
اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) بالآخر بول پڑی۔ بی این پی کے قائم مقام سیکرٹری جنرل نے بنگلہ دیش کے موجودہ سیاسی بحران میں حکمراں جماعت عوامی لیگ کے لیے بھارت کی بھرپور حمایت کی نشاندہی کی ہے۔ بی این پی کے ایک اور رہنما نے لگی لپٹی رکھے بغیر صاف اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جامع انتخابات کرانے کے بجائے ان پر سمجھوتا کرنے کے معاملے میں عوامی لیگ کو بھارت کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے انتخابی شیڈول کے اعلان سے اب مزید مذاکرات کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ اگر غیر معمولی صورت حال میں کوئی غیر روایتی قسم کا اقدام کیا جائے تو اور بات ہے۔ ایسے میں بنگلہ دیشی بحران کے حوالے سے بھارت کے کردار پر قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔
قوم پورے خلوص سے دعا مانگ رہی ہے کہ کسی غیر معمولی اقدام کی راہ ہموار ہو اور بحران کے حل کی کوئی تو سبیل بنے۔ معاملات کو کسی واضح نتیجے سے ہمکنار کیے بغیر انتخابات کے انعقاد میں جو خطرات چھپے ہوئے ہیں، وہ بی این پی کی طرف سے ہڑتال اور دھرنوں کی کال دیے جانے سے اور بڑھ گئے۔ اس سے قبل عوام نے اپنی خواہشوں اور امیدوں کو سمجھوتے کی چوکھٹ پر قربان ہوتے دیکھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پہلی شخصیت تھے جنہوں نے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور اپوزیشن لیڈر بیگم خالدہ ضیاء پر زور دیا کہ وہ بات چیت کے ذریعے کسی سمجھوتے پر پہنچیں اور یوں سمجھوتے کے حوالے سے قوم کی آنکھوں میں امید کی کرن پھوٹی۔ قوم نے ایک بار پھر مثبت خطوط پر سوچنا شروع کیا جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دونوں رہنماؤں کو خط لکھ کر سمجھوتے پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور امریکی وزیر خارجہ کی کوششوں میں چین اور بنگلہ دیش کے ایک اور دوست ملک نے ساتھ دیا۔
عوامی لیگ کی حکومت کی جانب سے دوست حلقوں کی استدعا پر دھیان نہ دینے کا منظر قوم نے خاصی مایوسی اور بے بسی سے دیکھا۔ لوگ یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ آخر حکومت یہ رویہ کیوں اختیار کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ امریکا، چین اور چند دوسرے ممالک نے بھی چاہا کہ شیخ حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیاء کے درمیان سمجھوتہ ہوجائے تاکہ ملک کسی بڑی خرابی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو۔ دوست ممالک میں صرف بھارت نے مفاہمت اور مصالحت کی کوششوں کا ساتھ نہیں دیا۔ بنگلہ دیش میں متعین امریکی سفیر نے جب نئی دہلی جاکر بھارتی قیادت کو منانے کی کوشش کی، تب بھی یہی پیغام ملا کہ بھارتی قیادت بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی سرپرستی میں ایسے انتخابات چاہتی ہے جن میں بی این پی کو شریک ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔
بعد میں جب حالات نے کچھ پلٹا کھایا تو بنگلہ دیش کے ایک اور دوست ملک کے ساتھ بھارت کو بھی تشویش لاحق ہوئی۔ ڈھاکا میں بھارت کے ہائی کمشنر نے میڈیا کے سامنے آکر وضاحت کی کہ وہ ایک دوست ملک کے سفیر کی معاونت سے بنگلہ کا سیاسی بحران حل کرنے کی کوششوں میں شریک ہیں۔ بھارتی ہائی کمشنر کی میڈیا سے بات چیت نے بنگلہ دیش میں بہتوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔ سب جانتے تھے کہ عوامی لیگ کی حکومت بھارتی قیادت کے بہت قریب ہے اور بھارت ہی وہ ملک ہے جو عوامی لیگ کو موجودہ سیاسی بحران کے حل کی طرف جانے کی تحریک دے سکتا ہے۔ لوگوں کی امیدیں اُس وقت مزید توانا ہوگئیں جب انہوں نے سنا کہ امریکی صدر براک اوباما نے بھی بھارتی وزیراعظم سے ملاقات میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کے بحران پر تبادلۂ خیال کیا اور اس حوالے سے مل کر کام کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
