بھارت میں بہت سے لوگ بروکنگز انسٹی ٹیوشن سے وابستہ چند تجزیہ نگاروں کی اس رائے سے حیران اور برہم ہیں کہ افغانستان تک امن کا راستہ کشمیر سے ہوکر گزرتا ہے۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر بروس ریڈل کی حالیہ کتاب ’’اوائڈنگ آرماگیڈون‘‘ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے بھارت سے براہِ راست لڑنے کے لیے (مقبوضہ) کشمیر میں جہادی ڈھانچا کھڑا کر رکھا ہے اور یہیں سے افغانستان کے لیے بالواسطہ جنگ بھی لڑی جارہی ہے اور یہ کہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے اپنایا جانے والا ’’لچکدار‘‘ رویہ جنوبی ایشیا کی لڑائی میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن سے تعلق رکھنے والے ہمارے اپنے تجزیہ نگار ولیم ڈیلرمپل نے بھی لکھا ہے کہ افغانستان میں اس وقت جاری لڑائی کی بنیاد پاکستان اور بھارت کی عشروں پرانی رقابت ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہیے تو پاک بھارت جنگ افغانستان کی سرزمین پر لڑی جارہی ہے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے پریمیئر ساؤتھ ایشین ایکسپرٹ اسٹیفن کوہن نے اپنی تازہ کتاب ’’شوٹنگ فار اے سینچری‘‘ میں حالات و واقعات کا سیاق و سباق بیان کرنے کا مختلف طریقہ اختیار کیا ہے مگر خیر یہ بھی کچھ ایسا اجنبی نہیں۔
امریکا نے افغانستان میں پسپائی اختیار کی ہے اور اس کے تجزیہ نگار مختلف دلائل کے ذریعے افغانستان کی لڑائی کو کچھ کا کچھ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ چند ایک تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مفادات افغانستان میں متصادم ہیں اور دونوں اپنی پوزیشن زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ افغانستان میں پاک بھارت رقابت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ ہوسکتا ہے کہ اسلام آباد میں کچھ لوگ ایسا سوچتے ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ نئی دہلی جغرافیائی یعنی زمینی حقائق کی بنیاد پر افغانستان میں کسی مہم جوئی کو بہتر خیال نہیں کرتا۔ افغانستان میں بھارت کا کردار بنیادی ڈھانچے اور سماجی نوعیت کی سہولتیں فراہم کرنے تک محدود تھا۔ یہ سب کچھ مغربی ذرائع سے سکیورٹی فراہم کیے جانے پر منحصر تھا۔ اب جبکہ مغربی افواج افغانستان سے جارہی ہیں تو بھارتیوں کے لیے افغانستان میں حقیقی مفہوم میں سکیورٹی کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
بھارت چونکہ افغانستان کا دوست اور وہاں قائم حکومت کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے، اس لیے اُس کی ترقی اور سماجی استحکام کے حوالے سے خود کو ایک خاص کردار ادا کرنے کا پابند تصور کرتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ محض امریکا کو خوش کرنے کے لیے بھارتی حکومت طالبان سے کوئی معاہدہ کرلے گی۔
۲۰۰۱ء میں بون اور ۲۰۰۴ء میں برلن کی افغانستان کانفرنس میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ مغربی قوتیں اس لیے برسرِ پیکار ہیں کہ وہ افغانستان کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ ملک کا نیا آئین ہوگا، منتخب حکومت قائم کرنے میں بھرپور معاونت فراہم کی جائے گی اور ملک کا سیاسی نظام مغرب کی جمہوری روایات کا آئینہ دار ہوگا۔
پیش رفت
۲۰۱۳ء کی حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کو پورے جوش و خروش سے متعارف کرانے کا منصوبہ ترک کردیا گیا ہے۔ مغرب کہتا ہے کہ اب وہ افغانستان سے انخلا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ وہ افغانستان سے ایسی حالت میں جانا چاہتا ہے کہ یہاں معاملات زیادہ خراب نہ ہوں، سب کچھ بہتر انداز سے چلتا رہے۔ مغرب کی ترجیحات بہرحال بدل چکی ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے آخر تک انخلا مکمل کرلینا مغرب کی اولین ترجیح ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مغرب اب طالبان سے مذاکرات بھی چاہتا ہے اور پاکستان کی بے وفائی (یا غداری) بھی بھول جانا چاہتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مغرب کی خواہش ہے کہ ساری دنیا یہ تماشا دیکھ کر خوش ہو۔ بھارت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کابل تک مغرب کا نیا راستہ اسلام آباد سے ہوکر گزرتا ہے۔ دوحہ (قطر) میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات پاکستان کی وساطت سے ہو رہے ہیں۔ یہ بات امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور پاکستان و افغانستان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے جیمز ڈوبنز کی پاکستان آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے متعدد ملاقاتوں سے ثابت ہوچکی ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ طالبان کو پاکستان ہی معرض وجود میں لایا اور اس کا بنیادی مقصد افغانستان میں اپنا اثر ر رسوخ برقرار رکھنا تھا۔ آج طالبان پاکستان کے زیادہ زیر اثر ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ طالبان سے قبل افغانستان میں پاکستان کا اثر و رسوخ خاصا کم تھا۔ بہت نرم لفظوں میں بھی کہا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے اسلام آباد اور کابل کے تعلقات بہت حد تک لاتعلقی پر مبنی رہے ہیں۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب سابق سوویت یونین نے افغانستان پر لشکر کشی کی تب اسلام آباد نے مجاہدین کو سوویت افواج سے لڑنے میں مدد دی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس سے بہت پہلے افغانستان کے اسلام پسند عناصر کو کابل حکومت کے خلاف کھڑا کرنا شروع کردیا تھا۔
پاکستان کی افغان پالیسی کا، جس پر کابل کے رویّے بھی اثرانداز ہوتے رہے ہیں، بھارت سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ سوویت یونین کی شکست کے بعد پاکستان کو افغانستان میں فری ہینڈ مل گیا۔ اور اس کے نتیجے میں غیر معمولی بگاڑ پیدا ہوا۔ اس کے نتیجے میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی اور القاعدہ کو بھی ٹھکانہ ملا۔
حماقت
افغانستان دو عشروں کے دوران جن مراحل سے گزرا ہے اور جو کچھ اس نے جھیلا ہے، اس کے لیے بہت حد تک پاکستان ذمہ دار ہے۔ اب امریکا ایک بار پھر افغانستان کے معاملات مکمل طور پر پاکستان کے ہاتھ میں دینا چاہتا ہے۔ امریکا نے ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران جس طور افغانستان میں وسائل خرچ کیے ہیں اور جس قدر خون بہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے ایسا کرنا صرف اور صرف حماقت لگتا ہے۔ مگر خیر، استعماری قوتوں کی کارفرمائی ایسے ہی گل کھلایا کرتی ہے۔
افغانستان پر سابق سوویت یونین کی لشکر کشی تک بھارت اور افغانستان کے تعلقات خاصے دوستانہ تھے۔ لشکرکشی کے بعد جہاد شروع ہوا اور سبھی کچھ تبدیل ہوگیا۔ یہی وہ مرحلہ تھا، جب پاکستان نے افغانستان کو بھارت کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ افغان سرزمین دہشت گردی کی تربیت کے لیے استعمال ہوئی۔ اب پھر افغانستان میں پاکستان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والا ہے اور اس کے نتیجے میں ایک بار پھر دہشت گردی کے مراکز کھل سکتے ہیں۔
ذمہ داری
بھارت کے لیے بہتر یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اسے ہوتے ہوئے دیکھے اور حتمی نتائج کا انتظار کرے۔ اس وقت گیند امریکا کے کورٹ میں ہے۔ دوحہ مذاکرات میں امریکا کو طے کرنا ہے کہ افغانستان کو خطے کے لیے زیادہ سے زیادہ سودمند کس طور بنایا جائے۔ افغانستان میں استحکام کا مدار افغان قیادت پر ہے کہ وہ بدلتی ہوئی صورتِ حال کو کس طور لیتی ہے اور اپنے سرپرستوں (امریکا اور یورپ) کی طرف سے ڈالے جانے والے نفسیاتی و اعصابی دباؤ کا سامنا کس طرح کرتی ہے۔ افغان قومی فوج اب تربیت یافتہ اور مضبوط ہے۔ وہ طالبان سے اچھی طرح لڑ سکتی ہے اور ان کے لیے شدید مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ اصل ذمہ داری امریکا اور یورپ کی ہے جنہوں نے پہلے تو جنگ کو الجھا دیا اور اب امن عمل کو بھی الجھا کر رکھ دیا ہے۔ کوئی بھی تجزیہ افغانستان میں امن اور استحکام کی ذمہ داری بھارت کے کاندھوں پر نہیں ڈال سکتا۔ بھارت کا افغانستان میں جو بھی کردار ہے، وہ ثانوی نوعیت کا ہے۔ امریکا اور یورپ کو ایسی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں جو محض انخلا کی ضرورت کو پوری نہ کرتی ہوں بلکہ افغانستان میں پائیدار اور دیرپا امن کی راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوں۔
(مصنف میل ٹوڈے کے کنٹری بیوٹنگ ایڈیٹر اور آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے فیلو ہیں۔)
(“India is not to blame for the mess in Afghanistan”. “Mail Today” London. July 21, 2013)
Leave a Reply