
پاکستان کے ۶۸ سالہ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں معروف جرمن جریدے ’’ڈیر اسپیگل’’ (Der Spiegel) کو خصوصی انٹرویو دیا۔ ڈیر اسپیگل کی نمائندہ Susanne Koelbl کو دیے گئے اس انٹرویو میں انہوں نے عالمی سیاست میں پاکستان کے کردار، چینی قیادت کے لیے اپنی پسندیدگی اور متعدد معاملات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی مماثلت پر کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔
عمران خان کسی زمانے میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے اور ان کا ایک امیج پلے بوائے کا بھی تھا۔ انہوں نے کم و بیش دو عشروں کی محنت کے نتیجے میں خود کو ایک مخلص اور آمادہ بہ کار سیاست دان میں تبدیل کیا ہے۔ وہ بیک وقت کئی بحرانوں اور چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت اس وقت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ اپوزیشن عمران خان اور فوج کے خلاف متحد ہوچکی ہے۔ اس وقت پاکستانی حکومت امریکی اسٹیبلشمنٹ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہی ہے۔ کئی پرتشدد واقعات کے باعث امریکا طالبان مذاکرات میں کئی بار رخنہ پڑا ہے۔ ایسے میں عمران خان کو سکون کا سانس فراہم کرنے کا موقع دینے والی واحد بڑی حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھلے ہی کورونا وائرس سے غیر معمولی حد تک پریشان ہوئی ہو، پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد خاصی حوصلہ افزا حد تک کم رہی ہے۔ آپ سے کیا گیا انٹرویو پیش خد مت ہے:
ڈیراسپیگل: پاکستان کی آبادی کم و بیش ۲۲ کروڑ ہے مگر کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ۶۷۰۰ ہے۔ پڑوس میں تو بہت زیادہ ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں۔ پاکستان ایسا کیا کر رہا ہے جو مختلف ہے اور کورونا وائرس سے دفاع کے معاملے میں اتنے حوصلہ افزا نتائج دے رہا ہے؟
عمران خان: پاکستان میں کم و بیش نصف آبادی یومیہ اجرت کی بنیاد پر جی رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمیں اسمارٹ لاک ڈاؤن متعارف کرانا پڑا۔ ہم صرف وہیں لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہیں جہاں ہمیں غیر معمولی تعداد میں کیس سامنے آنے کا خدشہ ہو۔ ہم نے سپلائی لائنز کبھی بند نہیں کیں۔ ہم نے زرعی شعبے کو بند کیا ہی نہیں اور جیسے ہی معاملات بہتر ہوئے، صنعتی شعبے کو بھی کھول دیا۔ ہم نے تعمیراتی شعبہ کھولنے میں بھی دیر نہیں لگائی۔ شہری علاقوں میں یہ شعبہ لوگوں کو بہت بڑے پیمانے پر روزگار کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہماری معیشت بالکل بیٹھ نہیں گئی۔ بھارت کی حکومت نے انتہائی افلاس زدہ طبقے کو گھروں تک محدود رکھا۔ یہ مکمل لاک ڈاؤن تھا جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے۔ ایران کی طرح اب بھارت میں بھی افلاس کا گراف بلند ہوگیا ہے۔ مکمل لاک ڈاؤن کا یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔
ڈیراسپیگل: ہر ہفتے کتنے لوگوں کا کورونا ٹیسٹ کیا جاتا ہے؟ کیا آپ کی حکومت ملک بھر میں کورنا وائرس کی وبا کے حوالے سے مکمل صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے؟
عمران خان: ہر ہفتے کم و بیش ایک لاکھ ۸۰ ہزار سے ۲ لاکھ افراد کا کورونا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ ہماری قومی سطح کی رابطہ کمیٹی اس حوالے سے اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ حکومت کورونا وائرس پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے۔ جون میں دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا نے انتہائی خطرناک شکل اختیار کی تھی مگر ہمارے ہاں صورتِ حال حوصلہ افزا تھی۔ اموات میں بھی کمی واقع ہوئی۔ یہ سلسلہ اگست تک جاری رہا۔ ہمیں امید ہے کہ ہم کورونا کی وبا کی دوسری لہر کا بھی عمدگی سے سامنا کرنے میں کامیاب رہیں گے۔
ڈیراسپیگل: امریکا میں صدارتی انتخاب ہونے والا ہے؟ آپ کے خیال میں کس کی فتح کا امکان زیادہ ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کا یا جو بائیڈن کا؟
عمران خان: رائے عامہ کے جائزوں میں سابق نائب صدر جو بائیڈن آگے ہیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کچھ بھی پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ وہ عام سیاست دانوں سے ہٹ کر ہیں اور اپنے طے کردہ اصولوں کے مطابق کھیلتے ہیں۔
ڈیراسپیگل: ایسا لگتا ہے کہ آپ انہیں پسند کرتے ہیں؟
عمران خان: میں نے پاکستانی سیاست میں اپنی پارٹی (پاکستان تحریکِ انصاف) متعارف کرائی اور ۲۲ سال کی مدت میں اسے ملک کی سب سے بڑی پارٹی میں تبدیل کیا ہے۔ میں بھی روایتی ڈگر سے ہٹ کر بہت کچھ سوچتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر انحصار پذیر ہونے میں بھی ہم نے پہل کی اور نوجوانوں کو سیاسی جلسوں اور جلوسوں کی طرف لانے میں بھی ہم نے نہ صرف پہل کی بلکہ کامیابی بھی حاصل کی۔
ڈیراسپیگل: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ میں اور ڈونلڈ ٹرمپ میں بہت سی باتیں ملتی جلتی ہیں؟
عمران خان: ہمیں چند ایک معاملات میں غیر روایتی ہونا ہی تھا تاکہ ہم دوسروں سے مختلف اور بہتر دکھائی دیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔
ڈیراسپیگل: آپ کس کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟
عمران خان: ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے معاملے میں امریکا ہم سے برابری کا سلوک کرے اور جہاں بھارت کے خلاف بولنا لازم ہو وہاں وہ ہمارے موقف کی تائید کرے، بالخصوص مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے۔ خطے میں غیر معمولی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ یہ کشیدگی کسی بھی وقت انتہائی خطرناک شکل اختیار کرسکتی ہے، دھماکا خیز ثابت ہوسکتی ہے۔ امریکا میں خواہ کوئی صدر بنے، وہ چونکہ طاقتور ترین ملک ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے مقابلے میں بھارت کو بے جا طور پر ترجیح نہ دے، معاملات برابری کی سطح پر رکھے۔ امریکا کی سوچ یہ ہے کہ اگر وہ بھارت کو نوازے گا تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ چین کو کنٹرول کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوگی۔ یہ سوچ اصلاً غلط ہے۔ بھارت اب بھی پاکستان، چین، بنگلادیش اور سری لنکا کے لیے خطرہ ہے۔ برصغیر میں سب سے زیادہ انتہا پسند اور نسل پرست حکومت بھارت میں ہے۔ بھارت ہر اعتبار سے ایک فاشسٹ ریاست ہے، جس نے ۱۹۲۰ء اور ۱۹۳۰ء کے عشروں میں پروان چڑھنے والے نسل پرستانہ نظریے ’نازی ازم‘ سے تحریک پائی ہے۔
ڈیراسپیگل: یہ تو انتہائی درجے کا موازنہ ہے۔ کہیں آپ مبالغہ آرائی تو نہیں کر رہے؟
عمران خان: بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے۔ یہ انتہا پسند جماعت ہے۔ اس کی نظریاتی اساس راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ہے۔ اس انتہا پسند تنظیم نے اپنی تحریروں میں جرمن نازی آمر ایڈولف ہٹلر کو کھل کر سراہا ہے۔ جرمن نازیوں کو یہودیوں سے نجات پانے کا جنون تھا اور آر ایس ایس چاہتی ہے کہ بھارت کو مسلمانوں سے نجات مل جائے۔
ڈیراسپیگل: آپ نے کئی مواقع پر کہا ہے کہ واشنگٹن نے پاکستان کو ایک بے سمت جنگ میں خواہ مخواہ گھسیٹا۔ کیا آپ اس کی توضیح کریں گے؟
عمران خان: امریکا میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں محکمہ دفاع پر ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو ہونے والے حملوں سے پاکستان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ القاعدہ افغانستان میں بہت پہلے سے تھی۔ نائن الیون کے بعد ہمیں اپنی فوج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملوث نہیں ہونے دینا چاہیے تھا۔ امریکا کے دباؤ کے آگے پرویز مشرف نے گھٹنے ٹیک دیے۔ میں اس جنگ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے خلاف روزِ اول سے تھا۔
ڈیراسپیگل: تب طالبان کو پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل تھی۔ اسامہ بن لادن کو باضابطہ طور پر بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیا جاچکا تھا اور طالبان اس کی میزبانی کر رہے تھے۔
عمران خان: یہ بات نہ بھولیے کہ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں اسامہ بن لادن ہیرو تھا۔ اس نے افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف جاری جنگ میں مجاہدین کی بھرپور مدد کی تھی۔ تب اسامہ بن لادن کو سی آئی اے اور پاکستان دونوں کی حمایت حاصل تھی۔
ڈیراسپیگل: یہ تو نائن الیون سے بہت پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد تو بہت کچھ تبدیل ہوچکا تھا۔
عمران خان: طالبان کو تسلیم کرنا پاکستان کا حق تھا، مگر خیر ان پر پاکستان کا کنٹرول نہیں تھا۔ جب پاکستان نے طالبان سے کہا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کریں تو انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
ڈیراسپیگل: طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے حال ہی میں امریکی صدر نے آپ کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے طالبان سے قریبی روابط نہیں ہیں تو پھر آپ ایسا کرنے میں کیونکر کامیاب ہوئے؟
عمران خان: پاکستان میں کم و بیش ۲۷ لاکھ افغان پناہ گزین مقیم ہیں۔ اس حوالے سے ہماری کچھ تو بات بنتی ہے۔ اس قوت کو ہم ضرورت پڑنے پر استعمال کرتے ہیں۔ میں اس بات سے بہت خوش ہوں کہ ہماری کوششوں سے طالبان امریکا سے بات چیت کرنے پر آمادہ ہوئے۔
ڈیراسپیگل: ایسا لگتا ہے کہ امریکا سے امن معاہدہ کرنے کے بعد طالبان کابل حکومت کے خلاف عسکری فتح کے بہت نزدیک ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ حکومتی نمائندوں سے گفت و شنید کا تاثر بھی دے رہے ہیں۔ کیا افغانستان ایک بار پھر سفاک بنیاد پرستوں کے ہاتھوں قائم ہونے والی آمریت سے بہت قریب ہے؟
عمران خان: میرا خیال ہے اس وقت کوئی بھی افغانستان کے بارے میں پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہاں حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ جسے امن کی ضرورت ہے وہ پاکستان ہے۔ ہم اس قضیے میں ۷۰ ہزار جانیں گنوا چکے ہیں۔ گزشتہ ۱۵ برس میں افغانستان سے ملحق ہمارے قبائلی علاقے تباہ ہوچکے ہیں۔ ان علاقوں کی نصف سے زائد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ یہ تعداد پندرہ لاکھ ہے۔ ہم نے جب سے حکومت قائم کی ہے، بات چیت پر زور دیتے آئے ہیں۔
ڈیراسپیگل: آپ نے حال ہی میں افغانستان کے ایک معروف مجاہد رہنما گلبدین حکمت یار کا خیر مقدم کیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آپ نے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد افغانستان میں اقتدار کی تقسیم کے حوالے سے گلبدین حکمت یار سے بات چیت کی۔ آپ نے گلبدین حکمت یار کو کیا مشورہ دیا؟
عمران خان: گلبدین حکمت یار نے افغانستان کے انتخابات میں حصہ لیا اور وہ افغانستان کے آئین کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔
ڈیراسپیگل: یہ بات تسلیم کرنا بہت مشکل ہے؟
عمران خان: گلبدین حکمت یار سے بات چیت کرنے سے قبل میں نے افغانستان میں قومی مصالحت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سے بات کی۔ افغانستان میں کوئی بھی ہمارا فیورٹ نہیں۔ ہمارا واحد مفاد اس بات میں ہے کہ اب افغانستان میں جو بھی حکومت تشکیل پائے وہ بھارت کو پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ کرنے دے۔
ڈیراسپیگل: پاکستان پر الزام ہے کہ وہ کئی سال سے ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ ایک طرف تو وہ (مقبوضہ) کشمیر میں عسکریت پسندوں کو استعمال کر رہا ہے اور دوسری طرف طالبان کے ذریعے بھارت کو افغانستان سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نوعیت کے الزامات پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟
عمران خان: بدنصیبی کی بات ہے کہ پاکستان کا یہی امیج قائم کردیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں شروع ہوا یعنی ایران میں انقلاب کے برپا ہونے کے بعد۔ مغرب میں بہت سوں نے معاملات کو یوں دیکھنا شروع کیا کہ مسلم دنیا میں لبرل اور رجعت پسند تفریق ہے۔ یہ سراسر مصنوعی تجزیہ تھا۔ مسلم معاشرے باقی دنیا سے مختلف یا منفرد نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں معاشرے اعتدال پسندوں کی اکثریت پر مشتمل ہیں۔ مسلم معاشروں کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔
ڈیراسپیگل: بہت جلد ایک ایسا قانون نافذ کیا جانے والا ہے، جس کے تحت فوج پر تنقید کرنا غیر قانونی قرار پائے گا۔ کیا اسے پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی کا خاتمہ سمجھا جائے؟
عمران خان: کسی بھی مغربی ملک کے مقابلے میں پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی زیادہ ہے۔ میں لفظ آزادی بہت احتیاط سے استعمال کر رہا ہوں کیونکہ میں نے برطانیہ میں تقریباً دو عشرے گزارے ہیں۔ وہاں کچھ بھی ایسا ویسا کہنے کی اجازت نہیں۔ وہاں ہتکِ عزت سے متعلق قوانین بہت سخت ہیں۔ میں نے ایک انگریز کرکٹ اسٹار کے خلاف ہتکِ عزت کا مقدمہ جیتا تھا۔ پاکستان میں اس نوعیت کے قوانین نافذ نہیں۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے مجھ پر بہت زیادہ ہتک آمیز انداز سے تنقید کی جاتی ہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے بھی میں انصاف حاصل نہیں کرسکتا۔
ڈیراسپیگل: نیا قانون تو صرف قومی سلامتی کے اداروں کو کور کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ معاملہ سچائی کو بیان کرنے سے زیادہ اس بات کا ہے کہ فوج کس بات کو ہتک آمیز تصور کرتی ہے۔
عمران خان: تنقید صرف اس صورت میں برداشت کی جائے گی جب وہ صداقت اور حقائق پر مبنی ہو۔ ہماری سیکورٹی فورسز لڑائی میں روزانہ قیمتی جانیں کھو رہی ہیں۔ ہر ملک اپنے اہم ترین اداروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اس وقت نہیں جب وہ کچھ غلط کر رہے ہوں، بلکہ اس وقت جب انہیں کسی نہ کسی حوالے سے نشانہ بنایا جارہا ہو۔
ڈیراسپیگل: نیا قانون مستقبل میں صحافیوں کے لیے فوج سے متعلق کچھ بھی رپورٹ کرنا کم و بیش ناممکن بنادے گا؟
عمران خان: سیکیورٹی فورسز کے معاملات سے نمٹنے کا دوسرا طریق کار ہوگا۔ میڈیا کے بجائے حکومتی سطح پر یہ معاملات نمٹائے جائیں گے۔ اگر میں کچھ غلط محسوس کروں گا تو آرمی چیف سے بات کروں گا۔ فوجی کارروائیوں میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں اور جب بھی ایسا کچھ ہوتا ہے، ہم بات کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ سرعام نہیں ہوسکتا۔ جب سپاہی اپنی زندگی داؤ پر لگا رہے ہوں تب ان پر سرعام تنقید نہیں کی جاسکتی۔
ڈیراسپیگل: مشرقِ وسطیٰ اس وقت غیر معمولی تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہا ہے۔ یمن، شام اور دیگر مقامات پر سعودی عرب اور ایران اپنے اپنے گروپس کے ذریعے ملوث ہیں۔ آپ نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلافات کم کرانے سے متعلق ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ اس حوالے آپ کچھ پیش رفت دیکھ رہے ہیں؟
عمران خان: جب میں نے اقتدار سنبھالا تھا تب یمن کے قضیے میں ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ وہاں بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی بہت بڑے پیمانے پر کی جارہی ہیں۔ میں نے اس حوالے سے ایران سے بھی بات کی اور سعودی عرب سے بھی۔ اگر کوئی بات چیت کے لیے آمادہ نہ ہوتو اسے دباؤ ڈال کر امن مذاکرات پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا۔
ڈیراسپیگل: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ریاض اور تہران کبھی براہِ راست جنگ تک جائیں گے؟
عمران خان: ایسی کوئی بھی صورتِ حال انتہائی تباہ کن ثابت ہوگی۔ یہ کئی ممالک کے لیے بہت بڑا المیہ ثابت ہوگا، بالخصوص پس ماندہ ممالک کے لیے کیونکہ سعودی عرب اور ایران کی جنگ کی صورت میں تیل کے نرخ غیر معمولی حد تک بڑھ جائیں گے۔
ڈیراسپیگل: متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کرکے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ سعودی عرب بھی بظاہر تیاری کرچکا ہے۔ کیا اس کے بعد پاکستان کی باری ہے؟
عمران خان: ہر ملک خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنی ترجیحات رکھتا ہے۔ کسی بھی بڑے قومی فیصلے کے لیے عوام کی رائے بھی دیکھنا پڑتی ہے۔ بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے ۱۹۴۰ء کے عشرے میں فلسطین کی صورتِ حال اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی بات کی تھی۔ قائد اعظمؒ کا موقف آج بھی غیر متعلق نہیں اور ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جب تک مسئلہ فلسطین منصفانہ طور پر حل نہیں کرلیا جاتا، ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتے۔
ڈیراسپیگل: آپ نے چین میں ایک پارٹی کی حکومت پر مبنی نظام کو بارہا سراہا ہے اور پاکستان کے لیے اسے ایک اچھا معاشی ماڈل قرار دیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
عمران خان: جو کچھ چین نے حاصل کیا ہے وہ واقعی غیر معمولی ہے۔ میں چینی قیادت کو سراہتا ہوں کیونکہ انہوں نے کم و بیش ۷۰ کروڑ افراد کو افلاس کے دائرے سے نکالا ہے اور یہ سب کچھ محض ۴۰ سال میں ہوا ہے۔ میں پاکستان میں بھی ایسا ہی ماڈل چاہتا ہوں تاکہ لوگ افلاس سے نجات پائیں۔ انتخابی سیاست نہ ہونے کے باوجود چین کا نظام بہترین لوگوں کو اوپر لارہا ہے، انہیں بہت کچھ کرنے کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ یہ نظام میرٹ کی قدر دانی پر مبنی ہے۔ جس میں صلاحیت ہوتی ہے اسے آگے آنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ میں دیکھ چکا ہوں کہ کمیونسٹ پارٹی کس طور باصلاحیت افراد کو شناخت کرکے صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ مزید برآں، چین نے سات سال کے دوران وزیر کی سطح کے ۴۵۰؍اعلیٰ افسران کو بدعنوانی میں ملوث ہونے کی بنیاد پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا ہے۔
ڈیراسپیگل: اس سے آپ کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟
عمران خان: کوئی بھی ملک محض اس لیے افلاس زدہ نہیں ہوتا کہ اس کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ قیادت میں جب بدعنوانی پنپ چکی ہو تب ملک غربت کی چکی میں پستا ہے، ترقی نہیں کر پاتا۔ پانامہ پیپرز سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بات ہمارے ملک پر بھی صادق آتی ہے۔ اس ملک سے کروڑوں ڈالر بدعنوانی کے ذریعے بٹور کر لندن جیسے شہروں کے مہنگے ترین علاقوں میں املاک خریدنے پر صرف کیے گئے۔
ڈیراسپیگل: ان میں سے چند سیاست دان آپ کو اور آپ کی جماعت کو اقتدار سے دور کرنے کے لیے ایک ہوگئے ہیں۔ کیا آپ ان سے خوف محسوس کرتے ہیں؟
عمران خان: بالکل نہیں۔ مجھے اندازہ تھا کہ ایسا ہوگا۔ یہ سب کچھ میرے لیے حیرت انگیز نہیں۔ وہ اپنے خلاف کرپشن کیسز کے خاتمے کے لیے مجھے بلیک میل کرنا چاہتے تھے۔ میں کسی بھی طور ان کے دباؤ کے آگے نہیں جھکوں گا۔ ہمیں ملکی تاریخ میں سب سے بڑے تجارتی خلا یا خسارے کا سامنا ہے۔ ہماری درآمدات ۶۰ ارب ڈالر کی تھیں جبکہ برآمدات صرف ۲۰ ارب ڈالر کی۔ روپے کی قدر کو گراوٹ کا سامنا ہے۔ افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ہمیں ایندھن درآمد کرنا پڑتا ہے اور اس کے نرخ بڑھتے جارہے ہیں۔ بجلی سمیت ہر چیز مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ ہمیں اپنی آمدنی بڑھانی ہے۔ اس کے لیے ٹیکس بیس بھی وسیع کیا جارہا ہے۔ ہم تکلیف دہ اصلاحات کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور ایسے میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین ایک ہوگئے ہیں۔ وہ اس لیے پریشان ہیں کہ اگر ہم نے معاشی معاملات کو درست کرلیا تو یہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے کیونکہ ان پر بڑے پیمانے کی بدعنوانی کے مقدمات چلائے جارہے ہیں۔
ڈیراسپیگل: آپ نے حال ہی میں (تیسری) شادی کی ہے۔ بشریٰ بی بی روحانی شخصیت ہیں۔ آپ ان سے سیاسی معاملات پر مشاورت کرتے ہیں؟
عمران خان: کوئی بے وقوف ہی اپنی بیوی سے تمام معاملات پر بات نہیں کرتا۔ میری اہلیہ میں غیر معمولی ذہانت ہے۔ میں اپنی حکومت کو درپیش پیچیدہ صورتِ حال سمیت تمام اہم معاملات پر اہلیہ سے مشورہ کرتا ہوں۔ وہ میری ساتھی ہیں۔ ان کے بغیر میں شاید بقا کے مسئلے سے دوچار ہوتا۔
(“spiegel.de”. Oct. 30, 2020)
Leave a Reply