بھارت، تشدد کا بڑھتا دائرہ

بھارتی معاشرے میں تشدد کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف معاشرتی نوعیت کا تشدد ہے اور دوسری طرف مذہبی منافرت کی بنیاد پر پھیلایا جانے والا تشدد۔ تشدد کا وسیع ہوتا ہوا دائرہ اہلِ دانش کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ معاشرے کے سیاہ و سفید پر نظر رکھنے والے حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ معاملات کو کنٹرول کرنے پر توجہ دے اور ایسے اقدامات کرے، جن سے تشدد کا دائرہ محدود سے محدود تر رکھنے میں مدد ملے۔

بھارت کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت میں مذہب کی بنیاد پر کسی کو نشانہ بنانے کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنانے کی وارداتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ یہ سب کچھ معاشرے میں غیر معمولی عدم توازن پیدا کرنے کا باعث ہے۔ انہوں نے حال ہی میں گائے کے تحفظ کے نام پر متعدد مسلمانوں کو تشدد کے ذریعے شہید کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی اور حکومت پر زور دیا کہ وہ ہجوم کی نفسیات کو بے قابو ہونے سے روکنے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔

زیر نظر اداریے میں انڈین ایکسپریس گروپ کے ہندی زبان کے اخبار ’’جَن سَتّا‘‘ نے معاشرے میں تیزی سے پھیلتے ہوئے تشدد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس امر پر زور دیا ہے کہ حکومت فوری اور خاطر خواہ اقدامات کے ذریعے معاملات درست کرے۔)

چند برسوں کے دوران تشدد کے واقعات میں تیزی، بہت سے سوال کھڑے کرچکی ہے۔ بڑوں کی دیکھا دیکھی بچوں میں تشدد کا پھیلتا دائرہ معاشرے، انتظامیہ اور حکومت سبھی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے ایسی شکل کس طور اختیار کرلیتے ہیں کہ نوبت چاقو بازی اور قتل تک جا پہنچے۔ یہ واقعات نئی نسل میں تیزی سے بڑھتی عدم برداشت اور عدم رواداری کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔

دہلی کے ایک سرکاری اسکول میں ۳؍ اگست کو صبح کی دعا کے وقت ایک طالب علم نے سب کے سامنے چاقو نکال کر ایک اور طالب علم پر پے در پے وار کرکے اُسے شدید زخمی کردیا۔ دونوں کا ایک دن قبل جھگڑا ہوا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس نوعیت کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں سال کے دوران دہلی ہی کے علاقے کرول باغ کے ایک سرکاری اسکول میں چند طلبہ نے مل کر ایک ساتھی طالب علم کو قتل کردیا تھا۔ گزشتہ برس بھی دہلی کے ایک اسکول میں ایک طالب علم مارا گیا تھا۔ اسے بھی اس کے ساتھیوں ہی نے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ کچھ مدت پہلے ہریانہ کے ایک سرکاری اسکول میں طلبہ کے دو گروہوں کے درمیان جم کر چاقو بازی ہوئی تھی جس میں پانچ طلبہ شدید زخمی ہوئے تھے۔

چاقو بازی طلبہ کی باہمی لڑائیوں تک محدود نہیں۔ طلبہ میں تشدد پسندی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اگر انہیں اساتذہ سے بھی کوئی شکایت ہو تو بات کو دل میں رکھ لیتے ہیں اور پھر اساتذہ سے حساب چُکتا کرنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ گزشتہ برس دہلی کے نانگلوئی علاقے میں ایک سرکاری اسکول کے استاد پر دو طلبہ نے چاقو سے حملہ کردیا تھا۔

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ معاشرہ کس سمت جارہا ہے۔ بچوں میں تشدد پسندی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ نئی نسل اپنے آپ کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے اور اپنے ساتھ ساتھ ملک کے لیے کچھ کرنے کی تیاری کے بجائے غیر صحت مند سرگرمیوں میں گم ہوتی جارہی ہے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ آخر ہم اپنی آنے والی نسل کو کیسا ماحول فراہم کر رہے ہیں۔ نئی نسل میں بڑھتی ہوئی تشدد پسندی اس امر کی طرف بھی واضح اشارا کرتی ہے کہ ہم اُن کی تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں نہ ہی اس بات کی کچھ فکر ہے کہ وہ مستقبل میں کیا کریں گے، کس طور زندگی بسر کریں گے اور گھر بسانے کے بعد اہل خانہ کو کیا دے سکیں گے۔ اہل خانہ اور اساتذہ دونوں ہی نے بچوں اور نوجوانوں کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ اس روش ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب بچوں میں سنجیدگی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی اور وہ تشدد سمیت ہر منفی رجحان تیزی سے قبول کرکے اپنے امکانات کو مٹی میں ملاتے جارہے ہیں۔ سرکاری اور نجی اسکولوں میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اس حقیقت کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ سیکورٹی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ اساتذہ بھی طلبہ کے جھمیلے میں پڑنے سے گریز کرتے ہیں۔ بچوں میں تشدد پسندی کا گراف نیچے لانے کے لیے والدین اور اساتذہ کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔

(بحوالہ: روزنامہ ’’جَن سَتّا‘‘ نئی دہلی، بھارت۔ ۴؍اگست ۲۰۱۸ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*