بہتر ہوتے بنگلا بھارت تعلقات

سیاست، سفارت اور سلامتی کے حوالے سے بھارت کے بڑھتے ہوئے مفادات اسے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات کی طرف مائل ہونے کی تحریک دے رہے ہیں۔ باہر کی دنیا کو بہتر اندازہ نہیں کہ طویل سرحد رکھنے والے دو ہمسائے (بھارت اور بنگلہ دیش) عشروں کے کشیدہ تعلقات کو اب استحکام کی طرف لے جارہے ہیں۔ بھارت اس بات سے خوش ہے کہ بنگلہ دیش کی عوامی لیگ حکومت نے ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد اس کے دیرینہ مطالبے کو مانتے ہوئے پاکستان اور بھارتی سرزمین سے تعلق رکھنے والے شدت پسند گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ اس اقدام سے بھارت میں تحفظ کا احساس بڑھا ہے۔

دونوں ممالک میں روایتی حکمراں خاندان برسر اقتدار ہیں اور دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ۲۵ جولائی کو بھارتی حکمراں جماعت کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو دارالحکومت ڈھاکا میں ان کا شاندار خیر مقدم کیا گیا۔ خیر سگالی کے طور پر بنگلہ دیشی حکومت نے سونیا گاندھی کی ساس آنجہانی مسز اندرا گاندھی کو ملک کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا جو در اصل بنگلہ دیش کے قیام کی جدوجہد (جس کی قیادت شیخ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمن کر رہے تھے) میں بھارتی فوج بھیج کر معاونت کرنے کا صلہ تھا۔

بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ ستمبر کے اوائل میں بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے۔ تب کئی معاہدے متوقع ہیں جن میں سر فہرست دریائوں کے پانی کی شراکت داری، سرحد پار سے بجلی کی فراہمی اور سرحدی گارڈز کو کنٹرول کرنے سے متعلق ہوگا۔ ۴۰۹۵ کلو میٹر (۲۵۰۰ میل) کی سرحد کو غلطی سے عبور کرنے اور مویشیوں کو چراتے ہوئے بھارتی علاقے میں آ جانے والوں کو سرحدی گارڈ گولی مار دیتے ہیں۔ مویشیوں کے اسمگلروں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس سلسلے کو دونوں ممالک روکنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بھارتی وزیر بھارت کی سات دور افتادہ ریاستوں تک پہنچنے کے لیے بنگلہ دیش سے کراسنگ کے معاہدے پر بھی دستخط کریں گے۔ یہ سات بھارتی ریاستیں انتہائی شمال مشرق میں، چینی سرحد سے ملحق ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم اس دورے میں تجارت سے متعلق اہم معاہدوں پر بھی دستخط کریں گے۔ بنگلہ دیش سے تجارت میں زیادہ فائدہ بھارت کا ہے۔

بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان مجموعی طور پر دس ارب ڈالر کے تجارتی اور صنعتی معاہدے متوقع ہیں۔ ان معاہدوں پر عمل سے بھارت کے دور افتادہ علاقوں کی پس ماندگی دور کرنے اور انہیں مرکزی دھارے میں مدد ملے گی۔ دوسری طرف بنگلہ دیش بھی ان سے مستفید ہوگا اور بعض شعبوں میں اس کی کارکردگی بہتر ہوگی۔ بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کے گورنر نے بھی بھارت سے ممکنہ معاہدوں کو غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے معاشی نمو کی شرح بلند ہوگی جوکہ ابھی تقریباً ۷ فیصد ہے۔

بھارت نے ایک اہم معاہدے کے لیے بنگلہ دیش کو ۵۰ کروڑ ڈالر کا قرضہ آسان شرائط پر دیا ہے۔ بنگلہ دیش کے حکمران معاشی مواقع شناخت کرکے ان سے استفادہ کرنے کے معاملے میں تساہل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ میانمار سے بھارت تک گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی اسی تساہل کے باعث چین کی نذر ہوا۔

بھارت بنگلہ دیش کے ذریعے جو ٹرانزٹ معاہدہ کرنا چاہتا ہے اس پر بنگلہ دیش میں اعتراض کرنے والوں اور معاملے کو شک کی نظر سے دیکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ فوج کے اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ بھارت اس معاہدے کی آڑ میں محفوظ راہداری چاہتا ہے۔ ایک دن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھارتی حکومت شورش زدہ شمال مشرقی ریاستوں تری پورہ اور منی پور میں فوجی سپلائی خطرناک اور دشوار گزار راستوں کے بجائے بنگلہ دیش کے نسبتاً محفوظ راستے سے بھیجے۔ فوجی افسران کو خدشہ ہے کہ ایسی صورت میں بھارت کے باغی بنگلہ دیش کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں۔

اس سے کہیں بڑھ کر، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھارت اروناچل پردیش کے متنازع علاقے کے معاملے میں چینی سرحد پر عسکری قوت مجتمع کرنے میں بنگلہ دیش سے مدد لے۔ اروناچل پردیش پر بھارتی ملکیت کے دعوے کو چین مسترد کرتے ہوئے اسے جنوبی تبت قرار دیتا ہے۔ بہت سے بنگلہ دیشیوں کو خدشہ ہے کہ اگر بھارت نے چین کے خلاف عسکری معاملات میں بنگلہ دیشی سرزمین کو مارشلنگ یارڈ کے طور پر استعمال کیا اور نقل و حمل سے متعلق اپنی مشکلات دور کرلیں تو چین کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات زیادہ توانا نہیں۔ بھارت کو شک کی نظر سے دیکھنے والے بنگلہ دیشی ہر دور میں رہے ہیں۔ بھارت نے ان کے شبہات دور کرنے پر بھی توجہ دی ہے۔ ایک امریکی یونیورسٹی کے حالیہ سروے کے مطابق بنگلہ دیشی نوجوانوں میں کم ہی ہیں جو بھارت کے بارے میں شکوک پر مبنی سوچ رکھتے ہیں۔ ایک بنگلہ دیشی تھنک ٹینک نے بھی حال ہی میں بتایا ہے کہ بنگلہ دیشی نوجوان بھارت کے بارے میں زیادہ شکوک نہیں پالتے، گوکہ سرحدی علاقوں میں لوگوں پر بھارتی گارڈز کی فائرنگ کے واقعات پر قدرے اشتعال پایا جاتا ہے۔

بھارت کے لیے کسی حد تک مشکلات پیدا کرنے والی بات یہ ہے کہ وہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد پر کچھ زیادہ انحصار کر رہا ہے اور وہ اپنے بیشتر معاملات میں خاصی خودسر اور سخت گیر ہوتی جارہی ہیں۔ حزب اختلاف کی جانب سے پارلیمانی سیشنز کا بائیکاٹ اور ہڑتالیں عام ہیں۔ جنوبی ایشیا کے معیار پر پرکھا جائے تو اعلیٰ سطح پر بدعنوانی خاصی پریشان کن ہے۔ حال ہی میں حکومتی حلقوں کی جانب سے آئین دوبارہ تحریر کرنے کی بات بھی سامنے آئی ہے۔ یہ گویا اختیارات کو اپنے دامن میں سمیٹنے کی کوشش ہے تاکہ آئندہ عام انتخابات تک کسی نگراں حکومت کے بغیر ہی موجودہ سیٹ اپ چلتا رہے اور انتخابات پر اثر انداز ہونا آسان ہو۔ شیخ حسینہ واجد نے اپنے والد شیخ مجیب الرحمٰن کو ہزار سال کا عظیم ترین بنگالی قرار دے کر شخصیت پرستی کی راہ ہموار کی ہے۔

نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات اور گرامین بینک کے بانی ڈاکٹر محمد یونس نے بھی سیاست میں طبع آزمائی کی تاہم ناکام رہے۔ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کے حوالے سے مقدمات چند ہی ہفتوں میں شروع ہونے والے ہیں۔ ان مقدمات کو انصاف کی فراہمی سے زیادہ جماعت اسلامی کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

بنگلہ دیش کی سیاست کا الگ ہی انداز ہے۔ عام طور پر کسی کو دوبارہ منتخب نہیں کیا جاتا۔ ۲۰۱۳ء کے عام انتخابات میں شیخ حسینہ واجد کو اقتدار سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔ اگر وہ ووٹ کے ذریعے نہیں جائیں گی تو لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ ممکن ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو اقتدار مل جائے اور بیگم خالدہ ضیاء دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں۔ شیخ حسینہ واجد جس قدر بھارت نواز ہیں، خالدہ ضیاء اُسی قدر بھارت مخالف ہیں۔ بھارتی حکام خالدہ ضیاء اور ان کے رفقاء سے ملاقاتیں نہیں کرتے۔ یہ تنگ نظری دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ستمبر میں جب من موہن سنگھ بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے تب اس بات کی بہت اہمیت ہوگی کہ وہ کس طور تعلقات وسیع کرتے ہیں تاکہ مستقبل میں دو طرفہ تعلقات اچانک مشکلات سے دوچار نہ ہوں۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۳۰ جولائی ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*