
بھارت میں تبتی پناہ گزین اس مہینے کے اواخر اور اپریل میں اپنے روحانی پیشوا دلائی لاما کی جلاوطنی کی ۶۰ ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ انھوں نے دھرم شالہ اور دلی میں کئی پروگراموں کا انتظام کیا ہے۔
بھارت کی حکومت کا شکریہ ادا کرنے کے لیے دہلی میں ایک خصوصی پروگرام رکھا گیا تھا لیکن حکومت نے اچانک یہ پروگرام منسوخ کرا دیا۔ چند دن پہلے مرکزی حکومت نے سینئر اہلکاروں، وزرا اور رہنماؤں کو لکھا تھا کہ چین سے باہمی تعلقات کا یہ بہت ہی حساس وقت ہے، اس لیے وہ تبتی پناہ گزینوں اور دلائی لاما کے پروگرام میں شرکت سے گریز کریں۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ نے گذشتہ روز ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت چین سے اپنے تعلقات بہتر کرنے کا خواہاں ہے۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب بھارت کی حکومت نے چین کی مخالفت اور ناراضی کے باوجود اروناچل پردیش میں دلائی لاما کے دورے کا اہتمام کیا تھا۔ گذشتہ برس بھوٹان چین سرحد کے نزدیک ڈوکلام کے علاقے میں دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑا ٹکراؤ ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔
کئی مہینے تک ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہونے کے بعد ڈوکلام میں چین نے اب بڑی تعداد میں فوجی تعینات کر دیے ہیں اور وہاں ٹینک اور دوسرے جنگی ساز وسامان مستقل طور پر مامور کر دیے ہیں۔
بھارت نے چین کے محاذ پر گذشتہ سالوں میں اپنی عسکری پوزیشن کافی مضبوط کی ہے۔ سرحدی علاقوں میں سڑکیں اور مواصلات کا نظام بہتر ہوا ہے۔ بڑے پیمانے پر فوج کی جدید کاری کی گئی ہے۔ بھارت اور چین کی سرحدوں پر تعیناتی کو مستحکم کرنے کے لیے ہزاروں فوجی بھرتی کیے گئے ہیں۔
مودی حکومت کے مفکروں اور سلامتی سے متعلق پالیسی سازوں نے چین کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کی برسوں کی پالیسی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی جگہ ایک قدرے جارحانہ اور سخت موقف اختیار کیا گیا۔ فوجی جرنیلوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کا محاذ بھی کھولنے کی باتیں شروع کر دیں۔ کچھ ہی دنوں میں دونوں کے رشتے بگڑنے لگے۔
اب ایک بار پھر بھارت بات چیت اور اشتراک کی طرف مائل ہے لیکن گزرے ہوئے برس تعطل، ٹکراؤ، کشیدگی اور انانیت کی نذر ہو گئے۔
بھارت کے گذشتہ چار برس سے پاکستان سے بھی تعلقات انتہائی کشیدہ رہے۔ پنجاب اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں شدت پسندوں کے کئی حملوں کے بعد مودی حکومت نے بات چیت کے سارے راستے بند کر دیے۔
پچھلے دو برس میں کشمیر میں شدت پسند سرگرمیاں کافی بڑھ گئی ہیں۔ پولیس اور فوجی کیمپوں پر کئی حملے ہوئے۔ کنٹرول لائن گولہ باری سے گونجتی رہی۔ دونوں ممالک کے درمیان سارے رابطے ٹوٹے رہے۔ شدت پسند سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی لیکن اچانک حکومت کے موقف میں نرمی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ بھارت نے حال ہی میں پاکستان کو انسانی بنیادوں پر بزرگ اور خاتون قیدیوں کے تبادلے کی تجویز دی، جسے پاکستان نے قبول کر لیا۔
بھارت نے ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کے ایک وزیر کو دہلی میں ہونے والی ایک بین الاقوامی میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی یہ میٹنگ اگلے ہفتے ہو رہی ہے اور اس میں پاکستان کے وزیر تجارت کی شرکت متوقع ہے۔
یہ جمود ٹوٹنے کا پہلا اشارہ ہو گا، لیکن یہ اس بات کا بھی اعادہ کرتا ہے کہ مذاکرات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
مودی حکومت نے چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے سلسلے میں بہترین ابتدا کی تھی لیکن وہ اسے جاری نہ رکھ سکی۔ باہمی تعلقات کے نقطۂ نظر سے مودی حکومت کے گزرے ہوئے چار برس ضائع گئے۔
ٹکراؤ اور شدت پسندی کا مقابلہ مذاکرات کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور شاید زیادہ موثر طریقے سے ہو سکتا ہے۔
چین اور پاکستان سے بہتر اور پر امن تعلقات صرف ان ممالک کے لیے ہی نہیں عالمی امن کے لیے بھی انتہائی ضروری ہیں کیونکہ تعلقات میں بہتری صرف بات چیت سے آتی ہے۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۰؍مارچ ۲۰۱۸ء)
Leave a Reply