
کسی کو بیک وقت پاکستان اور بھارت کا ایجنٹ کہنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سوں کو اُن کے خیالات یا موقف کی بنیاد پر بیک وقت پاکستان اور بھارت کا ایجنٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’’ولسن سینٹر‘‘ میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کگلمین اس حوالے سے منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ وہ ٹرپل ایجنٹ کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ اُنہیں افغانستان کا بھی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے ٹاک شو ’’دی ریویو‘‘ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مائیکل کگلمین نے کہا ’’میں جو کچھ کہتا ہوں اگر واقعی اُس پر قائم ہوں تو پھر مجھے یہ بھرپور تاثر دینا چاہیے کہ میں کوئی اچھا کام کر رہا ہوں۔ میں پاکستان، بھارت اور افغانستان کا مطالعہ کرتا ہوں۔ تینوں ملکوں کے حالات کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد مجھے جو رائے دینی ہے اُس میں اگر کسی ملک پر تھوڑی بہت تنقید بھی جائز ہے تو مجھے اُس سے گریز نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ اس ٹاک شو میں مائیکل کگلمین نے امریکا کی پالیسیوں کے علاوہ پاکستان، بھارت اور افغانستان کے حالات اور ان کے باہمی تفاعل پر تفصیل سے بات کی۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ٹرپل ایجنٹ ہونے کے الزام کو خوش دِلی سے قبول کرتے ہیں تو مائیکل کگلمین نے کہا ’’اِس کے سوا کوئی معقول راستہ نہیں۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو میری اپنی حوصلہ شکنی ہوگی‘‘۔
جب اُن سے گزشتہ سال دسمبر میں شائع ہونے والے اُن کے ایک مضمون کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا واقعی ۲۰۲۰ء میں پاک بھارت جنگ ہوسکتی ہے تو اُنہوں نے کہا ’’میں نے یہ لکھا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا امکان ہے مگر یہ نہیں لکھا تھا کہ جنگ ہوکر ہی رہے گی‘‘۔
اپنے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے مائیکل کگلمین نے کہا ’’پاک بھارت تعلقات میں اِس وقت جو کشیدگی ہے وہ تو پلوامہ میں فوجیوں کی ہلاکت اور اس کے بعد بالا کوٹ کے واقعے کے وقت بھی نہیں تھی۔ بھارتی آئین سے آرٹیکل ۳۷۰ کے ختم کیے جانے سے معاملات میں جو تبدیلی رونما ہوئی ہے، وہ بہت بڑی ہے۔ اس تبدیلی کو ’’گیم چینجر‘‘ کہنا زیادہ درست ہوگا۔ اس وقت معاملات اِتنے بگڑے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی بڑا سانحہ رونما ہو تو بہت بڑے پیمانے پر تصادم کو ٹالنا ممکن نہ رہے گا۔ پلوامہ اور بالا کوٹ کے معاملے میں تو امریکا اور چند دوسرے بڑے انٹر نیشنل پلیئرز نے ثالثی اور مصالحت کی پیشکش کی تھی تاکہ خطے میں کشیدگی کا گراف نیچے لایا جاسکے۔ اس بار ایسا کرنا خاصا دشوار ہوگا کیونکہ اِس بار بھارت کچھ کر گزرنے کے، کسی بڑی مہم جُوئی کے موڈ میں دکھائی دے رہا ہے‘‘۔
’’بھارت میں انتہائی اعلیٰ سطح کے افسران اور حکومتی شخصیات کی طرف سے خاصے بڑھک آمیز بیانات سامنے آئے ہیں اور اب تو آزاد کشمیر پر تصرف قائم کرنے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں۔ ایسی باتیں پہلے بھی سنائی دیتی رہی ہیں مگر اب کے شدت کچھ زیادہ، بلکہ خطرناک ہے‘‘۔
گزشتہ ماہ بھارت کے آرمی چیف جنرل منوج مکند نروانے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت حکم دے تو آزاد کشمیر پر بھی قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو صرف دس دن میں دھول چاٹنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اس بیان کا پاکستانی قیادت نے خوب تمسخر اڑایا۔ بھارتی قیادت بڑھکیں مارنے پر تُلی ہوئی ہے اور دوسری طرف بھارتی فوج کنٹرول لائن پر صورتِ حال کو زیادہ کشیدہ اور خطرناک بنانے پر کمر بستہ ہے۔ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
جب مائیکل کگلمین سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی بھارت جنگ چھیڑ دے گا تو انہوں نے کہا ’’یہ بات تو نہیں کہی جاسکتی کہ بھارت جنگ چھیڑ ہی دے گا تاہم صورتِ حال کی نوعیت کہہ رہی ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بھارتی قیادت نے اب سے پہلے اس نوعیت کا لہجہ اختیار نہیں کیا۔ کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی، شہریت سے متعلق متنازع قانون کی منظوری اور رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کا معاملہ … یہ تمام معاملات بتا رہے ہیں کہ اب صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ ایسے میں اگر بھارتی قیادت کوئی بڑی مہم جُوئی کر گزرے تو حیرت نہ ہوگی‘‘۔
مائیکل کگلمین کی باتوں سے پاکستان کے اس خدشے کی تصدیق ہوتی ہے کہ بھارت جنگ کے لیے بہانہ تلاش کرنے کے نام پر کوئی بھی ایسی ویسی واردات کرسکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بارہا کہا ہے کہ انتہا پسند و رجعت پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے تربیت یافتہ نریندر مودی علاقائی ہی نہیں، عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو فرانس سے جدید ترین رافیل طیاروں اور روس سے ایس۔۴۰۰ میزائل سسٹم کے حصول تک انتظار کرنا پڑے گا۔ فی الوقت بھارت پاکستانی فضائیہ سے مسابقت کی پوزیشن میں نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں مائیکل کگلمین نے کہا ’’عمران خان کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کو بنیادی طور پر معیشت کی سمت درست کرنی تھی اور ملک کو خوشحالی کی راہ پر ڈالنا تھا، مگر ایسا لگتا ہے کہ اُن کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں اور وہ تیزی سے پیچیدہ ہوتے ہوئے معاشی مسائل حل کرنے کی بھرپور اور مطلوبہ قابلیت نہیں رکھتے‘‘۔
’’معیشت کے معاملے میں حکومت ناکامی سے دوچار ہوئی ہے تاہم یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ عمران خان نے پلوامہ اور بالا کوٹ کے بحران سے نمٹنے کے معاملے میں اچھی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ عالمی برادری نے انہیں امن کی خواہش کے حوالے سے خوب سراہا‘‘۔
پاک امریکا تعلقات اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ڈیووس میں اقتصادی فورم کے اجلاس کے موقع پر عمران خان کی ملاقات کے حوالے سے مائیکل کگلمین نے کہا ’’اس وقت پاک امریکا تعلقات بہت اچھی حالت میں ہیں، مگر یہ کہنا غلط ہوگا کہ جتنے اچھے اس وقت ہیں اُتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اس وقت پاک امریکا تعلقات جس مقام پر ہیں اُتنے اچھے پہلے کبھی نہیں تھے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ امریکا نے پاکستان کے لیے سلامتی سے متعلق تعاون معطل کردیا تھا۔ یہ اب بھی معطل ہے مگر ہاں، پاکستان نے افغانستان میں امن کی بحالی سے متعلق عمل کو آگے بڑھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ہاں، یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ جب ٹرمپ نے صدر کا منصب سنبھالا تھا تب دوطرفہ تعلقات جس نہج پر تھے اُس سے کہیں بہتر آج ہیں‘‘۔
افغانستان میں حقیقی اور دیرپا امن کے قیام کے لیے امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ جب افغانستان میں امن مکمل طور پر بحال ہو جائے گا اور وہاں امریکی فوجی بھی تعینات نہیں رہیں گے تب پاک امریکا تعلقات کا کیا بنے گا؟ کیا تب بھی امریکی پالیسی ساز پاکستان کو غیر معمولی سطح پر اہم گردانتے رہیں گے؟ اس حوالے سے مائیکل کگلمین کہتے ہیں ’’افغانستان میں حقیقی اور دیرپا امن کے قیام کے بعد پاکستان کا کیا ہوگا، یہ بات بہت اہم ہے۔ اس سے بڑھ کر ایک سوال یہ ہے کہ کیا امریکی پالیسی ساز پاکستان کو افغانستان سے ہٹ کر بھی اہم گردانیں گے اور اُسے اہمیت دی جاتی رہے گی‘‘۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“India could provoke war with Pakistan in 2020: US foreign affairs expert”.(“The Express Tribune”. February 9, 2020)
Leave a Reply