
حالیہ برسوں کے دوران چین نے بھارت اور امریکا کے مابین فروغ پذیر خوشگوار تعلقات پر شکوک و شبہات سے لبریز نگاہیں مرکوز کر رکھی ہیں۔ یہ تعلقات حال ہی میں اس وقت نکتہ عروج تک جاپہنچے جب دونوں ممالک نے بہت زیادہ تشہیر پانے والے ایٹمی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی سویلین استعمال کے لے بھارت کی دسترس میں آجائے گی۔
اس معاہدے کو اسی سال جولائی میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے دورہ امریکا کے دوران حمتی شکل دی گئی اور کیونکہ اس نیو کلیئر سمجھوتے کی نوعیت سویلین ہے اس لیے اس بات کا امکان تھا کہ چین میں جس کی ۱۹۶۲ء میں ایک سرحدی تنازع پر بھارت کے ساتھ مختصر جنگ بھی ہوئی تھی کوئی زیادہ تشویش پیدا نہ ہوئی ہو۔
لیکن چین اس نیو کلیئر سمجھوتے کو امریکا کے اس ارادے کی ایک علامت کے طور پر دیکھتا ہے کہ بھارت کو ایشیا میں چین کے مقابلے کی ایک طاقت کے طور پر ابھارا جائے۔
کچھ عرصے تک امریکا‘ ایشیا ‘ بحرالکاہل خطے میں اپنے بالادستی کے لیے خطرے کا باعث بننے والی چین کی تیزی سے ترقی پذیر اقتصادی اور فوجی طاقت کے توڑ کے لیے مختلف طریقوں پر غور کرتا رہا۔
واشنگٹن میں وزیراعظم من موہن سنگھ کا جس گرمجوشی اور اپنائیت سے خیرمقدم کیا گیا وہ امریکا کے دورے پر آنیو الے غیر ملکی سربراہان مملکت کے استقبال کے لیے معمول کے اہتمام سے کہیں زیادہ تھا۔ دراصل بھارت نے سرد جنگ کے زمانے کی سوویت یونین کے حق میں اور امریکا کے خلاف اپنی سابق پالیسی کو ترک کرتے ہوئے امریکا کے ساتھ مضبوط شراکت کے قیام کے لیے سازگار فضاء پیدا کرلی تھی۔
ہیری ٹیج فائونڈیشن (Heritage Foundation) کے سینئر فیلوپیٹربروکس بھارت اور امریکا کو ’’چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کا مداوا کرنے اور اسے معتدل سطح پر لانے کے لیے فطری اور بہت ہی مواقف اتحادی‘‘ قرار دیتے رہے ہیں۔
شمال مشرق میں چین کے ساتھ طویل مشترکہ سرحدوں کے باعث بھارت کو امریکاکے تزویراتی عزائم کے نقطہ نظر سے اہم کردار ادا کرنے والے ملک کی حیثیت حاصل ہے۔ واشنگٹن ایک اور وجہ سے بھی بھارت کو چین کے سلسلے میں ایک توازن قائم کرنے والے ملک کے طور پر دیکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایشیا میں چین کے بعد دوسرے نمبرپر سب سے بڑی فوج بھارت کی ہے جس کی تعداد ۱۳ لاکھ ہے۔ بھارت نے حال میں اپنے فوجی بجٹ میں ۳۳ فیصد اضافہ کیا ہے۔ اگرچہ بھارت کے پاس نیوکلیئر ہتھیاروں کی مقدار چین سے کم ہے پھر بھی اس نے نیو کلیئر ریسرچ اور میزائلوں کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کرکے چین کے خلاف قابل اعتماد ڈیٹرنس کا اہتمام کرلیا ہے۔
اقتصادی اور تجارتی پارٹنر کے اعتبار سے بھی بھارت کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ گزشتہ برسوں کے دوران امریکا بھارت دو طرفہ تجارت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے اور اب یہ ۱۸ ارب ڈالر تک پہنچ کچی ہے اور دونوں ممالک کی شدید خواہش کے پیش نظر اس میں مزید اضافے کی زبردست گنجائش موجود ہے۔ ادھرامریکا کے صنعتی شعبے کی طرف سے بھارت کے لیے پرجوش تعاون کی بدولت مستقبل میں وہاں سرمایہ کاری میں مسلسل اضافے کے بھی امکانا ت روشن ہیں۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد کہانی میں ایک موڑ آتا ہے۔ ہوا یوں کہ اس دوران بھارت اور چین کچھ سرحدی تنازع موجود ہونے کے باوجود باہمی مصالحت پر کام کرتے رہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ان کی دو طرفہ تجارت میں بیس گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس سے ایشیا کے یہ دونوں دیو (Giants) ایک دوسرے کے مزید قریب آگئے۔ اب کیونکہ باہمی تجارت اور کاروبار کو وسعت دینا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے اس لیے قرآئن اس امر کی نشاندہی کررہے ہیں کہ آئندہ چند برسوں کے دوران ان کی تجارت میں اضافے کی شرح دوہندسی (Double Digit) سطح کو بھی عبور کرجائے گی۔
فوجی تیاریاں:
دونوں ممالک کے مابین خیرسگالی تعلقات میں اضافے کے باوجود بھارت کے فوجی ماہرین کو اپنے جنوب مغربی سرحد پر چین کی فوجی قوت میں اضافے پر تشویش لاحق ہے۔ انہوں نے ماضی میں کی گئی چینی کارروائی کو بھی فرامو ش نہیں کیا۔ چین جب بھارت کے ساتھ امن اور باہمی تعاون کی باتیں کررہا تھا اس نے عین اس دوران اس کے سب سے بڑے حریف پاکستان کی روایتی ہتھیارروں‘ بلسٹک میزائل اور نیوکلیئر ہتھیاروں کے پروگرام میں زبردست امداد جاری رکھی تھی۔ چین نے اس انکشاف کے باوجود ابھی تک پاکستان کے ساتھ نیوکلیئر پروگرام میں تعاون ترک نہیں کیا کہ اس کے ایک ممتاز نیوکلیئر سائنسدان نے بدمعاش ممالک (Rogue Nations)اور ممکنہ طور پر دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ نیو کلیئر ٹیکنالوجی کو فروخت کی ہے۔
امریکا اور بھارت دونوں نے چین کی ناراضگی مول نہ لینے کی خاطر اپنی نئی نئی محبت کا جوش و جذبہ کم کرکے دیا ہے۔ ایک طرف امریکا کے بعض سیاستدانوں نے امریکا بھارت دوستی کو اس صدی کی اہم ترین پارٹنر شپ قرار دیا تھا لیکن دوسری جانب سنجیدہ تجزیہ نگار بھارتی وزیراعظم کے دورہ امریکا کے دوران دکھائے گئے جوش و خروش اور تعریف و توصیف کو مسترد کرتے ہیں۔ ادھر اس دوران بھارتی سیاستدان بھی پاکستان کی جانب امریکی انتظامیہ کے رویے کا محتاط اندازہ لگانے کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔
نئی دہلی کی خواہش ہے کہ واشنگٹن پاکستان پر دبائو ڈالے کہ وہ سرحد پار سے بھارتی اہداف کو نشانہ نہ بنائے اور اگر وہ اس میں ناکام رہا تو دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی ساکھ ختم ہوکر رہ جائے گی۔
پاکستان کی طرف سے سرحد پار دہشت گردی کے سوال کے باوجود امریکا بھارت تعلقات ماضی میں کبھی اتنے بہتر نہیں رہے جتنے اب ہیں سات برس قبل بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد دونوں ممالک نہایت تیز رفتاری سے ایک دوسرے کے قریب ہوئے اگرچہ بھارت کو ابھی تک نیو کلیئر کلب کا رکن تسلیم نہیں کیا گیا لیکن امریکی انتظامیہ نے خاموشی سے اسے نیو کلیئر پاور کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ امریکا اپنا اتحادی بنانے کے لیے جمہوری ملک بھارت کو اس پاکستان پر ترجیح دے گا جو ناقابل پیش گوئی‘ غیر مستحکم اور ڈکٹیٹر شپ کی ز د میں رہتا ہے اور جس کے بارے میں مغرب کے کئی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ کچے دھاگے کے ساتھ لٹکا ہوا ایک ملک ہے اور اس کی بقاء امریکا اور مغرب کی مہربانیوں کی مرہون منت ہے۔
مانک مہتا ایشیائی امور کے ایک تجزیہ نگار ہیں
(ترجمہ: ملک فیض بخش… بشکریہ: ’’گلف نیوز‘‘)
Leave a Reply