حیثیت سے ووٹ دیتے ہیں۔ ریاستی سطح پر بھی یہ صورت حال ہے کہ مسلمان ووٹ کافی ٹھوس ہوتے ہیں لیکن اتنی زیادہ تعداد میں یکجا نہیں ہوتے جس سے یہ تاثر ملے کہ مسلمان ایک واحد گروپ کی حیثیت ہی سے ووٹ دیتے ہیں۔ البتہ ایک بلاک یا گروپ کی شکل میں مسلمانوں کی رائے دہی کا نمونہ کسی حد تک راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش اور دہلی میں ملتا ہے۔ جہاں انہیں ایسی صورت حال سے نمٹنا پڑتا ہے جس میں ان کے لیے کوئی متبادل صورت نہیں ہوتی۔ انتخابی نتائج کے مشہور تجزیہ کار اور ماہر گیندا یادو کا کہنا ہے کہ ایسے کئی ثبوت موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مسلم رائے دہندوں کا ووٹ دینے کا طریقہ ملک کے دیگر طبقات سے مختلف نہیں ہے۔
جہاں مسلمانوں کو کانگریس اور بی جے پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے وہاں البتہ مسلمان ایک بلاک کی شکل میں کانگریس کو ووٹ دیتے ہیں۔ آندھراپردیش اور آسام دو ایسی ریاستیں ہیں جہاں روایتی طور پر مسلم رائے دہندوں نے کانگریس کی کھل کر تائید کی تھی۔ جہاں ان کے لیے کوئی تیسرا متبادل نہیں تھا۔ مغربی بنگال اور کیرالا میں بھی کم و بیش ایسی صورت حال ہے۔ البتہ یہاں بی جے پی یا اُس کی حلیف جماعتوں سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ عمومی حیثیت سے مسلمانوں کے ووٹ دینے کا طریقہ مختلف ریاستوں میں وہی ہے جو ملک کے دیگر طبقات جیسے جاٹ اور برہمن کا ہے۔ اس بات کی بھی کوئی شہادت نہیں ہے کہ مسلمان رائے دہندوں پر ان کی مذہبی قیات کا زیادہ اثر پڑتا ہے۔ دوسرے طبقات کی طرح مسلمان بھی اپنے ووٹ دینے کا فیصلہ خود ہی کرتے ہیں۔ ان کی اپنی حکمتِ عملی ہوتی ہے۔ جیسے دوسروں کی ہوتی ہے۔ کسی بھی دوسرے طبقے کی طرح مسلمان ووٹرز سیاسی پارٹی سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ امیدوار کی اہمیت یا ذات پات کے تصورات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۳۰ فی صد ہندوئوں نے جن کا سروے کیا گیا ہے کہا ہے کہ وہ ووٹ دینے کا فیصلہ ووٹنگ کے دن یا پھر اس سے ایک دن پہلے کرتے ہیں۔ یہی طرزِ عمل اختیار کرنے والے مسلم رائے دہندوں کی تعداد ۳۱ فی صد ہے۔ جہاں تک جمہوریت کا سوال ہے ووٹ دینے کے طریقہ کار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان رائے دہندگان اسلاموفوبیا Islamo Phobia جیسے کسی رجحان کے شکار نہیں ہیں۔ واضح بات ہے کہ ہندوستانی مسلمان ملک کی جمہوریت سیاست سے دورنہیں رہنا چاہتے۔ جمہوری نظام کی تائید کرنے کے معاملے میں ہندوستانی مسلمان ملک کے ہندوئوں سے کسی بھی طرح جداگانہ مؤقف نہیں رکھتے۔ ۲۰۰۴ء میں جو تجزیہ NES نے کیا تھا اُس سے یہ ثبوت ملا تھا کہ ہندوستان کی جمہوریت کو تمام طبقات کی تائید حاصل۔ مسلمانوں کے رائے دہی کے طریقے کے بارے میں جو پانچ نکات بیان کیے گئے ہیں وہ محض ایک قیاس آرائی ہے جس میں صداقت کا کوئی عنصر نہیں ہے۔ محض یہ سمجھ لیا گیا کہ مسلم رائے دہندے اپنے طور پر فیصلہ کرتے ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عام ہندوستانی کی طرح ہندوستان کا مسلمان بھی ووٹ دیتا ہے اس کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply