
آج کل مغربی میڈیا میں بھارت میں پھیلی ہوئی کورونا کی وبا اور اُس کے شدید اثرات دونوں ہی کا بہت زیادہ ذکر ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کورونا کے حوالے سے بھارت کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔ ایک طرف تو نئے واقعات بڑی تعداد میں سامنے آرہے ہیں اور دوسری طرف ہلاکتوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کے بہت سے علاقے شدید بدحواسی کی لپیٹ میں ہیں۔ بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث اسپتالوں میں گنجائش ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ آکسیجن کے بحران نے لوگوں کو حواس باختہ کردیا ہے۔
بھارت کے بہت سے علاقے کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے شدید مشکلات محسوس کر رہے ہیں مگر ہمیں کورونا وائرس کے اثرات اور محرکات میں فرق کو سمجھنا ہوگا۔ بہت سے ٹی وی چینل اور ویب سائٹس نے ریٹنگ بڑھانے کے لیے خبروں کو سنسنی خیز انداز سے ٹیلی کاسٹ اور شائع کرنے میں زیادہ دلچسپی لی ہے۔ آکسیجن کا بحران موجود ہے مگر اُسے بہت خطرناک انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ اپریل کے آخر میں ’’نیو یارک پوسٹ‘‘ نے بھارت میں آکسیجن کے بحران سے متعلق ایک خبر شائع کی تو سڑک پر بیٹھی ہوئی ایک خاتون کی تصویر بھی شائع کی، جن کے پاس ہی آکسیجن کا خالی سلنڈر پڑا ہوا تھا۔ یہ تصویر حالیہ بحران کی نہیں بلکہ گزشتہ برس آندھرا پردیش میں گیس کے اخراج کے موقع کی ہے۔ صحتِ عامہ سے متعلق امور کے ماہر اور سیاسی تجزیہ کار یوہان تینگڑا نے دنیا بھر میں کورونا وائرس کے حوالے سے ریسپانس پر تحقیق کی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ بھارت میں کورونا ٹیسٹنگ طے شدہ معیارات کے مطابق نہیں ہوئی۔ لوگ بھی بہت تیزی سے بدحواس ہوگئے تھے۔ لاکھوں افراد نے علامات ظاہر نہ ہونے کے باوجود بھی اپنا کورونا ٹیسٹ کرایا جس کے نتیجے میں مثبت نتائج والے افراد کی تعداد راتوں رات لاکھوں میں جا پہنچی۔ یوہان تینگڑا نے حال ہی میں ایک رپورٹ تحریر کی جو غیر معیاری ٹیسٹنگ کے نتیجے میں واقعات اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے سے متعلق ہے۔
یوہان تینگڑا کہتے ہیں ’’ہمیں کبھی معلوم نہ ہوسکے گا کہ کورونا کی وبا بھارت میں در حقیقت کس حد تک پھیلی ہے۔ یہ تعداد جاننے کے لیے ہمیں ایسے لوگوں کا ڈیٹا درکار ہوگا جو کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی واضح علامات کے حامل ہوں۔ بھارت میں عام طور پر ایسے لوگ کورونا ٹیسٹنگ کروا رہے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے کورونا کی وبا کا شکار نہیں ہوئے اور اُن میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوئیں۔ ممبئی میں کورونا کے ۸۵؍ فیصد اور بنگلور میں ۹۵ فیصد واقعات میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوئی تھیں۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ علامات کے بغیر پھیلنے والے واقعات میں خطرہ بہت کم رہ جاتا ہے‘‘۔
بھارت میں کورونا کی وبا نے اُتنی تباہی نہیں مچائی جتنی اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف نے پھیلائی ہے۔ اس میں میڈیکل سسٹم کی خرابی کا بھی اچھا خاصا عمل دخل ہے۔ سی اے ٹی اسکینر کے ذریعے منفی کیسز کو بھی مثبت بناکر پیش کیا گیا۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ کسی کو ذرا سی کھانسی ہو جائے یا چھینکیں آئیں تو ڈاکٹر سوچے سمجھے بغیر کورونا ٹیسٹ تجویز کردیتے ہیں۔ کورونا ٹیسٹ تجویز کیے جانے پر انسان سوچتا ہے کہ ٹیسٹ کرا لینے ہی میں عافیت ہے۔ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملہ بگڑ جائے اور زیادہ خرچہ آئے۔ تشخیص کے مرحلے میں پائی جانے والی خرابیوں نے صورتِ حال کو بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بہت سے لوگوں نے خوف کے مارے علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے رجوع کیا اور ٹیسٹ کرا ڈالے۔ اس کے نتیجے میں شدید افراتفری پیدا ہوئی اور حقیقی مریضوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
معاملات کو بگاڑنے اور ملک میں شدید بدحواسی کی کیفیت پیدا کرنے میں آکسیجن سے متعلق حکومتی پالیسی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ سوچے سمجھے بغیر آکسیجن برآمد کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ آکسیجن اتنے بڑے پیمانے پر برآمد کی گئی کہ جب لوگوں کو بیماری نے آ گھیرا تو ملک میں آکسیجن ناپید تھی۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور انڈیا کاؤنسل آف میڈیکل ریسرچ کے ڈائریکٹرز نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ملک بھر میں بغیر علامات والے کورونا مریضوں کی بھرمار ہے۔ پہلی اور دوسری لہر میں اصلاً کوئی فرق نہیں۔
یوہان تینگڑا کہتے ہیں کہ دوسرے بہت سے امراض کی طرح کورونا کے معاملے میں ابتدائی مرحلے میں مریض کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کورونا میں مبتلا ہوچکا ہے۔ بیشتر واقعات میں ہوتا یہ ہے کہ جو شخص کورونا میں مبتلا ہوتا ہے خود اُسے بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ وہ کورونا میں مبتلا ہوچکا ہے۔ یہ مرحلہ چپ چاپ گزر جاتا ہے۔ علامات ظاہر ہوتی ہیں نہ کچھ خاص کمزوری۔ کچھ لوگوں میں معمولی سی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ جن میں مرض سنگین شکل اختیار کرتا ہے وہ اور بھی کم ہوتے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد اُن سے بھی کم ہوتی ہے۔ کورونا کے معاملے میں بھی ایسا ہوا ہے۔
یوہان تینگڑا کا کہنا ہے کہ تھوڑی سی احتیاط سے معاملات کو درست رکھا جاسکتا تھا مگر بھارت میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں بدحواسی بڑھی۔ ڈاکٹروں نے بھی غیر محفوظ اور غیر موثر دوائیں استعمال کیں۔ نامناسب علاج سے اموات بڑھ گئیں۔ دوسرے بہت سے ملکوں کی طرف بھارت میں بھی موت کے صداقت نامے سے متعلق راہ نما ہدایات ایسی ہیں کہ کسی بھی شخص کو بہت آسانی سے کورونا کا مریض قرار دیا جاسکتا ہے۔ معاملہ ایسا پیچیدہ ہے کہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کون واقعی کورونا وائرس کا شکار ہوکر مرا اور کس کو غلط تشخیص کے باعث یہ لیبل دیا گیا۔
غلط تشخیص کے معاملے کو بہت آسانی سے ایک طرف نہیں ہٹایا جاسکتا۔ جو نیش نے ’’بھارت کے کورونا بحران کا تناظر‘‘ کے زیر عنوان ایک مضمون میں لکھا ہے کہ دہلی اور دیگر بھارتی شہروں میں فضائی آلودگی کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہر سال اِنہی دنوں میں یہ شہر ایسی ہی بحرانی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ مختلف فصلوں کی کٹائی کے وقت بھی لوگوں کو سانس لینے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فصل کی کٹائی کے بعد رہ جانے والے کچرے کو جلانے سے ہر سال بھارتی پنجاب، ہریانہ، دہلی اور دیگر علاقوں میں لوگوں کو سانس کی بیماریوں اور پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں تپِ دق اور سانس سے متعلق بیماریاں (جو بالعموم نمونیا کا سبب بن جاتی ہیں) سب سے زیادہ ہلاکتوں کا باعث بنتی رہی ہیں۔ فضائی آلودگی بڑھنے سے ہر سال سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت میڈیا میں بھارت کے حوالے سے جو کچھ آرہا ہے وہ سب کا سب حقیقت پر مبنی نہیں۔
ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ ویکسینیشن کی مہم کے شروع کیے جانے کے بعد سے یہ اندازہ لگانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے کہ ویکسین کے اثرات کیا رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر اس حوالے سے جو اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں ان کی افادیت پر بھی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ ویکسین لگوانے کے بعد ملک بھر میں لاکھوں افراد بیمار پڑے اور جب انہوں نے کورونا ٹیسٹ کروایا تو نتیجہ مثبت رہا۔ اس کے نتیجے میں بھی اسپتالوں پر دباؤ بڑھ گیا اور صورتِ حال بے قابو ہوگئی۔ اسپتالوں میں ایسا بھی ہوا ہے کہ عام مریضوں کے ساتھ کورونا کے مریضوں کو رکھا گیا جس کے نتیجے میں نئے واقعات کی تعداد بڑھ گئی۔ اسی طور بعض وارڈز میں کورونا کے مریضوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہاں عام مریضوں کو بھی رکھا گیا۔ دو ماہ قبل بھارت میں ویکسین لگوانے کے حوالے سے شدید ہچکچاہٹ پائی جاتی تھی۔ ویکسین کے ممکنہ اثرات کے حوالے سے بہت سی کہانیاں گردش کر رہی تھیں۔ سوشل میڈیا پر بہت کچھ الٹا سیدھا پھیلایا جارہا تھا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے لوگوں کو ویکسین لگوانے پر مجبور کرنے کے لیے ان میں خوف پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ مستقبل سے متعلق کوئی کلیدی فیصلہ کرنے کے حوالے سے بھارت دو راہے پر کھڑا ہے۔
یوہان تینگڑا چند قانون دانوں اور متاثرہ شہریوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف مقدمات دائر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ مقدمات علامات کے بغیر مرض کے پھیلنے کی بات اور صحت مند افراد کی کورونا ٹیسٹنگ کے حوالے سے ہوں گے۔ ان مقدمات کا مقصد یہ ہوگا کہ حکومت کورونا ٹیسٹنگ طے اور تسلیم شدہ معیارات کے مطابق کروائے۔ یہ لوگ کورونا ویکسی نیشن کو بھی چیلنج کرنے والے ہیں کیونکہ بہت سے معاملات میں ویکسین کے شدید نقصانات سامنے آئے ہیں جن میں بہت سی اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔
’’نیشنل ہیرالڈ‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں پروفیسر امیتو بینرجی نے لکھا ہے کہ بھارت میں صورتِ حال کی ایسی شدید خرابی کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کے باعث نہیں بلکہ اسپتال پہنچنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کے باعث ہوئی ہے۔ اس سے صحتِ عامہ کے بنیادی ڈھانچے کی خرابیوں کا بھی پتا چلتا ہے۔ صحتِ عامہ سے متعلق خدمات غیر معیاری ہی نہیں، غیر مساوی بھی ہیں۔ انتہائی غریب طبقے کو صحت کی بنیادی سہولتیں برائے نام ہی مل پاتی ہیں۔ آکسیجن کے بحران کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ سب کچھ منصوبہ سازی نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ آکسیجن بڑے پیمانے پر برآمد کی جاتی رہی اور ملک کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی۔ پروفیسر امیتو بینرجی نے بھی یوہان تینگڑا کی طرح کورونا ویکسین کے حوالے سے ریسپانس اور ویکسی نیشن سے متعلق مسائل اجاگر کیے ہیں۔ سوچے سمجھے بغیر بہت بڑے پیمانے پر ویکسینیشن شروع کرنا بھی ایک بڑا جُوا کھیلنے جیسا ہے۔ بھارت میں تپِ دِق کی روک تھام کی ویکسین بھی ایک زمانے سے لگائی جارہی ہے مگر پھر بھی مطلوب نتائج اب تک حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ اگر پوری تیاری کے بغیر ویکسین کی گئی اور یہ عمل ادھورا رہ گیا تو ملک بھر میں بہت بڑے پیمانے پر پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔
برٹش میڈیکل جرنل میں کے عباسی کے ادارے (کورونا: سیاسی اثرات، بدعوانی اور فطری علوم کی سرکوبی) کی بنیاد پر پروفیسر امیتو بینرجی کہتے ہیں کہ سیاست دان اور حکومتیں فطری علوم کی پیش رفت پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ اہلِ علم، محققین اور تجارتی لابیوں کے مفادات میں واضح تصادم پایا جاتا ہے۔ پروفیسر امیتو بینرجی مزید کہتے ہیں کہ عالمگیر بحرانی کیفیت میں عالمی رہنماؤں، فطری علوم سے متعلق ان کے مشیروں اور کیریئر سائنس دانوں پر غیر معمولی دباؤہے۔ انہیں یہ تاثر دینا ہے کہ صورتِ حال قابو میں ہے۔ یہ تاثر یقینی بنانے کے لیے جبر کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ موجودہ وبائی ماحول میں غیر یقینی معاملات بہت زیادہ ہے۔ بہت سے معاملات میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ کی گئی ہے تاکہ مطلوب نتائج حاصل ہوں۔ اہلِ اقتدار اور ان کے مشیروں کو جب بھی کسی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہوتا ہے تب وہ معاملات کو اپنی مرضی کے رنگ میں رنگنے کے لیے دباؤ ڈالنے والے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کورونا وائرس پایا جاتا ہے اور مسائل بھی پیدا کر رہا ہے مگر یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ لوگ محض کورونا وائرس سے نہیں مر رہے بلکہ اُس کے نتیجے میں پیچیدہ ہونے والی پیچیدگیوں سے بھی مر رہے ہیں اور پہلے سے موجود خراب صورتِ حال بھی اموات کی ذمہ دار ہے۔ اور پھر حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ تشخیص میں واضح غلطیاں ہو رہی ہیں۔ اموات سے متعلق درست اعداد و شمار کا حصول بھی اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔ پروفیسر امتیو بینرجی کہتے ہیں کہ یہ بات انتہائی شرم ناک ہے کہ ہر معاملہ الجھا ہوا ہے۔ عدم شفافیت نمایاں ہے۔ بھارت سرکار میں مشیر کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دینے والے سائنس دانوں اور دیگر ماہرین کا فرض ہے کہ اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے حقائق بیان کریں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت کورونا وائرس سے جو اموات واقع ہو رہی ہیں اُس سے کہیں زیادہ اموات تو روزانہ اسہال سے واقع ہوتی ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی شدید قلت اور صفائی ستھرائی کے نامناسب انتظام سے اسہال کے علاوہ بھی کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، جن کی زَد میں آکر روزانہ بہت بڑی تعداد میں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ تعداد کورونا سے مرنے والوں کی تعداد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“INDIA, COVID and Scientific Integrity …. ” (“globalresearch.ca”. May 4, 2021)
We written arrivals