
دوستان میں مسلمانوں کی اپنی ایک شاندار تاریخ رہی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اس سرزمین پر صدیوں حکومت کی بلکہ انصاف اور رواداری کی بے نظیر مثال بھی قائم کی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سلطنت کے کھو جانے کے بعد انہیں آج تک سنبھالا نہ ملا۔ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی اور مسلمانوں نے اس کی مدافعت کی، تو فطری طور پر وہ مسلمانوں کے دشمن بن گئے اور انہیں ہی خاص طور پر نشانہ بنایا جانے لگا۔ پھر جب ملک کی تقسیم کے ساتھ آزادی کا سورج طلوع ہوا، تو خوشحال اور ذی حیثیت مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ترکِ وطن پر مجبور ہو گیا۔ اس طرح آبادی کا تناسب گھٹ گیا اور جو مسلمان یہاں رہ گئے وہ ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہو گئے۔ رہی سہی کسر بعد کی حکومتوں نے پوری کردی۔ ملک کے دستور میں انہیں جو حقوق دیے گئے ہیں، اُن سے بھی انہیں محروم رکھا گیا اور فسادات کے لامتناہی سلسلہ نے انہیں ابھرنے اور پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ پھر سیاسی طالع آزماؤں اور خود ملت کے نادان دوستوں نے انہیں جذباتی مسائل میں اس طرح الجھائے رکھا کہ انہیں اپنی حقیقی صورتحال کا اندازہ کرنے کا موقع ہی نصیب نہیں ہوا۔ گویا داخلی و خارجی ہر سطح پر حالات ان کے لیے ناسازگار رہے اور اس دوران جن اقوام نے ہوش مندی اور سوجھ بوجھ سے کام لیا، وہ اتنی بلندی پر پہنچ گئیں کہ مسلمان ان سے اپنا تقابل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہ رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ تمام حکومتوں نے ان کی پسماندگی میں اضافہ کرنے میں اپنا کردار نبھایا۔ سیاسی جماعتوں نے انہیں اپنے ووٹ بینک کے طور پر تو استعمال کیا، لیکن ان کی فلاح و بہبود کے بجائے تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر ان کی کمر توڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مسلمانوں نے جن جماعتوں کو اپنے ووٹوں سے اقتدار تک پہنچایا، انہوں نے بھی انہیں طفل تسلی دینے اور سبز باغ دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ غربت، جہالت، گندگی، بیماری، بے روزگاری، احساسِ کمتری اور مایوسی مسلمانوں کی پہچان بن گئی اور ایسا لگتا ہے کہ ترقی کی ہر راہ مسلمان بستیوں اور آبادیوں کو چھوڑ کر دور سے ہی گزر جاتی ہے۔
عدم تحفظ کا مسئلہ
اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ عدم تحفظ کا ہے۔ اس احساس نے انہیں ہمیشہ ترقی کی راہ میں آگے بڑھنے سے روکا اور یہ سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ دہشت گردی کے نام پر جس طرح ایک پوری قوم کو یرغمال بنا لیا گیا، اور اس کے پڑھے لکھے اور جدید تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو جس طرح دہشت گرد قرار دے کر جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے یا ان کائونٹر کے نام پر ان کا قتل کیا جارہا ہے، یہ جمہوریت کا سب سے مکروہ چہرہ ہے۔ بٹلہ ہاؤس ان کائونٹر اس کی بدترین مثال ہے۔ مسلمان اور انصاف پسند عناصر شروع سے ہی اس کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، لیکن حکومت اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس سے پولیس کی حوصلہ شکنی ہوگی، گویا قانون شکنی ہو تو ہو ظالموں کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہیے۔ حکومتوں کے ساتھ ہی نام نہاد قومی پریس نے بھی ہر داڑھی ٹوپی والے کی شبیہ دہشت گرد کی بنا کر اس کے کردار کو مشکوک کرنے اور اس کی تذلیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دورانِ سفر کسی طرح کی گفتگو بھی کسی مسلمان کو دہشت گرد قرار دے کر اسے جیل میں ٹھونسنے کے لیے کافی ہے۔ دہشت گردانہ واقعات میں ہندو شدت پسند تنظیموں کا کردار واضح ہو جانے کے باوجود مسلمانوں کو ہراساں کیے جانے کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس جمہوریت کا اللہ ہی نگہبان ہے جس کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری سب سے بڑی اکثریت کے ساتھ اس طرح کا رویہ روا رکھا جائے۔
آئینی حقوق سے محرومی اور سچر کمیٹی
آزادی کے بعد سے آج تک جس طرح منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کو ان کے آئینی اور دستوری حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اس میں ان کی پسماندگی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے سبھی واقف ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے سے قبل بھی مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور انہوں نے بھی مسلمانوں کو پسماندہ قرار دیا۔ البتہ سچر کمیٹی نے نہایت باریک بینی کے ساتھ مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی صورت حال کا جائزہ لیا اور اعداد و شمار کی روشنی میں ان کی صحیح صورتحال واضح کردی۔ اس سے ایک طرف جہاں مسلمانوں کے ووٹ پر اقتدار حاصل کرنے والی حکومتوں کی قلعی کھل گئی، وہیں دوسری طرف خود مسلم سماج، اس کے علما و دانشوران اور ملی و سماجی تنظیموں کو بھی اپنی اوقات کا پتا چل گیا۔ سچر کمیٹی رپورٹ ایک ایسا آئینہ ہے، جس میں ہر شخص اپنی تصویر صاف دیکھ سکتا ہے۔ اس رپورٹ نے ثابت کر دیا کہ ملک کی ایک بڑی آبادی خود اپنے ہی ملک میں کس طرح سماجی، تعلیمی اور اقتصادی طور پر حاشیہ پر لاکھڑی کردی گئی ہے۔
سچر کمیٹی کی سفارشات کے نفاذ کے لیے مرکزی حکومت نے سابق وزیر جناب محمد علی اشرف فاطمی کی سربراہی میں Action Taken Report تیار کرائی اور اس کی سفارشات کی روشنی میں کچھ عملی اقدامات بھی کیے گئے۔ کئی فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا گیا، لیکن ان اسکیموں کا نفاذ ایمانداری سے نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے اقلیتوں کو دیا جانے والا قرض ہے۔ لیکن اس کی گہرائی میں جاکر دیکھا گیا تو پتا چلا کہ اس میں سے ۹ء۵ فیصد قرض چینیوں کو، ۱ء۵ فیصد سکھوں اور ۱ء۵ فیصد میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ملا کر دیا گیا۔ کیا ہم اسے محض اتفاق کہہ کر آگے بڑھ سکتے ہیں؟
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے سچر کمیٹی کی ۷۶ سفارشات میں سے ۷۲ سفارشات نافذ کر دی ہیں۔ لیکن زمینی سطح پر سوائے اسکالر شپ دیے جانے کے کسی سفارش کا نفاذ نظر نہیں آرہا ہے۔
رنگ ناتھ مشرا کمیشن:
سچر کمیٹی رپورٹ کے ذکر کے ساتھ یہاں رنگ ناتھ مشرا کمیشن کا ذکر بھی بے جا نہ ہوگا۔ اس کمیشن نے مسلمانوں کو دس فیصد اور دیگر اقلیتوں کو پانچ پانچ فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش کی ہے۔ لیکن اب حکومت مختلف بہانوں سے اس پر عمل کرنے سے کترا رہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ دستور میں مذہبی بنیاد پر ریزرویشن دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ حالانکہ مسلمان مذہبی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن کا مطالبہ کرتے ہیں، جس پسماندگی پر خود حکومت نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ قانونی داؤ پیچ میں الجھائے بغیر حکومت رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات پر عمل کرے۔
ریاست بہار کی صورتحال بھی ملک کی عمومی صورتحال سے مختلف نہیں ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کی سطح پر بہار کے مسلمانوں کے ساتھ بھی دیانتداری کا ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ حکومتیں بدلیں، لیکن مسلمانوں کے حالات نہیں بدلے۔ تمام حکومتیں اور تمام سیاسی جماعتیں ان کے ووٹ اپنی جھولیوں میں ڈال کر اپنا پلڑا بھاری کرتی رہیں لیکن مراعات و مفادات صرف اپنے لوگوں کے لیے محفوظ رکھے۔ آج بھی ایک بڑی آبادی ایسی ہے، جو صاف ستھرے پانی، کھانے اور تعلیم سے محروم ہے۔ نیز جانوروں سے بدتر زندگی گزارتی ہے۔ ترقی سے ناآشنا یہ آبادی ساٹھ سال قبل جہاں تھی، آج بھی وہیں کھڑی ہے۔ ریاست کے جن اضلاع میں مسلم شرح آبادی زیادہ ہے، وہ اضلاع معاشی اعتبار سے بھی پسماندہ ہیں اور وہاں کوئی صنعتی و تجارتی مرکز بھی نہیں ہے، صحت کے مراکز بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اردو زبان کا مسئلہ
اردو ریاست کے مسلمانوں کی مادری زبان ہے اور ریاست کی دوسری سرکاری زبان بھی۔ لیکن تعلیم کے لیے سہ لسانی فارمولا پر عمل نہیں ہورہا ہے، اور اگر عمل ہو رہا ہے تو غلط طور پر۔ تعلیم کی ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ، تینوں سطحوں پر اردو کے اساتذہ بہت کم ہیں۔ ابتدائی اور ثانوی سطح پر تو اردو اساتذہ بحال ہیں، وہ اردو طالب علموں کو پڑھائیں تو کیا پڑھائیں، کیونکہ اردو کی نصابی کتابیں نہ وقت پر شائع ہوتی ہیں اور نہ دستیاب۔ متھلا یونیورسٹی کے اکثر کالجوں میں اردو اساتذہ کی سیٹیں خالی ہیں، یاسرے سے ہیں ہی نہیں۔ سرکاری دفاتر میں کہنے کو تو اردو مترجمین بحال ہیں، لیکن ان سے دوسرے کام لیے جاتے ہیں۔ اقلیتوں کو انصاف دلانے اور مین اسٹریم میں لانے کی بات تو بڑے زور و شور سے کی جاتی ہے لیکن اس کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی اور مدرسہ بورڈ
مولانا مظہر الحق کے نام پر قائم عربی و فارسی یونیورسٹی کا معاملہ ’’ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘ والا ہے۔ بہار: مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے عالم اور فاضل درجات کو الگ کرکے اسے یونیورسٹی کے ساتھ کر دیا گیا ہے۔ انفرا اسٹرکچر کا حال یہ ہے کہ اسے آج تک اپنی زمین میسر نہ ہوسکی۔ اس کا انتظامی اور امتحانی بلاک الگ الگ مقامات پر چل رہا ہے۔ خود مدرسہ بورڈ کی حالت قابلِ رحم ہے۔ مدرسین اور اساتذہ کی تنخواہیں بے حد قلیل ہیں اور وہ بھی وقت پر نہیں ملتیں۔ اساتذہ و ملازمین امید اور تسلی کے آکسیجن پر جی رہے ہیں۔ سابق چیئرمین کی کارکردگی سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بورڈ کی تاریخ میں اس سے بُرا حال کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کے ساتھ جو ناروا سلوک پہلے سے جاری تھا، وہ آج بھی برقرار ہے۔ نئے اداروں کے قیام کے لیے منظوری لینا جُوئے شِیر لانے سے کم نہیں ہے۔ پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک وظائف بہت کم طلبہ کو ملتے ہیں جبکہ اس کا اشتہار بہت ہوتا ہے۔ موجودہ وزیراعلیٰ کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ مرکزی فنڈ کا استعمال ایمانداری سے کر رہے ہیں جس میں سڑکوں کی تعمیر کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے، لیکن اسکالر شپ کی تقسیم میں اس ایمانداری کا مظاہرہ نہیں ہورہا ہے۔
اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کا حال
بہار اسٹیٹ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ ۱۹۸۴ء میں اس کا قیام اس لیے عمل میں آیا تھا کہ اقلیتوں کے وہ افراد جن کی مالی حالت کمزور ہے، اس سے قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔ بظاہر یہ بڑی اچھی اسکیم معلوم ہوتی ہے لیکن اس ادارے سے قرض کا حصول اتنا مشکل ہے کہ بے چارے اقلیتی افراد عموماً دفتروں کے چکر لگانے کے بعد خاموش بیٹھ جانے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ اگر قرض مل بھی جائے تو اس کی حیثیت محض علامتی ہے جس سے سدھار کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ ریاستی اقلیتی سیکشن بھی ایک تماشہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایسے شخص کو اس کی نگرانی سونپی جاتی ہے، جو اس ادارہ کو بے فیض بنا کر چھوڑے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ تیسری بار چیئرمین بنائے گئے شخص نے مسلمانوں کو اس عہدہ سے ہونے والے فوائد سے محروم رکھا۔ اقلیتوں کے مفاد کے تئیں اقلیتی کمیشن کا کردار صفر ہے۔ حالانکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ موصوف جس بڑے اور مؤثر منصب پر فائز ہیں اگر ان میں سچی لگن اور مخلصانہ کوشش ہوتی تو اقلیت کو ڈھیر سارے فائدے ہوتے، مگر افسوس کہ اقلیتی طبقات آج بھی بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں بغیر وجہ نوٹس اور بغیر کسی ثبوت و دلیل کے محض شک کی بنیاد پر صوبہ سے اٹھا کر پولیس لے جارہی ہے اور ہماری صوبائی حکومت بالخصوص اقلیت کمیشن کے سربراہ عام عوام کی طرح خاموش تماشائی بن کر نوجوانوں کو گرفتار ہوتے اور ان کے مستقبل کو تباہ و برباد ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ دستور ہند کے مطابق صوبائی حکومت کی باہمی اجازت کے بغیر یہ کارروائی انجام نہیں دی جاسکتی۔ نوجوانوں کی گرفتاری بالخصوص قتیل صدیقی کا جیل میں قتل بہار کی تاریخ کا وہ منحوس باب ہے، جو ہمیشہ مسلمانوں کو تڑپاتا رہے گا۔ آج بھی قتیل کی روح انصاف کے لیے تڑپ رہی ہے، ان کی بیوہ اور معصوم بچوں کے آنسو ضرور رنگ لائیں گے۔ لیکن اقلیتی کمیشن نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ حقیقت یہ ہے عربی و فارسی یونیورسٹی ہو یا مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، اردو اکیڈمی ہو یا اقلیتی مالیاتی کارپوریشن، یہ سب Cosmetic Exercises ہیں، جو مسلمانوں کو بہلانے کے لیے کیے گئے ہیں۔
مسلمانوں میں سیاسی نمائندگی کا بحران
ریاست میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ نہ تو کوئی سیاسی تنظیم ان کے قبضہ میں ہے، نہ حلقہ انتخاب اور نہ کسی ایوان میں پوری نمائندگی ہے۔ مسلمانوں کی کثیر آبادی والے حلقوں کو جان بوجھ کر محفوظ قرار دے دیا جاتا ہے۔ آزادی سے قبل سیاست میں مسلمانوں کی اپنی ایک قیادت ہوتی تھی۔ آزادی کے بعد بھی یہ روایت کچھ زمانے تک جاری رہی۔ لیکن ابھی جو سیاسی منظرنامہ ہے اس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اب مسلم قیادت برائے نام بھی نہیں رہ گئی ہے۔ جو بھی مسلم قیادت ہے وہ بے حس ہے اور اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پارہی ہے۔ مسلمان جنہیں اپنا نمائندہ سمجھ کر ایوان میں بھیجتے ہیں، وہ صرف اپنی ذات اور اپنی جماعت کے نمائندہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں مسلم قیادت کے قیام اور عروج کو پسند نہیں کرتیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کا موجودہ منظرنامہ ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ ہم اپنے اندر بیداری پیدا کریں، اگر حکومتیں اور سیاسی جماعتیں ہمیں بے وقوف بنانے میں کامیاب رہی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر اب تک بیداری نہیں آئی ہے۔ اگر ہم بیدار ہو گئے تو حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اپنے غصب شدہ حقوق کے لیے منظم اور مسلسل جدوجہد ضروری ہے۔ اب یہ ہمارے اوپر فرض ہو گیا ہے کہ اپنے حالات کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ جو کام حکومت کے کرنے کے ہیں ان کے لیے حکومت پر مضبوط دباؤ ڈالیں اور جو کام خود ہمارے کرنے کے ہیں اور جن سے آج تک ہم نے مجرمانہ غفلت برتی ہے، انہیں کرنے کے لیے کمرکس کر تیار ہو جائیں۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۳ جنوری ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply