
ویانا میں ۲۴ ستمبر کو IAEA کی منعقدہ بورڈ میٹنگ میں بھارت کا امریکیوں اور یورپیوں کی حمایت میں ایران کے خلاف ووٹ کا استعمال کرنا ایرانیوں کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھا۔ فیصلہ کرنے والے بھارتی رجحان پر ایران کے یقینی ردعمل کے منتظر ہیں اب تک ویانا اورتہران سے متنازعہ رپورٹس موصول ہورہی ہیں۔ ویانامیں موجود ایرانی نمائندے نے فوری طور پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے 22 کروڑ ڈلر کا مائع شدہ قدرتی گیس کے معاہدے کی منسوخی کا اعلان کیا ہے۔ تاہم تازہ ترین رپورٹس نے اس موضوع کے حوالے سے ایران کے موقف کو مبہم بتایا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ ایران پلٹ کر ویسا ہی جواب بھارت کو دیتا ہے یا دہلی سے گیس کی فراہمی کے معاہدہ کی پاسداری کرتا ہے‘ یہ ممکن نہیں ہے کہ بھارت کی بے وفائی سے صرفِ نظر کیا جائے۔ پس اس فیصلے کے اثرات دوطرفہ تعلقات سے بہت آگے جائیں گے۔
بھارت کے اٹھ کھڑا ہونے اور جوہری معاملہ پر ایران کو نیچا دکھانے کے لیے خود کو مغربی نو استعماری کیمپ میں گنوائے جانے کے فیصلہ پر کئی ایک حیران ہیں۔
کس طرح بھارت جو خود کو تیسری دنیا کا ’’اخلاقی استاد‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اپنے کیمپ کے ساتھی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ سکتا ہے ؟بھارت کی قوت کو کیا بات ایسی ہوگئی یا ہورہی ہے کہ جو کبھی مغرب کو بڑے شک اور بداعتمادی سے دیکھتا تھااس طرح کے فیصلے کے لیے آمادہ ہوا مشاہدین کے لیے یہ حیرانی کی بات ہے کہ توانائی کا بھوکا بھارت جو بین الاقوامی معاشی بجلی گھر بننے کے لیے کافی تگ ودو کررہا ہے۔ایران کے ساتھ توانائی کے ایک مفید معاہدہ کی بلی چڑھادے محض اپنے مغربی دوستوں کو خوش کرنے کے لیے۔
کچھ زیادہ پہلے کی بات نہیں ہے کہ بھارت اپنی خارجہ پالیسی پر فخر کیا کرتا تھا کہ مغربی کیمپ کی مخالفت جس کا طّرۂ امتیاز تھی۔ بھارت کو اس بناء پر دوست و دشمن ہر دو کیمپ میں ایک عزت حاصل تھی۔ جب بھی وہ یہ سمجھتاتھا کہ اس کے اصولوں اور روایات پر حملہ ہورہا ہے وہ مغربی دنیا کے بدمعاشوںکے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ بھارت کے اندرونِ خانہ ایسی کیا بنیادی تبدیلی واقع ہوگئی کہ اب وہ ان کے خلاف نہیں بلکہ ان ساتھ کھڑا ہے؟ایک لفظ میں اگر اس گتھی کا معقول جواب ہوسکتا ہے کہ بھارتی قیادت کے مرکب میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ریاست کی اعلیٰ ترین شخصیت اس سب کی وجہ ہے۔
بش نے امریاک کو بڑے جارحانہ انداز سے استعماری رستے پر ڈال دیا ہے کیونکہ وہ شخص اکیسویں صدی میں مایوس کن حد تک امریکی افواج کے مکمل خیال سے بندھا ہوا ہے اور بلیئرسے روشن خیال حریت پسند خیال کیا جاتا ہے ۔ ایک مجسم استعمار پسندثابت ہوا ہے ۔گزشتہ صدیوں کے سلاطین سے کسی امتیاز کے بغیر۔
من موہن سنگھ نے بھارتی خارجہ پالیسی کی بنیادی تبدیلی کے کئے کلیدی کردار ادا کیا ہے بالخصوص مغربی دنیا کے تناظر میں۔ وہ عالمی بینک کی پیداوار ہیں اور یہ امریکی زیر اثر ادارہ بالکل اسی طرح کا ایک استعماری ادارہ ہے جس طرح برطانوی راج کے عروج میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ادارہ تھا۔ امریکی استعمار عالمی بینک اور IMF کی پسندونا پسند پر انحصار کرتا ہے۔
کل صلیب استعماری تلوار کی یقینی متبادل تھی۔ آج کاروباری ثقافت نوآبادیاتی قدامت پسندی کا زبردست متبادل ہے ۔امریکی سامراج جہاں ممکن ہورہا ہے فوجی اڈے کے حصول کے لیے دُہری حکمت عملی پر گامزن ہے اور جہاں فوجی اڈوں کے حصول میں مشکل ہورہی ہے وہاں کی قیادت واشنگٹن سے وفادار خصوصاً ورلڈ بینک اور IMF کے تربیت یافتہ افراد کے حوالے کررہا ہے۔
برطانوی استعمار کی ان کالے صاحب لوگوں نے بہترین حد تک خدمت کی جو مقامی آبادی ہی سے منتخب کئے گئے تھے۔ وہ لارڈ میکالے کے مقامی وفاداروں کے ٹھوس تصور کے مطابق تھے کہ بولیں تو آقائوں کی زبان بولیں اور سوچیں تو آقائوں کی طرح سوچیں اور سامراجی مفادات کو اسی طرح بلاجھجک آگے بڑھائیں جس طرح ان سے توقع رکھی گئی ہے۔ عالمی بینک اور IMF کے تربیت یافتہ افراد بھی اسی طرح ان داروں اور آقائوں کے اشاروں پر چلیں گے۔
ین دھارا جس سے بھارت کے مغرب سے خصوصاً امریکا سے تعلقات کا ایک نیا جھرنا پھوٹا ہے دو ماہ قبل ہی متحرک ہوا تھا جب من موہن سنگھ نے امریکا کا دورہ کیا تھا اور تمام تکلفات بالائے طاق رکھ دیئے گئے تھے۔ امریکیوں نے انہیں ایران کے خلاف اپنا گیم پلان پر عمل کروانے کے لیے بہکایا یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ جوہری تعاون کے پروگرام جو دو طرفہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور دوہرے استعمال کے قابل آلات سے مربوط ہے کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے گا۔ من موہن کے اس پیشکش سے منہ میں پانی بھر آیا اور بلاتردّد وہ اس پر ریجھ گئے ۔
ایک کانگریسی ٹام لینئوس جو ہائوس انٹرنیشنل ریلیشنز کمپنی کا ڈیموکریٹ ممبر بھی ہے اس راز سے پردہ ہٹایا جب اس نے ویانا میں بھارت کے مددگار ووٹ کے سلسلے میں ڈینگیں مارتے ہوئے کہا کہ بھارت سے امریکی تعاون ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کی حکمت عملی کو فروغ دے گا اور امریکی مفادات کے لیے مستقل تعاون کی فضاء پیدا کرے گا۔ لینئوس نے یہ حقیقت بھی بلاجھجک تسلیم کی کہ بھارت یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ہم اسے ایک مقام دیں گے وہ بھی اس صورت میں کہ وہ ہمارے مفادات کا خیال نہ کرے۔
بھارت واشنگٹن کی جانب سے حالیہ دبائو میں جانبر نہ ہوا اور محض اس دبائو سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے یہ ووٹ دے ڈالا۔ مگر اب یہ بھارت کی نئی پالیسی دیدہ ودانستہ کہلائے گی کہ بھارت کے جوہری مقاصد مغرب کی عالمگیر اسکیم کا حصہ بن گئے ہیں جس کے تحت پاکستان (جو ایٹمی کلب میں زبردستی داخل ہوگیا ہے اور اس کی یہ حرکت تقریباًناقابل برداشت ہے) علاوہ اب کسی مسلم ملک پر اس جوہری کلب کا دروازہ سختی سے بند ہوچکا ہے۔
اس خیال کو مزید تقویت اس وقت ملی جب بھارتی وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے اپنے کینیڈین ہم منصب پیئر پٹیگروکے ہمراہ ایک معاہدہ پر دستخط کئے جس میں جوہری تحفظ کے تعاون کا اعادہ کیا گیاہے اور ساتھ ہی بھارت کو اس کے پرامن جوہری تنصیبات کے لیے ’’دہرے استعمال کے قابل‘‘ آلات کی فراہمی کا وعدہ بھی شامل ہے۔
کینیڈا نے بھارت سے جوہری تعاون کا سلسلہ بند کر رکھا تھا جب بھارت نے پہلا جوہری بم کا دھماکہ کیا تھا ۔پھر کیوں کینیڈا جوہری میدان میں ۳۰ سال سے زیادہ کا عرصہ بھارت کے ساتھ نفرت انگیز تعلقات رکھنے کے بعد اچانک پلٹ گیا؟
کینیڈین دفتر خارجہ کے ایک سرکاری ترجمان نے کینیڈا کی اس عاجلانہ حرکت پر پردہ ڈالنا قبول نہ کیا اور پریس کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے تسلیم کیا کہ کینیڈا بھارت کے اس عمل سے متاثر ہے کہ اس نے کینیڈا‘ امریکا اور یورپی طاقتوں کے حق میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ جو انہوں نے نہیں کیا وہ یہ تھا کہ کینیڈا کے وزیراعظم واشنگٹن کو خوش کرنے کے لیے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے یہیں ممکن تھا کہ وہ جین کریشئن کے بش کے عراق میں مہم کے سلسلہ میں غیرجانبدار رہنے کے جرأت مندانہ اور اصولی موقف کی تلافی کرسکیں۔
پاکستان کو جو بیچ میں پھنس گیاہے کیا کرنا چاہئے؟ کچھ نہیں۔ اعصاب کی اس جنگ میں کوئی بہت سارے کارڈز کھیلنے کے لیے نہیں ہیں‘ حالانکہ اگر یہ معاہدہ ختم ہوتا ہے تو پاکستان پائپ لائن راہداری کی رائلٹی کی صورت میں ایک بڑی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
ایرانی پاکستان پر زیادہ بھروسہ نہیں کرتے خصوصاً پاکستان جب سے بش کی اندھی عقیدت میں افغانستان کے معاملہ میں اس کی گود میں جا بیٹھا تھا۔ یہ اس وقت شدید ہوگیا جب تہران مخالف طالبان حکومت سے اندرونِ خانہ تعلقات استوار کئے گئے۔ مگر پاکستان ایران کو نہایت نرمی اور سمجھداری سے یہ مشورہ دے سکتاہے کہ تہران کو ناقابلِ اعتبار بھارت سے خبردار رہنا چاہئے جو کبھی بھی مفادات کی پکار پر ایران کی پیٹھ میں خنجر پیوست کرسکتا ہے۔ دہلی کے ساتھ سرد مہرانہ کاروباری معاملے کے علاوہ کسی جوش و خروش کا مظاہرہ کرنا اپنے لیے مسائل پیدا کرنا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ڈان ۔ کراچی)
Leave a Reply