مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ایک ہفتے کو خونیں ہفتہ کہا جا سکتا ہے۔ گزشتہ پیر کے روز بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپوں میں ۱۷ افراد شہید ہوئے جن میں پولیس کے ہاتھوں ایک کمسن لڑکے کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک ۱۰۰ سے زائد افراد بھارتی مسلح افواج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ شہید ہونے والے زیادہ تر نوجوان ہیں جن میں بہت سے بچے بھی شامل ہیں۔ جو صرف پتھروں سے ’’مسلح‘‘ ہوتے ہیں اور وہ دنیا میں عوام پر مسلط سب سے زیادہ فوج کے اس علاقے میں آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
متنازع علاقے میں یہ شورش گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے جو سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج کی موجودگی میں علیحدگی کی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر جہاں آبادی کے تناسب میں مسلمانوں کی اکثریت ۹۷ فیصد ہے کے تمام بڑے شہروں میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو لگا ہوا ہے اور وسیع گرفتاریوں، مارپیٹ، اذیتوں اور حکام کی طرف سے بعض شہریوں کو ’’غائب‘‘ کر دینے کی وجہ سے لاکھوں کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔
گزشتہ بدھ کو بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی طرف سے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کل جماعتی کانفرنس کی ناکامی کے بعد علیحدگی پسند لیڈر سید علی گیلانی نے اب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی اڈوں پر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے اور ظاہر ہے کہ فوج کی طرف سے اس اقدام کا سخت جواب دیا جائے گا۔
اعتدال پسند علیحدگی کے حامی لیڈر یہ خیال کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت ان کے ساتھ بامقصد بات چیت کرنے میں ناکام ہے۔ چیئرمین کل جماعتی حریت کانفرنس میر واعظ عمر فاروق کا کہنا ہے ’’بھارت بندوق کی نوک دکھا کر بات چیت کرنا چاہتا ہے‘‘۔
۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد کشمیر پاک بھارت تعلقات میں ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے جس سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان دو جنگیں ہو چکی ہیں اور ایٹمی ہتھیار رکھنے والے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار پھر تصادم کا خطرہ ہے۔ ۱۹۸۹ء میں بغاوت کے بعد یہاں بھارت کی جمہوریت کی ساکھ بھی آزمائی جاچکی ہے جبکہ بھارت نے انتخابات میں دھاندلیاں کیں اور آزادی کی جدوجہد کرنے والے جہادیوں کے خلاف بھارتی فوج کی کارروائیوں سے اب تک ۴۷ ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں۔
تاہم کشمیریوں کو شکایت ہے کہ ان کی جدوجہد پر دنیا توجہ نہیں دے رہی۔ ان کی حالتِ زار کو نظرانداز کیا جارہا ہے جس کی بڑی وجہ بھارت کی جغرافیائی لحاظ سے اسٹریٹجک پوزیشن کی بناء پر اس کو مطمئن رکھنا ہے۔ اگرچہ موجودہ مظاہروں کی بڑی وجہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ ہے جس کے تحت فوج کو کسی بھی شخص کو گولی مارنے، گرفتار کرنے یا حراست میں لینے کا اختیار ہے اور امریکا میں قرآن کریم کی بے حرمتی کی خبریں ہیں، مگر ان سے بھارت سے علیحدگی کی تحریک کو فروغ ملتا بھی نظر آتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیر ان سینکڑوں ریاستوں میں سے ایک ریاست تھا جنہیں برطانیہ کی طرف سے یہ اختیار ملا تھا کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔ کشمیر پر ایک ہندو مہاراجہ ہری سنگھ حکمران تھا جس نے خود مختار رہنے کو ترجیح دی۔ مگر جب وادی میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی اور پٹھان قبائلیوں نے کشمیریوں کی مدد شروع کر دی تو ہری سنگھ نے بھارت سے مدد مانگ لی۔ کشمیر پر پاکستان بھی دعویٰ کرتا رہا۔ جس کی وجہ سے بھارت نے اقوام متحدہ سے ثالثی کرنے کے لیے کہا۔ اقوام متحدہ نے استصواب رائے کرانے کی قرارداد منظور کی کہ کشمیری خود فیصلہ کریں کہ وہ کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے اصرار پر کشمیری خود مختاری کو آپشن نہ بنایا گیا اور استصواب رائے ابھی تک نہیں ہو سکا۔ اب متنازع سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے دونوں عظیم ہمسایوں کو علیحدہ کرتی ہے۔
مگر یہ مسئلہ ختم نہیں ہوا۔ گزشتہ ہفتے اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ نے رائے شماری کرائی تو معلوم ہوا کہ مقبوضہ کشمیر کی دو تہائی آبادی آزادی چاہتی ہے۔ تاہم دس میں سے ایک سے بھی کم پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ سروے سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ ہندو اکثریت کے علاقے جموں کی آبادی اور لداخ کے بیشتر بدھ ازم کے پیروکار آزادی کے حق میں نہیں۔ اس کے باوجود دہلی حکومت کا موقف اسی طرح قائم ہے کہ مسلمان اکثریت کی ریاست کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
بھارت کی ملکی سیاست میں یہ بہت زیادہ حساس مسئلہ ہے۔ دائیں بازو کی ہندو اپوزیشن بی جے پی کشمیر میں فوج کے اختیارات میں کمی کرنے یا علیحدگی پسندوں کو کوئی رعایت دینے کے سخت مخالف ہے۔ تقریباً دو لاکھ ہندو جو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہ رہے تھے۔ ۹۰۔۱۹۸۹ء میں جہادیوں کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر بھارت چلے آئے۔ جس کی وجہ سے ہندو انتہا پسندوں کو شہ ملی اور انہوں نے بھارت کے ۱۵ کروڑ مسلمانوں سے انتقام لینا شروع کر دیا۔
بھارت کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، یہاں ہمیشہ مختلف نسلی اور لسانی گروہ آباد رہے ہیں۔ مگر جو بات قابل ذکر ہے وہ اس کا مستحکم جمہوری نظام ہے۔ یہ خطے کی سیکوریٹی اور امن کا ایک اہم ستون ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس پر بدنامی کا ایک داغ بھی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں فوج کے ذریعے عوام کو دبایا جارہا ہے۔ جبکہ فوج مکمل طور پر کنٹرول سے باہر نظر آتی ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ دہلی خود اپنے پُل جلا رہا ہے۔ صدر منتخب ہونے سے ایک ماہ پہلے بارک اوباما نے اعلان کیا تھا کہ ’’کشمیر بحران‘‘ کا حل ان کے ’’اہم کاموں‘‘ میں شامل ہے۔ مگر مغرب اس مسئلے کو نظرانداز کر رہا ہے اور وہ عراق، افغانستان اور دوسری جگہوں پر پھنسا ہوا ہے۔
(بشکریہ: ’’آئرش ٹائمز‘‘۔ ترجمہ: ریحان قیوم)
Leave a Reply