
فی الوقت ہندوستان میں انتخابات کا بازار گرم ہے۔ چہار جانب سیاسی جلسے، جلوس، ریلیاں، نعرے، وعدے۔ ایک دوسرے کی پول کھولنے اور ایک دوسرے کی حقیقت عیاں کرنے میں سیاسی و غیر سیاسی تقریباً سبھی لوگ سرگرم ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سولہویں لوک سبھا (پارلیمنٹ یا عوامی اسمبلی) انتخابات اپنے آپ میں مخصوص ہے کیونکہ اس مرتبہ:
i) الیکشن میں ۸۱۰ ملین رائے دہندگان ہوں گے جو یورپ کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہیں۔ اس معنی میں ۲۰۱۴ء کے انتخابات دنیا کے سب سے بڑے انتخابات رہیں گے۔
ii) ۱۸ سے ۱۹ سال کے رائے دہندگان میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس عمر کے لوگ تقریباً ۲۳ ملین ہیں جو مجموعی رائے دہندگان میں ۸۸ء۲ فیصد ہیں۔
iii) الیکشن کمیشن کے مطابق اس الیکشن میں گزشتہ کے مقابلہ میں ۱۰۰؍ملین ووٹر زیادہ ہوں گے۔
iv) اس مرتبہ الیکشن کمیشن نے ہیجڑوں کے لیے بھی ایک الگ زمرہ ’’دیگر‘‘ کے نام سے بنایا ہے۔ اس دیگر زمرے میں آنے والے رائے دہندگان کی تعداد ۳۱۴,۲۸ ہوگی۔
v) اس مرتبہ ۱۰؍فیصد رائے دہندگان پہلی مرتبہ ووٹ ڈالیں گے۔
اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی نصف آبادی ۲۵ سال سے کم عمر ہے اور یہ نئے رائے دہندگان انتخابی عمل کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ہماری گفتگو کا بھی یہی وہ اہم نکتہ ہے جس پر ہم اپنی بات آگے بڑھائیں گے۔
چند دن بعد ہونے والے الیکشن کی خوبیوں میں ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ ملک میں ایک نئی پارٹی آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر آئی ہے جو گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں موجود نہیں تھی۔اس پارٹی کی فی الوقت ایک حیثیت یہ بھی ہے کہ یہ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے خلاف آواز اٹھا تی نظر آرہی ہے۔ وہیں دوسری طرف دیگر ریاستی پارٹیوں سے بھی اس کا اشتراک نہیں ہوا ہے۔اس لحاظ سے یہ پارٹی اپنی شناخت بنانے کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے وقت میں یہ کیا کردار ادا کرسکے گی۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے نام سے معروف اس پارٹی کے لیڈر اروند کجریوال ہیں۔ بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی کے ’’گجرات ترقی ماڈل‘‘ کا انہوں اپنے دورے میں باریکی سے مطالعہ کیا ہے۔ مندرا تعلقہ (گجرات) میں کسانوں سے ملنے کے بعد کہا کہ ’’مودی وکاس پرش ہیں، لیکن صرف ادانیوں اور امبانیوں کے لیے‘‘۔ ان کے مطابق گجرات حکومت (جس کے وزیر اعلیٰ بی جے پی کے وزیر اعظم کے دعویدار بھی ہیں)کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھنے والے بڑے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے زمین تحویل میں لینا شروع کر دی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ گویا گجرات کی ساری زمین برائے فروخت ہے۔ اسی طرح ’’ابڈاسا‘‘ میں سکھ کسانوں کی زمین کے متعلق بھی ان کا یہی کہنا ہے۔ گجرات حکومت سکھ کسانوں کو ان کی زمین نہیں دینا چاہتی ہے۔ گجرات حکومت نے ۲۰۱۰ء میں ان کی زمین سِیل کر دی، عدالت کے پاس گئی اور بڑے وکیلوں کو رکھ لیا تاکہ سکھ کسان اپنی زمین سے محروم رہیں۔ اسی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے ایک دوسرے لیڈر منیش سسودیا نے گجرات دورے کے دوران ٹوئیٹ کرکے یہ اطلاع دی کہ ان کی کار پر حملہ کیا گیا، اس کے شیشے چکنا چور ہو گئے۔ حملے کے لیے انھوں نے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔لیکن اس سے بھی بڑی بات جو انھوں نے کہی، وہ یہ کہ گجرات میں پولیس میری جاسوسی کر رہی ہے۔گجرات میں گزشتہ شام سے میں جن لوگوں سے مل رہا ہوں، پولیس انہیں پریشان کر رہی ہے، پوچھ گچھ کر رہی ہے اور دھمکی دے رہی ہے۔وہیں کجریوال کا بھی یہ الزام تھا کہ گجرات میں حکومت کے ترقیاتی کاموں کے جائزے کو مودی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
متذکرہ واقعہ کے بعد ٹی وی چینل کے ایک لائیو شو میں کسی نے یہ سوال بھی اٹھا یا کہ اگر بقول آپ کے،گجرات حکومت اپنی ریاست کے شہریوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے، تو پھر کیوں وہ لگاتار تین مرتبہ بڑی اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرتی آئی ہے؟سوال کے جواب میں کجریوال کا کہنا تھا کہ ریاست میں کوئی بھی مضبوط اپوزیشن نہیں ہے،کانگریس کو یا تو مختلف مقامات پر خرید لیا گیا ہے یا پھر ڈرا دھمکا کر انھیں ابھرنے نہیں دیا جاتا۔اس بات میں کتنی سچائی ہے ہم نہیں جانتے، لیکن اس بات سے ضرور اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کا پلا ننگ کمیشن جب غربت کی حد ۲۸ اور ۳۲ روپے طے کرتا ہے تو پورا ملک اُس کے اِس طرزِ عمل کی مذمت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ انصاف سے بالاتر ہے کہ ایک کمزور شخص حد درجہ غربت میں مبتلا ہو، ان حالات میں ۲۸ یا ۳۲ روپے طے کرکے غربت کے گراف کو کم کرنے کی ناکام کوشش کی جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مناسب پالیسی اختیار کرتے ہوئے غربت کے پیمانے کچھ اور طے کیے جاتے،ایسے حد درجہ غریب لوگوں کو مزید سہولیات فراہم کی جاتیں۔ لیکن حکومت ہے کہ وہ نہ صرف اس بات کو نظر انداز کر رہی ہے بلکہ غربت کا مذاق اڑاتے ہوئے اس غیر منصفانہ حد بندی پر اپنی مہر بھی ثبت کررہی ہے جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ اس کے برخلاف جب گجرات کی حکومت غربت کا پیمانہ صرف گیارہ روپے طے کرتی ہے تو چہار جانب خاموشی چھا جاتی ہے! ایسا کیوں ہے؟ کیا اس بات سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ میڈیا گجرات حکومت کی مٹھی ہے یا ان لوگوں کی گرفت میں، جو نریندر مودی کو بی جے پی کے وزیر اعظم کا عہدہ دلانے میں مودی کو اڈوانی پر فوقیت دیتے ہیں، مرلی منوہر جوشی کو راضی یا پابند کرتے ہیں کہ وہ وارانسی کی سیٹ مودی کے لیے چھوڑ دیں۔
معلوم ہوا کہ میڈیا جملہ تمام بڑی قوتوں کی سرپرستی میں اپنے پروگراموں کو چلاتا ہے، ان کے نفع اور نقصان کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختلف رپورٹیں اور پروگرام سامنے لاتا ہے، اور جب اور جیسے چاہیں اچھے کو برا اور برے کو اچھا ثابت کرنے اور کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میڈیا اور خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کی اسی صلاحیت و اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے مرکزی وزیر برائے صحت غلام نبی آزاد نے این ایس یو آئی کے ایک پروگرام میں دعویٰ کیا کہ میڈیا کے ایک حصے نے یو پی اے حکومت کی حصولیابیوں کو نظر انداز کرنے میں حریف سیاسی جماعتوں سے ہاتھ ملا لیا ہے۔انھوں نے کہا کہ آج سماج ایسا ہو گیا ہے کہ آپ ٹی و ی پر کوئی جھوٹ ۱۰ مرتبہ دکھایے اور لوگ اس پر یقین کرلیں گے۔ کسی جلسہ عام میں کوئی جھوٹ ۱۰۰ مرتبہ بولیے اور لوگ سوچیں گے کہ یہ صحیح ہے۔ آزاد نے کہا کہ مختلف پیمانوں پر گجرات کے نام نہاد ترقی ماڈل کو دیگر ریاستوں سے اونچا درجہ دیا گیا ہے جبکہ کئی ریاستوں میں اس سے بہتر ماڈل موجود ہیں۔ اس کے باوجود میڈیا ان ریاستوں اور ان کے لیڈران کو بطور ماڈل سامنے نہیں لاتا۔ یہ وہ پس منظر اور حقیقت ہے جس میں آج نوجوانوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اپنی طلبہ تنظیمیں رکھتی ہیں۔ ان طلبہ تنظیموں میں خصوصیت کے ساتھ SFI, ABVP, NSUI, TCP, BVS, AISA, BCJD, CJD, CLJ, CRJ, MSF, OCP, SCS, TRVS قابل ذکر ہیں۔ ان تنظیموں کے علاوہ بھی ایک بڑی تعداد ان طلبہ تنظیموں کی آج ہندوستان میں موجود ہے جو یا تو سیاسی پارٹیوں سے وابستہ نہیں یا اگر ہیں تودوسرے درجہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اپنی مخصوص پہچان کے ساتھ مخصوص ایجنڈے پر کار بند ہے۔اس پس منظر میں متذکرہ طلبہ تنظیمیں اور ان سے وابستہ طلبہ و نوجوان،کہا جا سکتا ہے کہ مخصوص نظریہ و فکر کے لیے سرگرم عمل ہیں اور یہی ان کی پہچان ہے۔معلوم ہوا کہ ہندوستان کی نصف آبادی ۲۵ سال سے کم ہے اور نئے رائے دہندگان تقریباً ۱۰؍فیصد ہیں۔ قبل از وقت ہی ان کی فکری، نظریاتی اور جذباتی وابستگیاں موجود ہیں۔ لہٰذا یہ وہ تعداد نہیں ہے جو ہونے والے انتخابی عمل میں ملک کے نقشہ پر کوئی مخصوص تبدیلی لاسکے گی۔البتہ وہ نوجوان جو قابل ذکر نہیں ہیں یا دوسرے معنی میں فی الوقت اپنی مخصوص سیاسی و غیر سیاسی پہنچان نہیں رکھتے، وہی وہ ٹارگیٹ ہیں جن پر تمام سیاسی پارٹیوں کی توجہ مرکوز ہے۔
بظاہر اس کھیل میں ’’عام آدمی پارٹی‘‘ اور طلبہ و نوجوانوں کا تال میل کافی بہتر محسوس ہو رہا ہے۔ دیکھنے میں یہ بھی آرہا ہے کہ نوجوان بڑی تعداد میں اس پارٹی سے وابستہ ہو رہے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ اے اے پی ملک میں ایک اچھی اور صاف ستھری حکومت دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور بطور نمونہ پارٹی لیڈر کجریوال ان کے رول ماڈل ہیں۔ وہیں کجریوال گرچہ نوجوان نہیں لیکن ان کی حکمت عملی ا ور سرگرمیاں جس میں دھرنے، مظاہرے، جذبات سے بھری تقریریں، ہر کسی پر بلاخوف الزام دھرنے اور ماضی سے چھٹکارا پاتے ہوئے حال پر تکیہ کرنے جیسی خوبیاںنوجوانوں کو خوب متاثر کررہی ہیںاور وہ اس پارٹی سے وابستہ ہو رہے ہیں۔ لہٰذا وہ طلبہ و نوجوان جو فی الوقت غیر منظم ہیں اور کسی سیاسی یا غیر سیاسی پارٹی/تنظیم کا حصہ نہیں وہ عام آدمی پارٹی کی جانب تیزی سے قدم بڑھا رہے ہیں۔ وہ بھی بلاارادہ اور غیر شعوری طور پر اے اے پی کی پالیسیوں اور نظریہ کے حامل ہیں۔پھر وہ کون سی تعداد بچتی ہے جسے ملک کا ۵۰ فیصد یا اس سے زائد کہا جا رہا ہے؟ شاید یہ وہ قلیل ترین تعداد ہے جو کہیں اور کسی سے وابستہ نہیں،ساتھ ہی بری طرح سے کنفیوژ بھی ہے۔
طلبہ و نوجوانوں کے تعلق سے یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ وہ اپنی عمر سے بڑے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ مخلص ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اندر اٹھنے والے احساسات، خیالات اور جذبات کو چھپا نہیں پاتے۔ اور جب یہ چھپانے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے تو یہی وہ دور ہے جس میں عام طور پر اخلاص میں کمی آنی شروع ہو جاتی ہے۔انسان نفع و نقصان کے پیش نظر معاملات طے کرتا ہے اور اس کی سرگرمیاں انھیں نفع و نقصان کے بھنور میں الجھا کر رکھ دیتی ہیں۔ اگر اس حد درجہ اخلاص کے ساتھ غیر شعوری جذبات بھی شامل ہو جائیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ معاملات بگڑ جاتے ہیں، نتائج وہ نہیں آپاتے جو مطلوب ہیں۔ یہ بدلے ہوئے نتائج کبھی خوشگوار ہوتے ہیں تو کبھی تباہی کا پیش خیمہ۔ لہٰذا نوجوانوںکو اور سرپرست تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ایک ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس کے نتائج دیر یا سویر مثبت ہی نکلیں،اور یہ ممکن بھی ہے۔لیکن اندیشہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاںمنفی کو بھی مثبت ثابت کیا جاتا ہے اور نوجوان اپنے غیر ذمہ دارانہ عمل کے نتیجہ میں ان سے قربت اختیار کرتے ہیں جو ہمیشہ ہی مہلک ثابت ہوئے ہیں۔ان حالات میں ماضی کا مطالعہ کرتے ہوئے نتائج اخذ کیے جانے چاہیں۔ لہٰذا اگر آپ نوجوان ہیں اور ماضی کا مطالعہ کرنے کے بعد حال کے نتائج سے مطمئن بھی ہیں تو قدم آگے بڑھائیے۔ نہیں تو بہتر یہی ہے کہ ایسی تنظیم یا سیاسی پارٹی کا حصہ بننے سے دور ہی رہیے جو ملک، اہل ملک اور سماج و تمدن کے لیے تباہ کن ہو۔ کیونکہ کبھی قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے تو کبھی قدموں کو روک دینے ہی میں عافیت ہوتی ہے۔ الیکشن قریب ہیں اور الیکشن کے موقع پر ہر شخص کو ووٹ دینا چاہیے تاکہ اس کے اختیار کا صحیح استعمال ہو، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ جس طرح ووٹ کی ادائیگی ایک جمہوری ملک میں ضروری سمجھی جاتی ہے، سیاسی پارٹیوں میں بھی شمولیت اختیار کرنے کو ضروری سمجھا جائے۔ ہمارے فہم میں ووٹ کا صحیح استعمال تب ہی ممکن ہے جبکہ آپ کسی بھی سیاسی پارٹی سے اس درجہ وابستہ نہ ہوں کہ آپ اور آپ کی فکر مفلوج ہو جائے۔ اس حالت میں ترقی نہیں بلکہ تنزلی ہی خیال کی جائے گی!
☼☼☼
نہایت عمدہ تجزیہ ہے آپ نے،رہا مودی کا معاملہ تو یہ جگ ظاہر ہے ، اگر مسلمانوںکا ووٹ نہ بکا تو کسی صورت میں مودی جیسا قاتل وزیراعظم کی کرسی پر برآجمان نہیں ہوسکتا ۔
aapne bahut hi accha tajziya pesh kiya h… ab election ka duar chal raha h, aur jald hi iske nataij bhi hamare samne honge.. jo haalaat chal rahe hn un se aisa lg raha h k kuch siyasi partiyon ne ander khane BJP se hath milaya liya h k hm tmhare liye vote kaat kar tmhare liye rasta aasaan kr rahe hn…. misal k liye Meerut-Hapur lok sabha seat.. in haalaat me voter khud bhi preshan rehta h ke konsi siyasi pari Firqa parast partiyon ke khilaf h aur kon aunka saathi h…