
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے گزشتہ ماہ بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات کے دوران اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ایران اور بھارت مل کر خطے میں عمومی طور پر اور افغانستان میں خصوصی طور پر امن و استحکام یقینی بنانے کے لیے کام کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تہران افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے نئی دہلی کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
بھارت کے وزیر خارجہ ۵؍اگست کو دو روزہ دورے پر تہران گئے جہاں انہوں نے ایران کے نئے صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت اب بھی خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے حوالے سے ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے۔ ایک ماہ سے کم مدت میں سبرامنیم کا یہ تہران کا دوسرا دورہ تھا۔ اس دوران انہوں نے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے ٹیلی فون پر رابطہ بھی برقرار رکھا۔
بھارتی وزیر خارجہ کے دورۂ تہران کے دوران دونوں ممالک کے درمیان جو بات چیت ہوئی اُس میں دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے اور اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع کرنے کے علاوہ افغانستان کی صورتِ حال بھی نمایاں رہی۔ افغانستان میں معاملات تیزی سے کچھ کے کچھ ہوتے جارہے ہیں۔ سبرامنیم جے شنکر کے دورۂ تہران کے موقع پر افغانستان میں طالبان کی فتوحات بڑھتی جارہی تھیں اور وہ دارالحکومت کابل کی طرف تیزی سے پیش رفت ممکن بنارہے تھے۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ افغانستان میں کس نوعیت کی حکومت قائم ہوگی۔ طالبان اپنے پہلے دور کی طرح سخت گیر رویے کے ساتھ ہی حکومت کریں گے یا پھر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر وسیع البنیاد قومی حکومت قائم کی جائے گی؟
جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے اُس کی روشنی میں تو بھارت سمیت تمام ہی ممالک افغانستان سے اپنے تعلقات کے بارے میں نئے سِرے سے سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ بھارت کے پاس آپشنز بہت محدود ہیں۔ وہ چاہے تو ایک طرف ہٹ کر اس بات کا انتظار کرسکتا ہے کہ افغانستان میں معاملات واضح ہوں اور مستقبل کے حوالے سے کوئی روشن تصویر ابھرے۔ اس دوران وہ ہم خیال ممالک سے افغانستان کی صورتِ حال پر زیادہ سے زیادہ مشاورت کرسکتا ہے اور امکانات پر غور بھی کرسکتا ہے۔
نئی دہلی اس پوزیشن میں بالکل نہیں کہ افغانستان میں اپنے طور پر کچھ ایسا کرے کہ زمینی حقیقتیں اس کے حق میں تبدیل ہوں۔ ایسے میں اُسے ہم خیال ممالک کی طرف سے حمایت اور تعاون درکار ہوگا۔ پاکستان اور چین کے ساتھ مل کر تو کام کیا ہی نہیں جاسکتا اور کام کرنا تو در کنار، اس حوالے سے تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر کچھ کرنے کا بھی امکان نہیں کیونکہ وہ تو خود پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ روس ایک طویل مدت تک بھارت کا حامی اور پارٹنر رہا ہے۔ بھارت اس کے ساتھ بھی مل کر کام کرنا چاہے گا مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت روس چاہتا ہے کہ افغانستان میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرے۔ ایسے میں اس بات کا امکان خاصا محدود ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر کام کرے۔ ایسے میں بھارت کے پاس اب یہی ایک آپشن رہ گیا ہے کہ ایران کے ساتھ مل کر چلے گوکہ اس ممکنہ پارٹنر شپ کی بھی چند حدود ہیں اور افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال دونوں ممالک کے لیے الگ الگ اور مل کر کام کرنے کے حوالے سے نئے چیلنج پیش کر رہی ہے۔
لازم ہے کہ ایران اور بھارت اپنے مفادات کے حوالے سے ہم آہنگی پیداکریں۔ دونوں کو ایک ایسا افغانستان درکار ہے جس میں قومی نوعیت کی حکومت ہو یعنی اُس میں طالبان سب پر حاوی ہوں نہ کوئی اور دوسروں پر حاوی ہو۔ اور یہ کہ کابل میں بننے والی حکومت پاکستان کے انگوٹھے تلے بھی نہ ہو۔ طالبان کا دوبارہ اقتدار میں آنا بھارت اور ایران دونوں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ بھارت کو یہ خوف لاحق ہے کہ افغانستان میں طالبان کا دوبارہ عروج ۱۹۹۰ء کی دہائی والے حالات پیدا کرسکتا ہے، جب پاکستان کے حمایت یافتہ اور بھارت مخالف گروپ افغانستان کے طول و عرض میں تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے چکے تھے۔ تب ایران ایک موقع پر طالبان سے جنگ تک پہنچ چکا تھا جب ۱۹۹۸ء میں شمالی افغانستان کے شہر مزارِ شریف پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ایرانی سفارت کاروں کو قتل کردیا گیا تھا۔
ایران اور طالبان کے درمیان ہم آہنگی دکھائی دی ہے اور دونوں نے بات چیت بھی کی ہے مگر اس کے باوجود شیعہ اکثریت والے ایران میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ طالبان اپنے ہم خیال گروپ تشکیل دیں گے، جو افغان سرزمین سے ایران پر حملوں کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ تہران کو افغانستان میں شیعہ اقلیت کی مشکلات کے حوالے سے فکر لاحق ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ۵۷۲ میل کی سرحد سے منشیات کی اسمگلنگ بھی بڑھ سکتی ہے۔ افغانستان میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے بھارت کو فی الحال ایران سے اچھا شراکت دار نہیں مل سکتا، گوکہ اس معاملے میں بھی چند ایک مشکلات درپیش ہیں، چند نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔
بھارت کے لیے ایک بڑا مسئلہ جغرافیے کا بھی ہے۔ افغانستان سے بھارت کی سرحد ملتی نہیں۔ پاکستان نے بھارت کو افغانستان تک زمینی رسائی دینے میں کبھی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ افغانستان اور وسطِ ایشیا کی مارکیٹ اور معدنی وسائل تک رسائی کے لیے بھارت کو اب تک ایران پر منحصر رہنا پڑا ہے۔ اس تعلق کو مضبوط تر بنانے کے لیے نئی دہلی اور تہران نے جنوب مشرقی ایران میں چا بہار کی بندر گاہ پر مل کر کام کیا ہے۔ بھارت نے چاہ بہار کو افغانستان تک رسائی کے متبادل راستے کے طور پر مقبولیت سے ہم کنار کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ خشکی سے گِھرے ہوئے افغانستان کا پاکستان کی بندر گاہوں پر انحصار گھٹے۔ چاہ بہار کی اسٹریٹجک اہمیت کم نہیں پھر بھی اس کی ترقی کی رفتار خاصی سست رہی ہے۔ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ تاخیر ایران کی طرف سے ہوئی ہے جبکہ امریکا کی طرف سے پابندیوں کی دھمکی نے بھی اس معاملے میں بھارت کو ٹریک سے اتارنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ چا بہار کی بندر گاہ کو پابندیوں سے باضابطہ طور پر مستثنٰی قرار دیے جانے پر بھی بھارت کو ایران سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخاصمت کے باعث تشویش ہی لاحق رہی۔ چا بہار کی بندر گاہ کو کامیاب بنانے کے لیے بھارت کو بہت کچھ کرنا تھا مگر وہ اب تک صرف ۵۰ کروڑ ڈالر فراہم کرسکا ہے جبکہ نجی سرمایہ کاروں کو بھی اس طرف مائل کرنے کی کوششیں مجموعی طور پر ناکام رہی ہیں۔
افغانستان کے ایوانِ اقتدار میں طالبان کی آمد سے، جیسا کہ سبرامنیم جے شنکر کا کہنا ہے، وسطِ ایشیائی ممالک کی سمندر تک رسائی کے حوالے سے چا بہار کی بندر گاہ کا کردار اور وسطِ ایشیا کے لیے گیٹ وے کی حیثیت سے افغانستان کا مقام کچھ مدت کے لیے گہنا گیا ہے۔ سقوطِ کابل سے قبل طالبان ایران سے ملحق بہت سی بارڈر کراسنگز اور ایران سے ملحق تین صوبوں ہرات، فراہ اور نمروز کے صدر مقامات پر متصرف ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ ایران کو افغانستان سے اپنی سرحدیں بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں ۲؍ارب ڈالر سالانہ کی تجارت بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔ نمروز کا صدر مقام زارنج اب طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ یہ بات ایران اور بھارت دونوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہے کیونکہ یہ شہر چاہ بہار کی بندر گاہ کے روٹ پر واقع ہے اور اس کی تجارتی اہمیت غیر معمولی ہے۔ بھارت نے زارنج سے شمالی نمروز میں دلارام تک شاہراہ تعمیر کی ہے، جو ایران و افغانستان کی سرحد کو قندھار ہرات شاہراہ سے جوڑتی ہے اور وہاں سے افغانستان کے دوسرے بڑے شہری مراکز تک رسائی آسان ہو جاتی ہے۔ بھارت کو یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ افغانستان میں طالبان کی سرکردگی میں قائم ہونے والی حکومت پاکستان کی کراچی اور گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے تجارت بڑھانے کو ترجیح دے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علاقائی بنیاد پر روابط اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے بجائے بھارت کی قیادت ایران کے ساتھ مل کر طالبان سے بہتر طور پر نمٹنے میں مصروف رہنے پر مجبور ہوگی۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں بھارت نے ایران اور روس کے ساتھ مل کر شمالی افغانستان سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے شمالی اتحاد کے ہاتھ مضبوط کیے تھے، جو طالبان حکومت سے نبرد آزما تھے۔ ویسے چند ایک تحفظات کے باوجود ایران نے ایک عشرے کے دوران طالبان سے تعلقات بہتر بنانے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خطے میں امریکی اثرات کا دائرہ محدود رکھنے کے لیے ایران نے طالبان کو ہتھیار بھی فراہم کیے۔ اور جب ایران نے محسوس کرلیا کہ طالبان دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں تو اس سے سفارتی روابط پھر بڑھائے اور مختلف معاملات میں مشاورت کی۔
ہوسکتا ہے کہ ایرانی قیادت افغانستان کے حوالے سے فوری طور پر امکانات زندہ رکھنے کے لیے راستے اور رابطے کھلے رکھنے کو ترجیح دے، اور پرامن بقائے باہمی کی امید پر طالبان سے تعلقات بہتر بنانے پر متوجہ ہو۔ خود بھارت نے بھی چند ماہ کے دوران طالبان سے رابطے بڑھانے میں دلچسپی لی ہے۔ قطر میں بھارتی سفارت کاروں نے طالبان کے نمائندوں سے گفت و شنید کی ہے تاکہ افغانستان میں بھارتی مفادات کے لیے کوئی بہت بڑا خطرہ پیدا نہ ہو۔ بھارتی قیادت بھی اس بات کو تو سمجھتی ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امکانات زندہ رکھنے کی ایک اچھی صورت یہی ہے کہ طالبان سمیت افغان سیاست کے تمام فریقوں اور مجموعی طور پر پورے ملک کے اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ ویسے طالبان سے روابط رکھنے کے معاملے میں بھارت خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہچکچاہٹ کا شکار رہا ہے۔ ایسے میں طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کے بارے میں تو کچھ کہا ہی نہیں جاسکتا۔ ویسے طالبان سے روابط اب تک زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوئے کیونکہ طالبان خود بھی بھارت کی طرف سے پہل کے جواب میں کوئی حوصلہ افزا جواب دینے میں ناکام رہے ہیں۔
اگر طالبان سے تعلقات بہتر نہ رہیں تو ایران عسکری کارروائیوں کا آپشن کھلا رکھے ہوئے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بھارت بھی مستقبل میں طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغانوں کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ اس کے باوجود غالب امکان اس بات کا ہے کہ ماضی کے برعکس بھارت اور ایران کسی مشترکہ موقف کے لیے محنت کریں۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف شدید ترین مزاحمت کرنے والا شمالی اتحاد اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے کیونکہ اس کا حصہ رہنے والے بہت سے جنگجو سردار یا تو پکڑے گئے ہیں یا ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایران اپنے تربیت یافتہ افغان شیعہ گروپ فاطمی ڈویژن کو طالبان کے خلاف لڑائی میں استعمال کرے۔ ایران ان جنگجوؤں کو شام میں تعینات کرتا رہا ہے اور اس گروپ کو افغانستان میں بروئے کار لانے کا عندیہ بھی دیتا رہا ہے۔ ایران نے افغانستان کی سابق حکومت کو طالبان کے خلاف لڑائی میں فاطمیون ڈویژن کے جنگجوؤں کی خدمات کی پیش کش کی تھی مگر اُس حکومت نے ایسا کرنے میں دلچسپی نہیں لی تھی۔ بھارت بظاہر اس بات کا خواہش مند ہے کہ طالبان کے خلاف وسیع البنیاد اتحاد قائم کیا جائے۔ ایران کے حمایت یافتہ افغان شیعہ جنگجوؤں کو استعمال کرنے کے نتیجے میں افغانستان میں فرقہ واریت کا دائرہ وسعت اختیار کرسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگا۔
افغانستان کے محاذ پر درپیش چیلنج بھارت اور ایران کے تعلقات پر بھی وسیع تر اثرات کے حامل ہوسکتے ہیں۔ چند برسوں کے دوران بھارت اور ایران کے تعلقات تھوڑی سی سرد مہری کا شکار رہے ہیں کیونکہ امریکا کے حوالے سے دونوں کا موقف ایک دوسرے سے یکسر مختلف رہا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے حالیہ دورے سے بھارت نے یہ امید وابستہ کی تھی کہ دو طرفہ تعلقات میں در آنے والی سرد مہری دور کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکے گی۔ امریکا اور ایران سے تعلقات خوش گوار سطح پر برقرار رکھنے میں بھارت کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے اور اس کا بنیادی سبب امریکا کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کے نفاذ کا خطرہ ہے۔ بھارت کو بارہا ایران سے اپنے تعلقات محض امریکی دباؤ پر محدود کرنا پڑے ہیں۔ معاملات کو مزید پیچیدہ بنانے والی حقیقتیں یہ ہیں کہ ایران نے حال ہی میں بھارت کے کٹّر حریف چین کے ساتھ اسٹریٹجک معاملات میں تعاون اور اشتراکِ عمل کا ۲۵ سالہ معاہدہ کیا ہے، جبکہ بھارت نے ایران کے روایتی حریفوں اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے دوستی اور اشتراکِ عمل کی پینگیں بڑھائی ہیں۔ بھارت اور ایران کو قریب لانے میں اگر کوئی ملک کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے تو وہ افغانستان ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ایران اور بھارت نے بھی طے کرلیا ہے کہ تعلقات بہتر بنانے کا یہ آپشن عمدگی سے بروئے کار لائیں گے۔ یہ بات البتہ پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس آپشن کو بروئے کار لانے کا نتیجہ کس حد تک دونوں ممالک کے حق میں ہوگا۔
(ترجمہ: ایم ابراہیم خان)
“India and Iran will have their hands full on Afghanistan”.(“worldpoliticsreview.com”. Aug. 16, 2021)
Leave a Reply