
شہریت کے ترمیمی بل کی منظوری کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جو قدم اٹھایا ہے اُس نے ایک لبرل، سیکولر اور کثیرالثقافتی معاشرے کی حیثیت سے بھارت کے وجود ہی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ممبئی سے کولکتہ تک بھارت ہنگامہ آرائی کی زد میں ہے۔ درجنوں چھوٹے بڑے شہروں میں لوگ شہریت کے متنازع ترمیمی بل کے خلاف میدان میں آگئے ہیں۔ طلبہ اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ دارالحکومت سمیت ملک بھر میں پولیس سے طلبہ کا تصادم ہوا ہے۔ نئی دہلی میں طلباء و طالبات پر پولیس کے غیر انسانی تشدد کی ویڈیوز نے جلتی پر مزید تیل چھڑکا ہے۔ یہ انتہائی متنازع بل صرف مسلمانوں کے خلاف ہے۔ معاشرے کو انتشار سے بچانے کے لیے ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس بل کی بھرپور مخالفت کر رہے ہیں۔ پولیس نے مظاہروں کو کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کی ہے مگر اب تک معاملات اُس کے قابو میں دکھائی نہیں دے رہے۔
بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) نے حال ہی میں شہریت کا متنازع بل منظور کیا ہے جس کے مطابق مسلم اکثریتی ریاستوں پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں، سکھوں، مسیحیوں، بدھسٹوں، جینز اور پارسیوں کو بھارتی شہریت دی جاسکے گی۔ اس قانون میں بدھسٹوں کی اکثریت والے ممالک میانمار اور سری لنکا سے فرار ہونے والی اقلیتوں کا کوئی ذکر نہیں۔ واضح رہے کہ میانمار میں سرکاری مشینری کے مظالم سے تنگ آکر لاکھوں روہنگیا مسلمان ترکِ وطن پر مجبور ہوئے ہیں اور بنگلا دیش میں پناہ لی ہے۔
شہریت کے متنازع ترمیمی بل کے ذریعے انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے مسلمانوں سے واضح امتیازی سلوک کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پر پورے ملک میں شدید احتجاج کیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ اقدام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کیا ہے جنہوں نے متعدد مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی تھی۔
نریندر مودی نے سال رواں کے اوائل میں منعقدہ عام انتخابات کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ شہریت کے بل میں ترامیم کے ذریعے پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو کھپانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ اب اس وعدے پر عمل کیا جارہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ۲۰۴۱ء میں جب نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو لوگوں کا خیال تھا کہ بی جے پی تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ معیشت کے حوالے سے بھی نریندر مودی اور اُن کی ٹیم کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں رہی۔ ڈیڑھ دو عشروں کے دوران بھارت ترقی کی راہ پر گامزن رہا تھا مگر بی جے پی کی حکومت کے تحت دوران کارکردگی کا گراف گرا اور اب معاشی شرحِ نمو پانچ فیصد کے آس پاس رہ گئی ہے۔
بی جے پی کو کرپشن میں لپٹی ہوئی کانگریس پارٹی کے دس سالہ اقتدار کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھنے کا موقع ملا تھا۔ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے غیر معمولی کامیابیاں سمیٹنے والے نریندر مودی ملک کے لیے ایک اچھے مصلح ثابت ہوں گے مگر ایسا نہ ہوسکا۔
کانگریس کے رکن اور سابق مرکزی وزیر ششی تھرور نے نریندر مودی کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ’’دی پیراڈوکسیکل پرائم منسٹر: نریندر مودی اینڈ ہِز انڈیا‘‘ کے زیر عنوان کتاب لکھی ہے جس میں مودی کی شخصیت کا بھی بہت عمدہ تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ششی تھرور نے لکھا ہے ’’بھارت کے لیے نریندر مودی کا وزیر اعظم بننا بہت بُرا تجربہ رہا ہے۔ میں نے اپنی کتاب کے ہر باب میں وہ تضاد بیان کیا ہے جو نریندر مودی کی شخصیت سے ابھرا ہے۔ وہ اپنی تنگ نظری، مذموم عزائم اور فرقہ واریت کو ترک کرکے حکمرانی کی وہ صلاحیت پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں جس کی بھارت جیسے ملک کو اشد ضرورت ہے۔‘‘
ششی تھرور کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے دور میں سب سے بُری بات یہ ہوئی ہے کہ فرقہ واریت کو ہوا دینے اور ملک کو تقسیم در تقسیم کی راہ پر ڈالنے والی قوتیں بے لگام ہوگئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک کی ترقی رک گئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ملک کئی عشرے پیچھے چلا گیا ہے۔ اقلیتوں، خواتین، دلت اور لبرلز پر سنگین نوعیت کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور جو لوگ ایسا کر رہے ہیں اُنہیں پکڑے جانے کا بالکل خوف نہیں۔ ششی تھرور کہتے ہیں نریندر مودی کے دور کا بھارت جمہوری، لبرل، سیکولر اور روادار نہیں رہا جیسا کہ ہمارے بزرگوں نے خواب دیکھا تھا۔
مودی معاشی مصلح نہیں!
خیال کیا جارہا تھا کہ نریندر مودی کے عہد میں بھارتی معیشت غیرمعمولی استحکام سے ہم کنار ہوگی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ۲۰۱۹ء کے حوالے سے اپنے تجزیے میں بھارتی معیشت کے فروغ پانے کی شرح میں مزید کمی کردی۔ اس وقت چینی معیشت ۱ء۶ فیصد سے زائد کی شرح سے پنپ رہی ہے جبکہ بھارتی معیشت، جسے کبھی سب سے تیزی سے پنپنے والی بڑی معیشت کا درجہ حاصل تھا، محض ۱ء۵ فیصد کی منزل میں اٹکی ہوئی ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے اروند سبرامنین کہتے ہیں ’’معاشی نمو سے متعلق جو اعداد و شمار بھارتی حکام پیش کرتے ہیں اُن پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے بہت کچھ بڑھا چڑھاکر بیان کیا جارہا ہے۔‘‘
معیشت کو شدید نقصان پہنچانے والے عوامل میں کرنسی نوٹ تبدیل کرنے جیسی انتہائی ناقص پالیسی اور غیر دانش مندانہ ٹیکس اصلاحات نمایاں ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا گیا کہ حکمرانی کا معیار ہر صورت بلند کیا جائے گا۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اختیارات کے وزیر اعظم آفس میں ارتکاز سے معاشی پالیسی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ کابینہ کے ارکان مجموعی طور پر بے اختیار سے ہیں۔ اِسے اچھی حکمرانی نہیں کہا جاسکتا۔
ہندو قوم پرستی بمقابلہ معاشی ترقی
رگھو رام راجن کہتے ہیں کہ ہندو قوم پرستی یا انتہا پسندی ملک کو معاشی نمو کی راہ سے ہٹادے گی۔ یونین کی تمام اکائیوں کو متحد رکھنے کے لیے ملک کو غیر معمولی معاشی نمو کی ضرورت ہے۔
توقع کی جارہی تھی کہ بی جے پی ۲۰۱۹ء کا الیکشن نہیں جیت سکے گی۔ چند ریاستوں میں اُس کی شکست نے اس خیال کو مزید تقویت دی تھی کہ نریندر مودی کی شخصیت کا طلسم دم توڑ چکا ہے مگر عام انتخابات کے نتائج نے بی جے پی کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مضبوط ترین جماعت کے طور پر پیش کردیا۔
مودی انتہا پسندی کے راستے پر
عام انتخابات کے بعد چند ماہ کے دوران غیر معمولی معاملات ہوئے ہیں۔ پہلے تو متنازع نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کو متعدد ریاستوں میں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی۔ پھر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے پوری وادی کے مسلمانوں کو لاک ڈاؤن کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ اِس کے بعد جب سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس میں مسلمانوں کے خلاف فیصلہ سنایا تو نریندر مودی نے شہریت کے متنازع بل پر مہم جوئی شروع کی۔ آسام میں شہریت کے شواہد چیک کرنے کے نام پر مسلمانوں کو نشانے پر لیا گیا۔ اور اب شہریت کے متنازع ترمیمی بل کے ذریعے پورے ملک کے مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
مؤثر اپوزیشن کا فقدان
ششی تھرور اور سونیا گاندھی جیسے کانگریس قائدین نریندر مودی اور بی جے پی کے خلاف بولتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ مرکز میں مضبوط اپوزیشن مضبوط نہیں جس کا بی جے پی بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یہ بھارتی جمہوریت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ کانگریس کبھی ایک بڑی جماعت ہوا کرتی تھی، اب بہت گھٹ کر رہ گئی ہے۔ کانگریس کی قیادت پر نہرو خاندان کا تصرف ہے اور یہ جماعت مجموعی طورپر بدعنوان، نا اہل اور متکبر تصور کی جاتی ہے۔
جمہوریت کی پستی
ششی تھرور ہی نہیں، دوسرے بہت سے مبصرین بھی اب نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی جمہوریت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجارہے ہیں۔ رام چندر گوہا نے ۲۰۱۷ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’انڈیا آفٹر گاندھی‘‘ میں لکھا تھا کہ بھارت میں جمہوریت ۵۰/۵۰ ہے مگر اب یہ تناسب ۳۰/۷۰ ہوچلا ہے کیونکہ آزاد صحافت پر حملے ہو رہے ہیں اور مذہبی اقلیتیں شدید دباؤ میں جی رہی ہیں۔
جب نریندر مودی پہلی بار اقتدار میں آئے تھے تب آسٹریلیا، جاپان اور امریکا کی قیادتوں نے امید ظاہر کی تھی کہ بھارت میں جمہوریت مزید توانا ہوگی اور چین کو زیادہ قوت سے منہ دیا جاسکے گا۔ توقع کی جارہی تھی کہ چین کی عظمت بحال کرنے سے متعلق صدر شی جن پنگ کے عزائم کے آگے دیوار کھڑی کی جاسکے گی۔ مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت سے ایسے کسی بھی کردار کی توقع دن بہ دن کمزور پڑتی جارہی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“India has a Modi and a BJP problem”. (“theglobalist.com”. December 19, 2019)
Leave a Reply