کسی بھی بڑی طاقت کے پہلو میں آباد ریاست کے لیے وسیع منفی اثرات سے بچنا کسی طور ممکن نہیں ہوتا۔ بنگلہ دیش کے دو اطراف بھارت اور چین ہیں اور ان دو ہیوی ویٹس کے درمیان اپنے آپ کو متوازن رکھنا انتہائی دشوار ہے۔ تین اطراف سے بنگلہ دیش کو گھیرے ہوئے بھارت کے لیے بنگلہ دیش پر اپنی مرضی مسلط کرنا آسان ہے۔ یہی سبب ہے کہ بھارت کے عام انتخابات بنگلہ دیش کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان انتخابات کے بطن سے بنگلہ دیش کے لیے بہت سے منفی اور مثبت اثرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پوزیشن بظاہر بہت مضبوط ہے۔ اب تک کانگریس کا اقتدار بنگلہ دیش کے لیے بہت اچھا رہا ہے۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو بنگلہ دیش کے لیے بھارت میں وہ بات نہیں رہے گی۔ نئی دہلی کی طرف سے ڈھاکا کو بہت سے معاملات میں مطلوبہ ’’فیور‘‘ نہیں مل سکے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت میں بی جے پی کے فاتح ہو کر ابھرنے سے بنگلہ دیش کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ جنوری ۲۰۱۴ء میں بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہوئے تھے۔ یہ انتخابات آئینی اور قانونی طور پر تو درست تھے مگر اخلاقی طور پر ان میں خاصا سقم تھا۔ کیونکہ اپوزیشن جماعتوں نے بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کیا تھا۔ اس حوالے سے عوامی لیگ کی مسلسل دوسری بار ہونے والی انتخابی فتح کو حقیقی نمائندگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ کی ۱۵۳ نشستیں بلامقابلہ جیت لی گئیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور اس کی ہم خیال جماعتوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
بنگلہ دیش کے جنوری میں ہوئے عام انتخابات اب تک متنازع ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا نے بنگلہ دیش میں ایسے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے جن میں تمام سیاسی جماعتیں شریک ہوں اور ملک بھر کے عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ دوسری طرف بھارت نے شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو ہر حال میں بھرپور معاونت اور حمایت سے نوازنے کی کوشش کی ہے۔ کانگریس کی حکومت نے بنگلہ دیشی حکومت کی قانونی اور آئینی حیثیت پر بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ بھارت اور مغرب کے موقف میں پایا جانے والا فرق غیر معمولی نتائج کا حامل ہے۔
بنگلہ دیش کے معاملات میں نئی دہلی کا اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کانگریس نے بہت سے معاملات میں شیخ حسینہ واجد کو حمایت سے نوازا ہے اور اس کے بدلے میں اپنی مرضی کے فوائد بھی حاصل کیے ہیں۔ ایسے میں بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں عوامی لیگ کی ’’فتح‘‘ کو نئی دہلی کی بھرپور حمایت کا حاصل ہونا کچھ حیرت انگیز نہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دولتِ مشترکہ نے ان انتخابات کو محض سراب قرار دیا۔ امریکا اور روس نے ان انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے اپنے مبصرین بھیجنے سے بھی گریز کیا۔
سابق وزیراعظم اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء خاموشی سے دن گن رہی ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ بھارت میں قیادت کی تبدیلی ان کے لیے بہتر امکانات لے کر آئے گی۔ بھارت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کی صورت میں خالدہ ضیاء نئی دہلی جاکر متوقع وزیراعظم نریندر مودی سے ملنے کا ارادہ رکھتی ہیں تاکہ ان پر اپنی پوزیشن واضح کرسکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ بی جے پی کا ردعمل کیا ہوگا؟ بی جے پی ہندو انتہا پسند جماعت ہے۔ دوسری طرف بی این پی کے تعلقات ملک کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم جماعت اسلامی سے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے فوری طور پر کوئی فیصلہ انتہائی دشوار ہوگا۔
اگر خالدہ ضیاء کو اقتدار ملتا ہے تو وہ اپنے پرانے اتحادیوں سے تعلقات بحال کرسکتی ہیں۔ مگر ایک مشکل یہ ہے کہ خالدہ ضیاء کے پچھلے دور میں بھارت میں کانگریس اور بی جے پی دونوں کی حکومت رہی تھی۔ تب خالدہ ضیاء نے مشرق کی طرف دیکھنے کی پالیسی اپنا کر نئی دہلی کو بہت حد تک ناراض اور بدگمان کیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا تھا کہ خالدہ ضیاء کے دور میں بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات یکسر سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے۔ جماعت اسلامی پر عوامی لیگ نے غیر معمولی نوعیت کی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس کے ایک لیڈر کو پھانسی دی جاچکی ہے۔ ہزاروں کارکن پابندِ سلاسل ہیں مگر اس کے باوجود، غیر جانبدار تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی پوزیشن بہت مستحکم ہے اور وہ اب بھی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔
جو کچھ خالدہ ضیاء کے دور میں ہوا تھا، اس کا تجزیہ کرکے شیخ حسینہ واجد نے وہی کیا جو زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے انہیں کرنا چاہیے تھا۔ راہداری، سلامتی اور دیگر معاملات پر انہوں نے بھارت سے بات کی اور ’’کچھ لو، کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر معاملات طے کرلیے۔ شیخ حسینہ کے پورے دور میں بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات ریکارڈ بلندی پر رہے ہیں۔ بھارت کے سرکاری ادارے آئل اینڈ نیچرل گیس کمپنی کو بنگلہ دیش کے ساحلی علاقوں میں تیل اور گیس کی تلاش کا ایک بڑا کنٹریکٹ ملا ہے۔
یہ بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات کیا رہیں گے۔ بی جے پی اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے مسئلے پر سیاست کرتی رہی ہیں۔ آسام میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی کے رہنما نریندر مودی نے الزام لگایا تھا کہ بنگلہ دیشی آباد کاروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کے لیے آسام کی حکومت نے بہت سے جنگلات میں گینڈوں کو ختم کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گینڈے ہمارے جنگلات کی پہچان ہیں جبکہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگ بنگلہ دیشیوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر قومی دولت برباد کر رہے ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ بنگلہ دیش کے لیے بی جے پی کی پالیسی کیا ہوگی۔ مگر خیر، نریندر مودی جو کچھ کہتے رہے ہیں، وہ ڈھاکا کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔
یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بھارت میں بننے والی نئی حکومت کس نوعیت کی ہوتی ہے۔ اگر بی جے پی نے سادہ یا اس سے کچھ زیادہ اکثریت حاصل کرلی تو پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بھی بیرونی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنی پالیسیاں مرتب کرے گی اور اگر ایسا نہ ہوا یعنی مخلوط حکومت بنی، تو بی جے پی دیگر جماعتوں کی بات ماننے پر بھی مجبور ہوگی۔ ایسی صورت میں بنگلہ دیش سے بھارت کے تعلقات شاید زیادہ متاثر نہ ہوں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے حالیہ دورۂ بنگلہ دیش کے دوران دریائے ٹیسٹا کے پانی کی تقسیم کے تنازع سے متعلق زیادہ بات نہ ہوسکی کیونکہ بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے اس معاملے پر خاصا سخت موقف اختیار کر رکھا تھا۔
اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ بی این پی اپنی پالیسیوں کے لیے بیرونی حمایت کے حصول کی کوششیں بالائے طاق رکھ کر عوام کو حقیقی جمہوریت کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے۔ مودی انتظامیہ کو بھی کانگریس کے نقش قدم پر چلنے سے گریز کرنا چاہیے یعنی دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ نئی دہلی کو بھی ڈھاکا میں مستحکم حکومت درکار ہے تاکہ دو طرفہ تعلقات کسی بڑے تنازع کے بغیر چلتے رہیں اور خطے میں عدم استحکام پیدا نہ ہو۔ ایسے میں دکھائی تو یہی دیتا ہے کہ عوامی لیگ کو بی جے پی کے ساتھ چلنے میں بھی کچھ خاص دشواری محسوس نہیں ہوگی۔ بھارت کو البتہ اس امر کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ دو ملکوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ دو طرفہ ہوتے ہیں۔ فوائد صرف بٹورے نہیں جاتے، دیے بھی جاتے ہیں۔
(عرفات کبیر بنگلہ دیش کے بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ہیں۔ ان کی تحریریں وال اسٹریٹ جرنل، فوربس ڈاٹ کام، دی ڈپلومیٹ اور انٹرنیشنل پالیسی ڈائجسٹ میں شائع ہوتی رہی ہیں۔)
(“India election: Ripple effects in Bangladesh politics?”. Daily “Ittefaq” Dhaka. April 7,2014)
Leave a Reply