جب وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا، تب قوم کو یہ امید ہوگئی کہ بہت جلد سیاسی بحران کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ اس رابطے سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا مگر اس کے باوجود لوگ مایوس نہیں ہوئے اور ان کا اندازہ تھا کہ امریکی معاون وزیر خارجہ نشا ڈیسائی بسوال ڈھاکا کا دورہ کریں گی تو بھارت اور امریکا مل کر بنگلہ دیش کا بحران حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، مگر یہ بھی نہ ہوسکا۔ نِشا ڈیسائی کے دورے کے دوران ہی بنگلہ دیشی حکومت نے مفاہمت اور مصالحت کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ نِشا نے شیخ حسینہ واجد سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ انتخابی عمل سے بی این پی کو باہر نہ رکھا جائے۔ مگر شیخ حسینہ واجد نے اس ملاقات کے فوراً بعد صدر سے ملاقات کرکے ان پر زور دیا کہ وہ آئین کی پندرہویں ترمیم کے تحت انتخابات کا اعلان کریں یعنی یہ کہ انتخابات بی این پی کے بغیر ہوں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شیخ حسینہ واجد نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی طرف سے بھیجے گئے خط میں کی جانے والی استدعا کو بھی نظر انداز کردیا۔
صدر پر پندرہویں ترمیم کے تحت انتخابات کے اعلان کے لیے دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ شیخ حسینہ واجد نے قوم کے سامنے صفائی دی کہ انہوں نے بیگم خالدہ ضیاء کو ٹیلی فون کال کے ذریعے مصالحت کا پیغام دیا تھا اور انہیں کل جماعتی قومی حکومت میں شمولیت کی دعوت بھی دی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے اپوزیشن سے مذاکرات کے ذریعے تمام معاملات طے کرنے کی پوری کوشش کی۔ کچھ لوگوں نے بی این پی پر تنقید کی کہ اس نے مذاکرات کا موقع ضائع کردیا مگر بنگلہ دیش میں عمومی تاثر یہ تھا کہ شیخ حسینہ واجد نے مصالحت اور مفاہمت کے لیے نیم دِلانہ کوشش کی تھی۔ بہرکیف، کل جماعتی حکومت کے قیام اور اس کی نوعیت کے بارے میں حکمراں عوامی لیگ کو انتہائی پُرعزم دیکھ کر عوام کو یقین ہوگیا کہ بی این پی کو انتخابی عمل میں شامل کیے بغیر انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ سابق صدر حسین محمد ارشاد اور ان کی پارٹی نے جس طریقے سے کل جماعتی حکومت میں شمولیت اختیار کی، اس سے اس حکومت کی رہی سہی توقیر بھی مٹی میں مل گئی۔
کل جماعی قومی حکومت کے قیام کے فوراً بعد انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کے رویے نے حکومت کے حوالے سے اپوزیشن کے شکوک کو مزید توانا کردیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے میڈیا کے سامنے آکر کہا کہ انتخابی شیڈول کا اعلان حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے ختم ہونے اور کسی سمجھوتے کے طے پانے تک موخر رکھا جائے گا۔ اگلے ہی دن انہوں نے پریس کانفرنس طلب کی اور انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا۔ انہوں نے یہ بتانے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ انہوں نے گزشتہ روز حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جن مذاکرات کا ذکر کیا تھا، ان کا کیا بنا۔ ان معاملات نے لوگوں کو مایوس، بدحواس اور خوفزدہ کردیا۔ لوگ یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ حکمراں جماعت کو وہ طاقت کہاں سے مل رہی ہے جس کے بل بوتے پر وہ اہم دوست ممالک اور رائے عامہ کے خلاف جارہی ہے۔ جب بی این پی کے رہنماؤں نے یہ کہا کہ عوامی لیگ کو بھارت سے مدد مل رہی ہے، تو دراصل انہوں نے وہی بات کہی تھی جو عوام کی اکثریت کے ذہنوں میں گردش کر رہی تھی۔
یہ نتیجہ اخذ کرنا بالکل درست تھا کہ بھارت کی حمایت ملنے پر عوامی لیگ نے سیاسی بحران ختم کرنے سے متعلق کوششوں اور اپیلوں کو نظر انداز کیا کیونکہ بنگلہ دیش کے معاملے میں بھارت کے مفادات دیگر دوست ممالک کے مفادات سے بہت مختلف ہیں۔ بھارت کی سلامتی کے لیے لازم ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارت کی ہم نوا حکومت قائم ہو۔ بھارت کی سات ریاستوں کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے۔ ان ریاستوں میں سلامتی یقینی بنائے رکھنے کا اس بات سے گہرا تعلق ہے کہ بنگلہ دیش میں معاملات درست رہیں۔ سلامتی کے معاملے میں بھارتی اقدامات بھی غیر معمولی نوعیت کے ہیں، مگر پھر بھی اس کے لیے ضروری ہے کہ بنگلہ دیش راہداری دے۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں تک باہر سے مال کی ترسیل اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب بنگلہ دیش راہداری دے۔ مگر اس امر کو یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ بھارت عوامی لیگ کو ایک اور مدت کے لیے اقتدار میں رکھے۔
ایسے میں بھارت کی یہ خواہش ناقابل فہم نہیں کہ عوامی لیگ ایک بار پھر اقتدار میں آئے یعنی اس کا اقتدار برقرار رہے۔ مگر خیر یہ ایسا سادہ و آسان بھی نہیں۔ بھارت کی راہ میں چند ایک مشکلات بھی کھڑی ہیں۔ بنگلہ دیش کے عوام کو یقین ہے کہ صرف بھارت ہی عوامی لیگ کو اس بات پر مجبور کرسکتا ہے کہ وہ سیاسی بحران ختم کرے اور ایسے انتخابات کرائے جن میں بی این پی بھی شریک ہو۔ اگر ایسا نہ ہوا اور بنگلہ دیش میں بی این پی کے بغیر انتخابات ہوئے تو بڑی خرابی پیدا ہوگی اور بھارت مخالف جذبات مزید بھڑکیں گے۔ بھارت نے بنگلہ دیش میں چند ترقیاتی منصوبوں کے معاہدے کیے تھے جن پر عمل نہیں کیا گیا۔ سرحدی جھڑپوں میں بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس نے بنگلہ دیش کے بہت سے باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ اس پر بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ بی این پی کے بغیر انتخابات کرائے جانے کی صورت میں لوگ بھارت کو مزید نفرت کی نظر سے دیکھیں گے۔
بھارت نے اب تک بنگلہ دیش کے معاملے میں جو کچھ بھی پایا ہے، اُسے عوامی لیگ کی بے جا حمایت کی صورت میں کھو بیٹھے گا۔ اگر عوامی لیگ کو جتوانے کے چکر میں بی این پی کو انتخابی عمل سے باہر رکھا گیا تو بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر خرابیاں پیدا ہوں گی اور یہ صورت حال بھارت کے خلاف جائے گی۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ ملے گی اور بھارت کی سلامتی کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔ ایسی کوئی بھی صورت حال بھارت کے لیے ڈراؤنے خواب جیسی ہوگی۔ بھارت کے پاس اب صرف ایک آپشن رہ گیا ہے، یہ کہ بنگلہ دیش کے لوگوں کو اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے، انتخابات میں مداخلت سے گریز کیا جائے۔ بنگلہ دیش کے عوام بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ بھارتی قیادت بنگلہ دیش کی کسی بھی سیاسی جماعت کو تقویت بہم پہنچانے کی کوشش نہیں کرے گی۔
(مضمون نگار مصر اور جاپان میں بنگلہ دیش کے سفیر رہے ہیں۔)
(“India and the Present Crisis”… “Independentbd.com”. Nov. 30, 2013)
Leave a Reply