
ہندوستان آزادی کے بعد مسلسل جمہوری طرز کے انتخابات کے ذریعے مرکز میں حکومت سازی کے عمل کو اپناتا رہا ہے۔ اس کے برخلاف جنوبی ایشیا میں اس کے پڑوسی ملکوں کی سیاسی تاریخ جمہوریت کے مسلسل پابند رہنے کے عمل سے خالی ہے۔ ایسے پڑوسی ملکوں میں پاکستان کے بعد بنگلہ دیش دو ایسے ملک ہیں جو جمہوریت اور آمریت کے درمیان جھولتے رہے ہیں۔ نیپال اور بھوٹان جیسی ہمالیاتی ریاستیں اپنے روایتی انداز میں شاہ پرست رہی ہیں۔ بھوٹان بڑی حد تک اپنے خارجی امور میں ہندوستان کے صلاح اور مشورے پر عمل پیرا ہے۔ نیپال نسبتاً بڑی ریاست ہے اور اپنے محل و وقوع کے اعتبار سے خاصی سیاسی اہمیت کی حامل ہے۔ بیسویں صدی کے آخری دہائیوں میں راجہ کے زیرِ نگیں نیپال میں شاہی کے ساتھ ساتھ جمہوری طرز کی حکومت کو متعارف کرانے اور اُس مقصد کے لیے ایک بے حد پُرجوش عوامی تحریک شروع ہوئی تھی‘ جسے ’’۱۹۹۰ء کی عوامی تحریک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی تحریک کے نتیجے میں پہلی بار شاہ کو سربراہِ مملکت تصور کرتے ہوئے جمہوری طرز کے انتخابات کے ذریعے حکومت سازی کا عمل اپنایا گیا تھا اور اس کے لیے ایک آئین بنایا گیا۔ اُس وقت بھی جمہوریت کی سمت نیپال کا سیاسی سفر شاہی کے دل میں کانٹے کی طرح چبھا تھا مگر نیپالی عوام کے بھاری دبائو اور سیاسی بیداری کے باعث شاہ کے لیے اپنی آئینی بقا کا کوئی دوسرا راستہ بچا بھی نہیں تھا۔ نیپال میں اس تبدیلی کا ہندوستان نے خیرمقدم کیا تھا اور نیپال کو علاقائی تحفظ دینے کے لیے اس کے ساتھ ایک فوجی معاہدہ کیا تھا کہ وہ اس کے سیاسی استحکام اور سالمیت کو اپنے حق میں ایک لازمی جغرافیائی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
آج جب ہندوستان‘ نیپال میں پھر ایک بار شاہی آمریت کے ہاتھوں جمہوریت کے قتل اور پریس اور اظہارِ خیال اور سیاسی جماعتوں پر بے مدت پابندی اور انسانی حقوق کی پامالی کو دیکھ رہا ہے تو اُس کا فکرمند ہونا اور اپنے پڑوس میں جمہوریت کی بحالی کے لیے وہاں کے ’’آمِر مطلق‘‘ کو بار بار متوجہ کرنا غلط نہیں ہے۔ جمہوریت کے حق میں اور اُس کی بحالی کے لیے ہندوستان کی یہ آواز صدر بش کی اس آواز سے قطعی مختلف ہے جو آزاد اور خودمختار ملکوں پر فوج کشی کے ذریعے من پسند جمہوریت مسلط کرنے کی توسیع پسندی سے تعلق رکھتی ہے اور جس کی ساری مہذب دنیا نے ایک زبان ہو کر مذمت اور مزاحمت کی تھی۔ ہندوستان نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے نام پر شیخ مجیب الرحمن کی عوامی پارٹی کو انتخاب میں اکثریت لانے کی بنا پر پاکستان کا مرکزی اقتدار سنبھالنے کی وکالت کی تھی اور ’’مکتی باہنی‘‘ کے ساتھ مل کر ’’مشرقی پاکستان‘‘ کو ’’بنگلہ دیش‘‘ بننے میں فوجی مدد دے کر پاکستانی فوج کو ڈھاکے میں اپنی فوجوں کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا تھا اور ایک لاکھ پاکستانی جنگی قیدی بنائے تھے۔ شیخ مجیب جیل کی کال کوٹھری سے نئی دہلی کے راستہ ڈھاکہ لے جائے گئے اور ہندوستان کی خیال میں بنگلہ دیش شیخ مجیب کی قیادت میں ایک اور سیکولر جمہوریت ملک کی حیثیت سے جنوبی ایشیا کے سیاسی نقشے پر ابھر آیا تھا مگر یہ سارا کچھ ۱۹۷۱ء کا سب سے بڑا ’’سیاسی واہمہ‘‘ تھا جو مسز اندرا گاندھی کی ناپختہ سیاسی دوراندیشی کی دَین تھا اور جس کا خمیازہ ہندوستان کو اس صورت میں بھگتنا پڑا کہ ابتدائی سیاسی قربت تاریخ کے بدترین فاصلوں میں تبدیل ہو گئی۔
یہی وہ پس منظر ہے کہ آج من موہن سرکار کو ایشیا کے اس علاقے میں اپنی تمام تر فوجی طاقت اور اقتصادی برتری کے باوجود اپنے پڑوسی ملک کو یہ یقین دلانا پڑ رہا ہے کہ وہ نیپال میں جمہوریت تھوپنے کے حق میں نہیں ہے لیکن وہ یہ ضرور چاہے گا کہ اس کے پڑوس میں جمہوریت پھلے پھولے اور آمریت‘ انسانی حقوق کی پامالی کی مرتکب نہ ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی دنیا میں کہیں بھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو امریکا جیسے ملک فوراً ایسے ملک کے خلاف اقتصادی اور مالی تعاون کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے طرح طرح کی پابندیاں لگا دینے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ اس علاقے میں اپنی تمام تر بالادستی اور طاقت کے باوجود ہندوستان اس بیان سے آگے نہیں بڑھا کہ وہ علاقائی سطح پر بڑا بھائی ہونے یا اپنی قوت و طاقت کا مظاہرہ کیے بغیر یہ چاہے گا کہ شاہی نیپال میں انسانی حقوق کو اور معطل آئین کو بحال کرنے کا عمل تیز کرے۔ ظاہر ہے ہندوستان بنگلہ دیش سے حاصل ہونے والے اپنے تجربے کی بنا پر نیپال میں جمہوریت کی بحالی کے لیے وہاں کے عوام کو ان کی جدوجہد میں اپنا اخلاقی ساتھ دینے کا اقرار ہی کر سکتا ہے۔ نیپال یقینی طور سے ہندوستان کے لیے سیاسی عدم استحکام اور علاقائی عدم سلامتی کے نقطہ سے خطرے کی آہستہ آہستہ بجنے والی ایسی گھنٹی ہے جس پر ہندوستان کو پوری توجہ سے نظر رکھنی ہو گی۔ ہندوستان کی ایک اور دشواری یہ ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں ’’سارک‘‘ کے حوالے سے مشترکہ نوعیت کے ترقیاتی منصوبے بنانے‘ جنوبی ایشیا میں آزاد تجارت اور مشترکہ سلامتی نظام کو رائج کرنے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے اور سارک پچھلے بیس برسوں سے محض ایک مشاورتی تنظیم کے تصور سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس سلسلہ میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے عدم تعاون اور اب نیپال میں سر اٹھانے والی آمریت نے صورتحال کو ہندوستان کے نقطۂ نظر سے تشویش ناک بنا دیا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’سیاست‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply