
صبح طلوع ہونے سے قبل ۲ جنوری ۲۰۱۶ء، بھاری ہتھیاروں سے لیس چھ دہشت گرد پاکستانی سرحد سے قریب بھارتی پنجاب میں واقع پٹھان کوٹ ائیر فورس بیس پر حملہ آور ہوئے۔ حملے کے بعد بھارتی صحافیوں، تجزیہ کاروں اور حکام نے مرنے والے سات سکیورٹی اہلکاروں کی بہادری کو سراہتے ہوئے یہ بحث چھیڑ دی کہ پاکستان کے ساتھ کس طرح نمٹا جائے، کیونکہ بھارتی حکام کے خیال میں حملہ آور وہیں سے آئے تھے۔ البتہ انہوں نے ایک نسبتاً تکلیف دہ موضوع پر بھی بات کی: یعنی حملے سے نمٹنے میں بھارت کی ناکامی۔
پٹھان کوٹ سے جڑے سوالات کو جتنا پھیلائیں، یہ اتنے ہی پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں۔ خاص طور پر یہ سوال کہ ایک سے زائد مسلح افراد ملک میں داخل کیسے ہوئے اور اتنی دیر تک ایسی حساس جگہ پر کس طرح گھومتے رہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی موجودگی سے باخبر بھی تھے؟ ایک مبصر نے بتایا کہ کارروائی سے قبل حملہ آور ’’ایک اغوا شدہ گاڑی میں ۱۵؍گھنٹے سے زائد تک پنجاب میں گھومتے رہے، حالانکہ گاڑی چِھننے کی اطلاع حکام کے پاس تھی کیونکہ وہ ایک افسر کی گاڑی تھی‘‘۔ اس کے علاوہ، چھ مسلح افراد بغیر کسی مزاحمت کے اس قدر محفوظ مقام تک کیسے پہنچ گئے؟ اور ایک مقامی سطح کے آپریشن کو مکمل ہونے میں اتنے دن کیوں لگ گئے؟
واقعے کے بعد بھارت کے کچھ فیصلے اور اقدامات خاص طور پر جواب طلب تھے۔ ’’دی ہندو‘‘ اخبار کے مطابق پٹھان کوٹ کے قریب ہی ہزاروں فوجی جوانوں کی موجودگی کے باوجود، حکومت نے دہلی سے نیشنل سکیورٹی گارڈ (NSG) کو بلوانے کا فیصلہ کیا جو کارروائی کی قیادت کے لیے ۲۶۵ میل کا فضائی راستہ طے کرکے پہنچے۔ این ایس جی ایک خصوصی دستہ ہے مگر جغرافیائی ناواقفیت اور ساز و سامان سے محرومی کے باعث پٹھان کوٹ میں یہ زیادہ کارگر ثابت نہ ہوسکا (اس کے اہلکاروں کے پاس رات میں دیکھنے والے بنیادی آلات تک موجود نہ تھے)۔ این ایس جی کارروائی کی قیادت کرنے والے تین دستوں میں سے ایک تھا۔ دوسرے کا نام ڈیفنس سکیورٹی کور ہے جس کے ارکان کے بارے میں ایک دفاعی تجزیہ کار نے کہا (جو شاید بالکل درست نہ ہو) کہ وہ ’’ریٹائرڈ اور جوش و جذبے سے محروم‘‘ اہلکار ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی تربیت سے محروم ان اہلکاروں کے پاس معمولی نوعیت کی روایتی رائفلوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔
یقیناً بھارت کے ردعمل کو مکمل طور پر ناکام بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ کچھ بنیادی اعتبار سے تو یہ بہت بڑی کامیابی تھا مثلاً: کسی شہری کی ہلاکت نہیں ہوئی، اور فضائی اڈّے میں موجود عسکری تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ایک تجزیہ کار کا مؤقف تھا کہ کارروائی میں طوالت نااہلی یا سست روی کی وجہ سے نہیں پیدا ہوئی، بلکہ مزید جانی نقصان سے بچنے کے لیے محتاط انداز اختیار کیا گیا۔ پھر بھی بھارتی ردعمل نقائص سے پاک ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ نے ’’منصوبہ بندی، کمان، تربیت اور ساز و سامان کے حوالے سے جھول‘‘ ڈھونڈ نکالے۔ کچھ اور لوگوں نے اسے سنگین حادثے (Debacle) سے تعبیر کیا۔ حتیٰ کہ بھارتی وزیر دفاع نے بھی ردعمل میں مسائل کا اعتراف کیا۔
نئی دہلی کے لیے آنے والے دنوں میں بڑا سوال سفارتی نوعیت کا ہے: یعنی کیا اسے پاکستان کے ساتھ حال ہی میں دوبارہ شروع کے گئے جامع مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا چاہیے؟ لیکن اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اپنی انسداد دہشت گردی کی استعداد کو بڑھانے کے لیے بھارت کو کیا کرنا چاہیے۔ اسلام آباد کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت کچھ بھی ہو، آنے والے مہینوں میں مزید دہشت گردانہ حملے، اگر ناگزیر نہیں تو عین ممکن ضرور ہیں۔
یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی ہو، تب بھی اور سرد مہری ہو، تب بھی بھارت میں دہشت گردی یکساں طور پر ہوتی رہی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ممبئی حملے اس وقت ہوئے جب کشمیر پر پس پردہ بات چیت کو شروع ہوئے ایک سال، اور باہمی تجارت کے نئے راستوں کو کُھلے چند ہفتے ہی ہوئے تھے۔ اس کے برعکس گزشتہ جولائی میں جب دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور الزام تراشی کا کھیل جاری تھا، مسلح افراد نے پنجاب ہی میں پٹھان کوٹ سے تقریباً ۲۰ میل دور گورداس پور میں ایک بس اور پولیس اسٹیشن پر حملہ کردیا تھا۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۵ء کے دونوں حملوں کے پیچھے بھارت مخالف پاکستانی دہشت گرد گروپ، لشکر طیبہ کا ہاتھ تھا، جس کے پاکستانی سکیورٹی اداروں کے ساتھ روابط ہیں۔ ان واقعات کو دہشت گردی کی ان کارروائیوں سے الگ سمجھنا چاہیے جن میں بھارت کے اندرونی گروہ ملوث تھے، مثلاً ۲۰۱۱ء میں ممبئی میں حملہ اور ۲۰۱۰ء میں پونے شہر کی ایک جرمن بیکری میں دھماکا، جن کے الزامات انڈین مجاہدین نامی گروپ پر لگائے گئے (جس بارے میں گمان ہے کہ اس کے لشکر طیبہ سے تعلقات ہیں)۔
بھارت میں دہشت گردی کے مسلسل خطرے اور ۲۰۱۶ء میں مزید حملوں کے امکانات کو بہت سے عوامل بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ افغانستان سے اب بین الاقوامی فوجیں واپس جارہی ہیں۔ اس سے ان فوجوں کے خلاف لڑائی میں طالبان کی مدد کرنے والے (لشکر طیبہ جیسے) گروپوں کو اپنی سرگرمیوں کا ہدف دوبارہ بھارت کو بنانے کا موقع ملے گا۔
ایک اور بات، جو شاید پہلی بات سے منسلک ہے، وہ گزشتہ برسوں میں خاموش رہنے والے بہت سے بھارت مخالف عسکری رہنماؤں کا دوبارہ بتدریج منظر عام پر آنا ہے۔ اس کی ایک مثال مسعود اظہر کا وہ ریکارڈ شدہ پیغام ہے جو پاکستان میں ایک ریلی کے دوران سنایا گیا۔ اس کے بعد سے بھارتی حکام مسعود اظہر کو پٹھان کوٹ حملے کا روح رواں قرار دینے لگے۔ دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کرسمس کے دن مودی کے اچانک دورۂ پاکستان اور پھر دونوں ملکوں کی جانب سے باضابطہ مذاکرات پر آمادگی کے بعد پاکستانی حساس ادارہ بھارت کے ساتھ امن کے امکانات کو معدوم کرنے کے لیے جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسے گروپوں کو بھارت میں حملے کرنے کی ہدایات دے سکتا ہے۔
دہشت گردی کے جنوبی ایشیائی منظرنامے پر ابھرنے والے نئے کردار بھی بھارت میں مزید حملوں کا خطرہ ابھارتے ہیں۔ بھارت کو چھوڑ کر پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش میں حملوں کی ذمہ داری لینے والی داعش، القاعدہ برصغیر سے کم درجے کا خطرہ ہے۔ گوکہ مؤخر الذکر کا بھونکنا اس کے کاٹنے سے زیادہ خطرناک رہا ہے، لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس گروہ کے سرغنہ عاصم عمر کے پروپیگنڈے کا مرکز بھارت رہا ہے۔
درحقیقت بھارت کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، پھر بھی کچھ لوگوں کے پاس بہتر تجاویز ہیں کہ کس طرح اس کی انسدادِ دہشت گردی کی استعداد کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا کوئی آسان حل دستیاب نہیں ہے اور امریکا سمیت بہت سے ملک اسی مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوششیں بھی کررہے ہیں۔ یقیناً کچھ بہت سادہ مگر ٹھوس اقدامات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں: مثلاً انسدادِ دہشت گردی کی مزید تربیت، یا حساس مقامات کی الیکٹرانک نگرانی (مثال کے طور پر پٹھان کوٹ میں، جہاں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی)۔
اصل کام اس قابلِ رسائی پھل سے کہیں آگے پہنچنے کا ہے۔ بحران کے اوقات میں فیصلہ سازی اور مختلف سکیورٹی دستوں کی کارکردگی کے اصولوں کا دوبارہ جائزہ لینا اور کارروائی کے طریقوں کا ازسر نو واضح تعین کرنا ضروری ہے۔ اس کے ڈانڈے فوجی اور غیر فوجی حکام کے مابین رابطے اور تعاون سے جاملیں گے جو بھارت میں ایک نازک مسئلہ ہے، کیونکہ یہاں فوج کے اوپر سیاسی حکام کی بالادستی کو ایک عرصے سے فوقیت دی جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس بالادستی کو قائم رکھنے کی کوششیں ہی پٹھان کوٹ میں کارروائی پر بھی اثر انداز ہوئی ہوں، کیونکہ (فوجی دستوں کو زبردستی اسٹینڈ بائے کرکے) فضائی بیس پر این ایس جی کو بھیجا گیا جو بھارتی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔
اس کے علاوہ پنجاب میں جہاں پٹھان کوٹ اور گورداس پور حملے ہوئے، اور پاکستان سے قریب ہونے کے باعث مزید حملے بھی ہوسکتے ہیں، حکام کو منشیات کے بدترین مسئلے سے نمٹنے کے لیے بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ میری پنجاب میں جتنے لوگوں سے بھی بات ہوئی، انہیں پاکستان سے منسلک خدشات کے بجائے اس مصیبت نے ستا رکھا ہے۔ کیونکہ اس لعنت نے ۷۵ فیصد بچوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے، (جن میں سے اکثر ہیروئن اور Crystal meth کے عادی ہیں) جبکہ ۱۸ سے ۳۵ سال کی عمر کے نصف سے زائد افراد اس میں مبتلا ہیں۔ یہ بھارتی ریاست منشیات کی اسمگلنگ کا راستہ بن گئی ہے جس سے دہشت گردوں کو نقل و حرکت میں آسانی ملتی ہے، اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پٹھان کوٹ پر حملہ کرنے والوں کی ڈرگ مافیا سے جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔
بھارت کو اب جنگ کے غیر روایتی اور غیرمتوازن طریقے سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے جنہیں ایسے دہشت گرد استعمال کررہے ہیں جو تکنیکی اعتبار سے ماہر، سریع الحرکت، ٹیکنالوجی سے لیس اور سب سے بڑھ کر مرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسے دشمن ان روایتی عسکری دستوں کے لیے بہت زیادہ مشکلات کھڑی کررہے ہیں جو اَب تک اپنے جیسے دشمنوں سے لڑنے کے عادی تھے، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی، جو اب تک روایتی مجرموں سے نمٹتے رہے تھے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ پٹھان کوٹ میں سست ردعمل کی کچھ مثالیں (خاص طور پر کسی ایک کمان کے بغیر مختلف سکیورٹی اداروں کا کام کرنا) ۲۰۰۸ء کے ممبئی حملوں کے وقت بھی سامنے آئی تھیں، جب مقامی پولیس، فوج اور بحریہ کے کمانڈو اور این ایس جی دستے (جنہیں پہنچنے میں ۱۲ گھنٹے لگے تھے) سب کے سب سریع الحرکت اور انتہائی مسلح ۱۰؍دہشت گردوں کا پیچھا کرنے میں مصروف تھے۔ آج بھارت کو دہشت گردی کے جن خطرات کا سامنا ہے، اس میں یہ ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ ماضی سے سبق سیکھنے میں مسلسل ناکام ہوتا رہے۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“India Is Failing to Learn from Terrorist Attacks”.
(“nationalinterest.org”. January 11, 2016)
Leave a Reply