
بھارت میں فی الوقت ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات قریب ہیں۔ انتخابات کے پیشِ نظر اقلیتوں پر نظرِکرم پڑ رہی ہے۔ پیش نظر یہ ہے کہ اقلیتیں ان کو نظر انداز نہ کریں بلکہ پارٹی سے مضبوط رشتہ قائم کرتے ہوئے اس کا ووٹ بینک بن جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ چہار جانب سے محبت،اظہار ہمدردی اور مسائل کے حل کے بازار لگائے جا رہے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف غیر معمولی اخوت و محبت کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے۔
بی جے پی کے نائب صدر اور پارٹی میں مسلم چہرہ کے طور پر دیکھے جانے والے مختار عباس نقوی ایک انٹرویو میں پارٹی میں داخل ہوتے وقت کے حالات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جس وقت میں پارٹی میں شامل ہوا، اُس وقت اورآج کے حالات میں کافی فرق ہے۔ اس وقت مسلمانوں میں بی جے پی کے تئیں بے پناہ نفرت تھی، اور بی جے پی کے ساتھ کھڑا ہونا اُس وقت کافی مشکل تھا۔ میرا پس منظر سماج وادی یوا جن سبھا اور جے پی آندولن سے تھا، میں نے بی جے پی میں یوا مورچہ سے اپنا سفر شروع کیا اور آج میں بی جے پی کی تمام اعلیٰ کمیٹیوں میں ہوں۔ پہلے کے مقابلے میں حالات بدلے ہیں اور مسلمانوں کا بھی رویہ بی جے پی کے تئیں وہ نہیں ہے، جو پہلے تھا۔ دراصل ہمارے حریفوں نے یہ ماحول بنایا کہ بی جے پی مسلمانوں کی دشمن ہے اور کانگریس دوست‘‘۔
عباس نقوی کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل اس وقت اور آج کے حالات کافی تبدیل ہوچکے ہیں۔ آج مسلمانوں کی بی جے پی کے تعلق سے غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں، مسلمان بی جے پی سے دوستانہ تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ نتیجتاً بی جے پی بھی اپنے رویہ میں تبدیلی لائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے مسلمانوں پر بھروسے کا اظہار کرتے ہوئے انہیں پارٹی میں اعلیٰ سطحی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو مزید اب بی جے پی سے دور نہیں رہنا چاہیے۔
دوسری جانب ملک کو ایک نئی پارٹی کی شکل میں ملنے والی ’’اے اے پی‘‘ کہتی ہے کہ: ہمہ جہت ترقی کے لیے ملک کی روایت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، ٹھیک اُسی روایت کو جس کی پیداوار گاندھی جی، مولانا آزاد، مولانا مظہرالحق تھے۔ جو کسی ذات، مذہب یا علاقہ کے لیڈر نہیں، بلکہ ملک کے لیڈر تھے۔ ان کی یہی بات کسی حد تک درست کہی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ بات کہ آپ کسی خاص طبقے کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنے سے گریز کر رہے ہیں، اس لیے مسلمانوں کی شرکت بھی آپ میں ہونی چاہیے، نیز آپ کسی شناخت کے ساتھ نہیں چلنا چاہتے اور نہ ہی ہندو مسلم کی بات کرتے ہیں بلکہ انسانیت اور تمام لوگوں کی بات کرتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ جب عام لوگوں کے مسائل حل ہوں گے تو مسلمانوں کے مسائل بھی خود بخود حل ہو جائیں گے، مناسب نہیں ہے۔ ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں کہ عام آدمی کی سیاست کرکے ہم نے اُس سیاسی روایت کو توڑنے کی کوشش کی ہے جس میں پارٹی فرقہ پرستی، زعفرانی سیاست، سماج کو توڑنے، ذات پات اور مذہب کے سہارے انتخابات لڑتی تھی۔ میٹنگ میں موجود مسلمانوں سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ آپ کو اب تک آزادی کے بعد انتخابات سے کیا فائدہ ملا ہے؟ یہ اس گفتگو اور میٹنگ کا ماحاصل ہے جو ’’اے اے پی‘‘ کے نیشنل ایگزیکٹو ممبر اور بہار امور کے انچارج اجیت جھا نے منعقد کی تھی اور جس میں مسلمانوں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ مقصد ’’عام آدمی پارٹی‘‘ میں مسلمانوں کی شرکت اور اس کے ایجنڈے پر زور دینا تھا۔
تیسری جانب وہ تمام پارٹیاں ہیں، جن کا نقطۂ آغاز اترپردیش یا ہندی بیلٹ رہا ہے۔ لہٰذا ان تمام ریاستی پارٹیوں کا بھی یہی ماننا ہے کہ ماضی میں اقلیتوں کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ لازم ہے کہ ان کے مسائل پر توجہ دیتے ہوئے حل کی جانب پیش قدمی کی جائے۔لیکن مختلف اوقات میں برسر اقتدار ان پارٹیوں کی جانب سے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہوتی کہ دور اقتدار میں اقلیتوں کے لیے ان کی جانب سے کیا اور کس طرح کی توجہ دی گئی، اور وہ کون کون سے مسائل تھے جن کے حل کی جانب انہوں نے نہ صرف پیش قدمی کی بلکہ نتائج کے اعتبار سے اقلیتوں کو مطمئن بھی کیا؟ان پارٹیوں میں سرفہرست یوپی کی سماج وادی پارٹی ہے، جس کے موجودہ دورِ اقتدار میں سو سے زائد فسادات ہوئے اور حالیہ مظفر نگر قتل و غارت گری میں انتظامیہ کی جانب سے بے قابو متعصبانہ رویہ کا اظہار نہ صرف کھلی شہادت بلکہ ثبوت بھی فراہم کرتا ہے کہ وہ کس حد تک اقلیتوں کے مسائل کو حل کرنے کی جانب متوجہ ہے۔لیکن پھر بھی مذہبی و غیر مذہبی شناخت رکھنے والے رہنما کہتے نظر آرہے ہیں کہ اس سب لاپروائی کی وجہ ریاستی سرکار نہیں بلکہ یہ مقامی انتظامیہ کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔سوال یہ ہے کہ مقامی انتظامیہ کیا ریاستی انتظامیہ کے ماتحت نہیں ہے؟ اپنی ۵۸ ویں سالگرہ کے موقع پر رمابائی امبیدکر میدان میں منعقد بی ایس پی کی ’سائودھان مہاریلی‘ کو مخاطب کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ اترپردیش مایاوتی خود کو مسلمانوں کا رہنما بتانے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’بی ایس پی‘ کو مسلمانوں کے کثیر ووٹ ملنے سے بی جے پی اور دیگر فرقہ پرست طاقتیں کمزور ہو جائیں گی۔ وہ بی جے پی پر ہلّہ بولتے ہوئے کہتی ہیں، مرکز میں اسی پارٹی کے دورِاقتدار میں بہت سے دہشت گردانہ واقعات ہوئے تھے۔ نیز اتر پردیش میں تو اسی پارٹی کی حکومت کے دور میں ایودھیا میں بابری مسجد گراکر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی گئی۔ ان تمام حقائق کو آشکارا کرنے کے باوجود وہ بھول جاتی ہیں کہ خود ان کے دورِ اقتدار میں الہٰ آباد ہائی کورٹ ’’آستھا‘‘ کے سہارے بابری مسجد تنازع کو کس طرح حل کرتا ہے اور وہ یا ان کی پارٹی اس فیصلہ کے خلاف آواز تک نہیں اٹھاتیں۔
ہندوستانی اقلیتوں میں سرفہر ست مسلمان ہیں، اور مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کا کوئی واضح، منظم اور صبر آزما جدوجہد سے خالی ایجنڈا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی سے قبل اور بعد جس پارٹی نے بھی انہیں اپنی جانب متوجہ کیا یا دوسرے الفاظ میں جس پارٹی نے بھی اپنے لچھے دار ایجنڈے کے ساتھ انہیں آواز دی، مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کی طرف لبیک کہتا ہوا نظر آیا۔ متذکرہ گفتگو بھی یہی ثابت کرتی ہے کہ درحقیقت اصل دلچسپی ملک سے ہونی چاہیے، کسی مخصوص طبقے کے مسائل سے نہیں، مسلمانوںکا مسئلہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ان کے بھی ویسے ہی روٹی کپڑا اور مکان کے مسائل ہیں، جس طرح دیگر شہریوں کے۔ جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ ایک مخصوص نظریہ کے حاملین بھی یہی کہتے آئے ہیں، ممکن ہے ان کے کہنے کے انداز میں فرق رہا ہو، لیکن ان کا کہنا بھی یہی ہے کہ ’’ذات اور عقیدہ کو نظرانداز کرکے یا اوپر اٹھ کر ہر شخص کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا جائے کہ بھارت کے تمام لوگوں کی یہ عظیم ذمہ داری ہے کہ وہ اس حقیقت کو مانیں کہ بھارت ’راشٹر‘ کے تئیں غیر معمولی جذبۂ حوالگی (Intense Devotion) کو ابھارا جائے۔ ساتھ ہی اقلیتوں کے طریقۂ عبادت کی عزت کرتے ہوئے بھی ملک کی روایات، تاریخ، نظریۂ زندگی (Life Attitudes)، آدرشوں اور اقدار سے انہیں محبت اور احترام کرنے کی تعلیم دی جائے اور ان کی آرزوئوں کو راشٹر کی آرزوئوں میں مدغم کرنے کا نظم کیا جائے‘‘۔ مخصوص نظریہ کے حاملین ملکی سطح پر ’’یک رنگی‘‘ کے خواہش مند ہیں، جس کے بعد ملک میں ایک ہی سماج، ایک ہی قوم اور ایک ہی کلچر کا اظہار ہوگا اور شاید اسی بات کا اظہار گاندھی جی اور مولانا آزاد کی مثال دے کر روایت کو آگے بڑھانے کی جانب کی گئی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اجیت جھا اور مخصوص نظریہ کے حاملین کے درمیان فکری ہم آہنگی کس حد تک پائی جاتی ہے، اس کے باوجود جو ظاہر ہے وہ کچھ واضح بھی نہیں۔
موجودہ صورتحال کے پیش نظر آئندہ پانچ سالہ حکومت کی تشکیل کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سا اتحاد ہوگا جسے اہل ملک آئندہ حکومت کی باگ ڈور دینے کے لیے راضی ہوں گے۔ لیکن وہ کوئی بھی حکومت ہو اور کوئی بھی اتحاد، اقلیتوں کو ماضی قریب کے نہ صرف وعدوں بلکہ نتائج کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ اقلیتوں کو چاہیے کہ وہ واضح مقاصد اور صبر آزما جدوجہد کے ساتھ کوئی ایک پلیٹ فارم تیار کریں۔ جہاں اگر فوری نہ صحیح تو دیر ہی سے، اہل ملک اور خود ان کے مسائل بھی حل ہوتے نظر آئیں۔گزشتہ اڑسٹھ سال سے جیسے حکومتیں بنتی اور بگڑتی رہی ہیں آئندہ بھی بنتی اور بگڑتی رہیں گی۔لیکن یہ سوال کہ عام انسانوں کے مسائل جن میں اقلیتوں کے مسائل سر فہرست ہیں، وہ کب اور کیسے حل ہوں گے؟ شاید یہی وہ متبادل ہے جس کی تلاش آج بھی جاری ہے!
☼☼☼
Leave a Reply