
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں بنگلا دیش کا دورہ کیا۔ اطلاعات کے مطابق بنگلا دیش میں ان کی خاصی پذیرائی کی گئی۔ اگرچہ توقع کے برعکس دریائے ٹیسٹا کے پانی کی تقسیم پر سمجھوتے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، تاہم نریندر مودی کے اس دورہ میں دونوں ملکوں میں مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے جن معاہدات اور ایم او یوز پر دستخط ہوئے، ان سے پتا چلتا ہے کہ بھارت اور بنگلا دیش میں تجارت، آمدورفت، کاروباری رشتوں اور دفاعی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ سب سے زیادہ نمایاں دونوں ملکوں کے درمیان ۴۰۰۰ کلومیٹر سے زیادہ لمبی سرحد کی مستقل حد بندی کے معاہدے کی دستاویز کا تبادلہ ہے۔ یہ معاہدہ ۱۹۷۴ء میں طے ہوا تھا‘ لیکن بھارت میں اپوزیشن اور خصوصاً بی جے پی کی مخالفت کی وجہ سے کانگریس اپنے طویل دورِ حکومت میں اس کی بھارتی پارلیمان سے توثیق نہ کروا سکی تھی۔ اس معاہدے کی توثیق اور بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان اس کی دستاویز کے تبادلے کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بنگلا دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے اسے دیوارِ برلن کے انہدام سے تشبیہ دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ بنگلا دیش کی سرحد طویل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت پورس (Porous) ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ غلطی سے سرحد عبور کر کے بھارت سے بنگلا دیش اور بنگلا دیش سے بھارتی علاقوں میں آ جاتے ہیں، جہاں دونوں ملکوں کی بارڈر سکیورٹی فورس ان کو گرفتار کر لیتی ہے۔ چونکہ سرحدی علاقوں میں دریائوں اور ندی نالوں کا جال بچھا ہوا ہے، اس لیے سرحد کی نشاندہی تقریباً ناممکن ہے۔ نتیجتاً متعدد سرحدی علاقوں کی ملکیت پر دونوں ملکوں میں جھگڑا چلا آرہا ہے۔ اس قسم کے متنازع سرحدی علاقوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب بتائی جاتی ہے۔ ۱۹۷۴ء کے معاہدے کے تحت ان میں سے سو سے زائد پر بنگلا دیش کی ملکیت تسلیم کی جائے گی اور باقی پچاس کے قریب بھارت کے قبضے میں چلے جائیں گے۔ اس معاہدے پر عمل درآمد سے نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان ایک دیرینہ سرحدی تنازع اختتام پذیر ہو جائے گا، بلکہ اس تنازع سے متاثرہ ۵۰،۰۰۰ لوگوں کی قانونی اور آئینی حیثیت بھی مستقل طور پر متعین ہو جائے گی، جو دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی اور جھڑپوں کے باعث کبھی بنگلا دیش کے علاقوں میں اور کبھی بھارتی سرزمین پر پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
سرحدی تنازع کے حل کے علاوہ وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ بنگلا دیش میں جن ۲۲ معاہدات پر دستخط ہوئے، اُن میں سے جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور پاکستان کے طویل المیعاد قومی مفادات کے حوالے سے تین معاہدات بہت اہم ہیں۔ ان میں سے ایک معاہدے کے تحت بنگلا دیش نے بھارتی بحری جہازوں کو چٹاگانگ اور موننگلہ کی بندرگاہوں میں لنگر انداز ہو کر اپنا سامان اُتارنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس سے پہلے بھارتی جہازوں کو خلیج بنگال عبور کر کے سنگا پور جانا پڑتا تھا۔ بھارتی بحری جہاز سنگا پور میں اپنا مال اُتارتے تھے اور پھر یہ سامان بنگلا دیش میں داخل ہوتا تھا۔ اس کی وجہ سے بھارت سے بنگلا دیش کے لیے مال ۳۰ سے ۴۰ دن کی تاخیر سے پہنچتا تھا، اب اس سامان کو بنگلا دیش پہنچانے میں صرف ایک ہفتہ لگے گا۔
لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چٹاگانگ کی بندرگاہ کو چین نے تعمیر کیا تھا اور بھارتی جیوسٹرٹیجک حلقوں کے دعوئوں کے مطابق چین بحرہند پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ’’موتیوں کے ہار‘‘ String of Pearls کے نام سے جس حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے، چٹاگانگ کی بندرگاہ کو اُس میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس طرح چٹا گانگ بندرگاہ تک رسائی حاصل کرکے بھارت نے چین کی اُس حکمتِ عملی میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
دوسرے معاہدے کا تعلق بھارت کی جانب سے بنگلادیش میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وزیراعظم مودی کی جانب سے بنگلا دیش کے لیے دو ارب ڈالر کے قرضے کا اعلان ہے۔ اس قرضے کا مقصد بھارت کی مدد سے بنگلا دیش میں سڑکوں اور ریلوے نظام کو بہتر بنانا اور بنگلا دیش کو بھارت سے مزید بجلی درآمد کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس وقت بنگلا دیش، جو پاکستان کی طرح توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے، بھارت سے ۵۰۰ میگاواٹ بجلی درآمد کر رہا ہے۔ نریندر مودی نے ڈھاکا میں اعلان کیا کہ آئندہ دو برس میں بھارت سے بنگلا دیش کو جانے والی بجلی کی مقدار میں ۱۱۰۰؍ میگاواٹ تک اضافہ کر دیا جائے گا۔
تیسرے معاہدے کے تحت بنگلا دیش اور بھارت کے درمیان دو مزید بس سروسز کا اجرا کر دیا گیا ہے۔ یہ بس سروس ڈھاکا سے اگرتلہ اور ڈھاکا سے شیلانگ تک ہو گی۔ بنگلا دیش کے لیے یہ دونوں بس سروسز اس لیے مفید ہیں کہ ان کے ذریعے نہ صرف بنگلا دیش کو بھارت کے شمال مشرقی ریاستوں تک رسائی حاصل ہو جائے گی، بلکہ بنگلا دیش اپنے روابط کا دائرہ بھوٹان اور نیپال تک بڑھا سکے گا۔ اس طرح بنگلا دیش‘ بھوٹان اور نیپال کو ساتھ ملا کر بھارت جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ’’سارک‘‘ کے اندر ایک سب ریجنل گروپ بنانے کی جو کوشش کر رہا ہے، اُسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔
دلچسپ بلکہ کسی حد تک حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان یہ قریبی روابط اور تعاون اور خیرسگالی پر مبنی تعلقات ایک ایسے وقت میں قائم کیے جا رہے ہیں جب بھارت میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ ماضی میں بھارت اور بنگلا دیش میں دوستی اور تعاون کی سب سے زیادہ مخالفت بی جے پی کی طرف سے کی جاتی رہی ہے، بلکہ ایک موقع پر بی جے پی نے بھارتی سالمیت اور قومی یک جہتی کے لیے بنگلا دیش کو پاکستان سے بھی بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ اس کی وجہ بنگلا دیش سے بنگالی مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا ہر سال بھارت میں محنت مزدوری، تعلیم، سکونت بلکہ بھارت سے گزر کر پاکستان میں آمد کا سلسلہ تھا۔ اب بھی مغربی بنگال کے سرحدی علاقوں میں کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لیے ہزاروں بنگلادیشی روزانہ آتے ہیں۔ بیشتر کام کر کے واپس چلے جاتے ہیں، لیکن ایک اچھی خاصی تعداد وہیں ٹھہر جاتی ہے یا کلکتہ کا رُخ کرتی ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ بھارت کے دیگر بڑے شہروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ چونکہ یہ سب کچھ اُس وقت ہو رہا تھا جب مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) کی حکومت تھی، اس لیے بی جے پی نے ہر الیکشن میں بنگلا دیش سے مسلمان بنگالیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی مغربی بنگال اور بھارت کی دیگر ریاستوں میں آمد اور قیام کو ایک بہت بڑا ایشو بنا کر پیش کیا اور انہیں ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا۔
لیکن اب ایک سوچی سمجھی سیاسی اور علاقائی حکمتِ عملی کے تحت بی جے پی نے یْوٹرن لیا ہے۔ اس کا مقصد بھارت کے اردگرد واقع چھوٹے ممالک یعنی نیپال، بھوٹان، بنگلا دیش، سری لنکا، مالدیپ کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر تعلقات کو فروغ دے کر بھارت کے قریب لانا ہے، تاکہ یہ ممالک چین کے زیر اثر نہ چلے جائیں۔ دوسرا مقصد خطے میں پاکستان کو الگ تھلگ کرنا ہے کیونکہ پاکستان نے نہ تو بھارت کے ساتھ کھلی اور عام تجارت قائم کر رکھی ہے اور نہ جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت نریندر مودی نے گزشتہ سال مئی میں وزیراعظم کے عہدے کی حلف برداری کی تقریب میں پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف کو شرکت کے لیے بلایا تھا، لیکن چونکہ خطے میں امن، تعاون اور خیر سگالی بھارت اپنی شرائط پر حاصل کرنا چاہتا ہے، اس لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کی کوشش آگے نہ بڑھ سکی۔
جہاں تک جنوبی ایشیا کے دیگر چھوٹے ممالک مثلاً بنگلا دیش کا تعلق ہے، اُن کی سب سے بڑی کمزوری اُن کا جغرافیائی محلِ وقوع ہے۔ اگر ہم بنگلا دیش کے نقشے پر نظر ڈالیں تو وہ ایک طرف خلیج بنگال اور تین طرف سے بھارتی علاقوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس لیے بھارت کے ساتھ پرامن اور نارمل تعلقات اُس کی مجبوری ہے۔ بنگلا دیش کے ماہرین معاشیات کی رائے ہے کہ بھارت کے ساتھ قریبی تجارتی اور مواصلاتی تعلقات کے بغیر بنگلا دیش معاشی ترقی کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لیے بھارت میں بی جے پی کی حکومت ہو یا کسی اور پارٹی کی، بنگلا دیش کو بھارت خصوصاً مغربی بنگال کے ساتھ تجارت، آمدورفت اور تعلیم کے شعبوں میں تعلقات قائم رکھنا پڑیں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۱۱؍جون ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply