آج کل ہمارے ملک بھارت میں عجیب و غریب صورتِ حال ہے۔ وزیراعظم کے ہاتھوں سچائی بری طرح سے مجروح ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک کی زراعت، دفاع، تجارت اور سول نیو کلیئر معاملات کے دروازے امریکا کے لیے کھول دیے ہیں۔ ہر کام رازداری میں کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد تردید آدھی سچائی یا مکمل جھوٹ کے سہارے حکومت، امریکا اور ہندوستان کے درمیان تعلقات میں بنیادی تبدیلی لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ بات تو روزِ اول سے ہی عیاں تھی کہ وزیراعظم اس حقیقت سے واقف تھے کہ وہ کسی قومی مفاہمت کے بغیر ہی وقت کے دھاروں کے خلاف تیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے امریکا کے ساتھ معاہدہ کے معاملے میں یہ طے کر رکھا تھا کہ خواہ کچھ ہو جائے وہ معاہدہ مکمل کر کے ہی دم لیں گے۔ انھوں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ ضرورت پڑنے پر وہ آدھی سچائیاں بیان کر کے عوام کو مطمئن کر دیں گے لیکن وہ اس کوشش میں ناکام ہو گئے۔ جو مدافعت اس معاہدہ کی ڈاکٹر سنگھ کی جانب سے کی جارہی ہے، اس کو قبول کرنے کے لیے ملک کے عوام آمادہ نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ میں جمہوری ہندوستان کی جانب سے جو کوشش ہو رہی ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے اقتدارِ اعلیٰ کے مظہر وزیراعظم کو عوام کے آگے جوابدہ بنایا جائے۔ انھیں یہ بتایا جائے کہ ملک کے عوام کی مرضی کیا ہے۔ اس کوشش کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان اور امریکا کے درمیان دفاعی معاملات میں جو مفاہمت ہو رہی ہے، اس کو ملک کے عوام کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ عوام اس کا جائزہ لے سکیں۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بنیادی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ وزیر خارجہ پرنب مکھرجی نے جس دفاعی معاہدہ پر دستخط کیے ہیں، (یہ اس وقت کی بات ہے جب پرنب مکھرجی وزیرِ دفاع تھے) اس پر عمل آوری بہت جلد ہونے والی ہے۔
امریکا کو بطور خاص اس بات سے دلچسپی ہے کہ ہندوستانی بحریہ امریکی بحریہ کے ساتھ مشترکہ مشقیں کرے اور ان مشقوں میں اس علاقہ کے دیگر امریکی حلیف ممالک بھی شامل کیے جائیں۔ اس سلسلے میں امریکا نے آسٹریلیا، جاپان اور چین کو شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن چین نے ایسی مشقوں کی افادیت کے بارے میں امریکا ہی سے سوال کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہندوستان ان امور پر غور کرنے کے لیے امریکا سے وقت طلب کرتا۔ ان امور کا تجزیہ کرتا کہ کس طرح سے چار ممالک ایسی مشترکہ مشقیں کر سکتے ہیں؟ ہندوستانی حکومت نے اپنے نئے حلیف کے ساتھ خلیجِ بنگال میں ان مشقوں کا آغاز کر دیا، ایسی کچھ مشقیں سنگاپور میں بھی ہو رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد یہ سب سے بڑی بحری مشقیں ہیں۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے، اس نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ سب کچھ کیا ہے۔ امریکا نادان نہیں ہے اور نہ وہ اندھا بن کر یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ اس کے اپنے مفادات ہیں جن کی وہ پوری طرح سے حفاظت کر رہا ہے۔ خواہ ہندوستان امریکا سے کتنے ہی دفاعی معاہدہ کر لے، ہند امریکی تعلقات پر ان کا مثبت اثر نہیں ہو گا۔ ہندوستان نے نہ تو محتاط رویہ اختیار کیا اور نہ اس سلسلہ میں سفارتی زبان استعمال کی۔ مثال کے طور پر امریکا کے پالیسی ساز (Think Tank)نے سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا ہے۔ ان لوگوں نے پاکستانی اور ہندوستان کے درمیان خاص قسم کے تعلقات کے قیام کی سفاش بھی کی تھی۔ اب تو یہ سفارش امریکی دفتر خارجہ کی پالیسی بن چکی ہے۔
اس وقت یہ بات کہی جارہی ہے کہ امریکا نے ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر گہرے غور و خوض کے بعد یہ قدم اٹھائے۔ ہندوستان امریکا کے لیے بہت بڑی منڈی بن سکتا ہے۔ کسی بھی صورت میں امریکا اپنے تجارتی مفادات کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ امریکا نے سب سے پہلے فوجی معاملات میں تعاون کی پیشکش کی۔ امریکا کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد ہے۔ اس لیے مغربی ایشیا میں امریکا کے تعلقات کے لیے ان ہندوستانی مسلمانوں کی امریکا کو حمایت مل سکتی ہے۔ امریکا یہ بھی سمجھتا ہے کہ وہی ایک ایسی طاقت ہے جو اس علاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روک سکتا ہے۔ امریکا جانتا ہے کہ ہندوستان کے پاس ایک ماہر اور پیشہ ورانہ فوج بھی ہے جس کو امریکا اس علاقے میں اپنے فوجی مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کر سکتا ہے جیسے ملاکا آبی گزرگاہ کی حفاظت ہندوستان موثر انداز میں کر سکتاہے۔
امریکا یہ بھی سمجھتا ہے کہ ہندوستان کی نگرانی اور کنٹرول امریکا کے لیے عالمی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ اپنی اس حکمت کو قطعیت دینے سے قبل امریکا نے کئی متبادل صورتوں پر بھی غور کیا ہے۔ امریکا نے کبھی اس معاملے میں اندھا دھند طریقہ کار اختیار نہیں کیا۔ مثال کے طور پر سول نیو کلیئر انرجی کا معاہدہ ہندوستان اور امریکا کے تعلقات کی تمہید بن گیا ۔ لیکن اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ معاہدہ طے پائے گا، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی، امریکا نے بہت محنت کی۔ ہندوستان کی بعض الجھنوں کو دور کیا (کم از کم حکومتِ ہند یہی دعویٰ کرتی ہے) ہندوستانی سیاستدانوں اور صحافیوں میں اس معاہدہ کے سلسلہ میں ہوئے تمام واقعات کو مربوط کر کے کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی اور نہ اس سلسلے میں کسی نے کوئی مربوط کوشش کی۔ البتہ ذہین نیوکلیئر سائنسدانوں اور چند دانشوروں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اس معاہدہ کے کیا نقصانات ہندوستان کو برداشت کرنے پڑیں گے۔ مثال کے طور پر سول نیوکلیئر انرجی کا معاہدہ ہی لیجیے۔ امریکا نے ہندوستان کے ہاتھوں میں ایک بڑا لالی پوپ (Lolli Pop) تھما دیا اور ہندوستان بہل گیا۔ امریکا نے کہا کہ ہم آپ کو نیوکلیئر سول انرجی دے رہے ہیں۔ ہم ہندوستان کے نیوکلیئر پروگرام پر کوئی پابندی عائد نہیں کریں گے۔ ہم ہندوستان کو نیوکلیئر دنیا میں تنہا نہیں رہنے دیں گے۔ ہم ہندوستان کو ایک ذمہ دار نیوکلیئر طاقت تسلیم کریں گے۔ ان تمام چیزوں کے بدلے ہم ہندوستان کو نیوکلیئر انرجی دیں گے۔ لیکن یہ سب کچھ نہیں ہوا ہے۔ معاہدہ کے بعد امریکا کے تیور بدل گئے۔ اس نے صاف طور پر کہا ہے کہ ہندوستان نیوکلیئر تجربات نہیں کر سکتا۔ اس کے ری ایکٹرز بین الاقوامی نگرانی میں رہیں گی۔ یہ اور دیگر کئی ایسی باتیں ہوئیں جن سے صاف ظاہر ہو گیا کہ امریکا نے معاہدہ کر کے ہندوستان کے نہیں بلکہ اپنے مفادات کو پورا کیا ہے اور ہم بڑی آسانی کے ساتھ کسی مدافعت کے بغیر امریکا کے چنگل میں پھنس گئے۔
(بحوالہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply