
بھارت کے۶۹ویں یوم آزادی کے موقع پرکسی کو اس بات کی امید نہ تھی کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے خلاف بلوچستان کے حالات پر اشتعال انگیز تقریر کریں گے۔مودی کے بیان کے مطابق بلوچ علیحدگی پسندوں نے ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا ہے،انہوں نے۱۲۵ کروڑ بھارتی شہریوں اور مودی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ بلوچ قوم پاکستان سے زیادہ بھارت کی وفادار ہے۔پروپیگنڈے کی جنگ کا مقصدیہ ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو مزید مشتعل کیاجائے، جو کہ حال ہی میں ہونے والے سانحہ کوئٹہ اور ا س میں ہونے والی وکلاء کی ہلاکتوں پرپہلے ہی پریشان ہیں۔ نریندر مودی کے اچانک دیے جانے والے اس جارحانہ بیان نے یہ بات واضح کر دی ہے کے وہ پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی معاونت کر رہے ہیں۔اس بیان کے اثرات بہت جلد ایرانی صوبے سیستان بلوچستان پر پڑیں گے جہاں بھارت کے تعاون سے چاہ بہار بندر گاہ کی تعمیر جاری ہے۔یہ بندرگاہ شمال،جنوب راہداری منصوبے کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔یہ بیان ایران اور روس کے لیے بھی خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے جو کہ چاہ بہاربندر گاہ اوراس کے ارد گرد حالات کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، تاکہ دو براعظموں کو جوڑنے یعنی جنوبی ایشیا اور مغربی یورپ کو ملانے والی اس اہم راہداری کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔
عام ا فراد کو نشانہ بنانا
امریکی سی آئی اے طرز کی بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘کئی دہائیوں سے بلوچستان میں عدم استحکام کے لیے کام کر رہی ہے۔اس سال کے شروع میں را کا ایک اہم عہدے پر فائز آلہ کار بھی پکڑا گیا، جس نے اس بات کا اقرار کیا کہ وہ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے منصوبہ بندی کر رہا تھا۔بلوچستان میں دہشت گر دی کی کارروائیوں میں ملوث را کے آلہ کار کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود نئی دہلی،بلوچستان میں عدم استحکام کے حوالے سے را کے ملوث ہونے سے انکاری ہے۔تاہم مودی کے بلوچستان پر دیے جانے والے اس اشتعال انگیز بیان نے بھارت کے سابقہ موقف کی نفی کی ہے، اوراس کے تضاد کو کھول کر رکھ دیا ہے۔اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہیں کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ دراصل مقبوضہ کشمیر میں جاری احتجاج میں آنے والی تیزی کے جواب میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کر رہی ہے۔اور اس سلسلے میں بھارت کی نہ صرف فوج بلکہ میڈیا بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔میڈیا نے تو کشیدگی بڑھانے کے اس منصوبے میں اس برے طریقے سے اپنا کردار ادا کیا کہ ضابطۂ اخلاق کی دھجیاں بکھیر دیں، یہاں تک کہ بلوچستان کابنگلا دیش کے ساتھ تقابلی جائزہ بھی کیا گیا۔ نریندر مودی اور ان کے ہم نوا ذرائع ابلاغ نے اس برے طریقے سے بلوچوں کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا کہ ان کے سی پیک کے حوالے سے جائز اعتراضات کو بھی مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔درحقیقت بلوچوں کے اصل مسائل سے بھارت کو کوئی سروکار نہیں۔
نئی دہلی کا نقطۂ نظر
بھارت بلوچستان کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیرو ترقی اور وہاں کے لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری نہیں چاہتا، کیونکہ بلوچستان کی تعمیر و ترقی کے نتیجے میں یہ ملک کے مربوط اور مستحکم حصے کے طور پر سامنے آئے گا۔ نریندر مودی کی تقریر اوربھارتی ذرائع ابلاغ میں ہندو انتہا پسندوں کے تجزیے اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ یہ سب بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کروا رہی ہے۔دراصل اس کے مقاصد ’’ہائبرڈ وار‘‘کا آغاز ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان پرتشدد کارروائیوں اورمتواتر اشتعال انگیز بیانات کے بچھائے ہوئے جال میں الجھ جائے اور وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان اس دلدل میں پھنستا چلاجائے۔بھارت کا خیا ل ہے کہ جتنی زیادہ افراتفری ہوگی،ترقی کی رفتار اتنی ہی کم ہو گی جس کے نتیجے میں اسلام آباد مختلف تنازعات کا شکار ہوکر بین الاقوامی برادری کی نظر میں اپنا اعتبار کھو دے گا اور نتیجے کے طور پر سی پیک منصوبہ پر کام رک جائے گا، جو کہ بھارت کا پہلا ہدف ہے۔بھارت دو وجوہات کی بنیاد پر سی پیک منصوبے کے خلاف ہے۔اول یہ کہ راہداری گلگت بلتستان سے ہوتی ہوئی گزرے گی اور گلگت بلتستان گزشتہ سات دہائیوں سے دنیا کے نقشے میں پاکستان کے زیر انتظام ایک پر امن علاقہ ہے۔ جبکہ بھارت ابھی تک اسے متنازع علاقہ قرار دیتا ہے۔دوم یہ کہ سی پیک کے بعد چین اپنی تجارت کے لیے بحر ہند کے اس حصے کو استعمال کرے گا، جو پاکستان کے زیر انتظام ہے،اور یہ بھارت کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ کیونکہ اب تک بھارت بحر ہند پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرتا چلا آیاہے۔
خونی سرحدوں کی تعمیر
کٹر ہندو قوم پرست تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی، سی پیک پر کام رکوانے کی کوششوں میں مصروف ہے،اتفاقیہ طور پر یہ ہدف امریکا کے ’’گریٹ گیم‘‘ سے میل کھاتا ہے۔ بھارت پاکستان کی علاقائی سالمیت کونقصان پہنچانے کے لیے جن خطوط پر کام کر رہا ہے، وہ ۲۰۰۶ء میں شائع ہونے والی ’’رالف پیٹر‘‘ کی جغرافیائی سیاست پر مبنی دستاویز’’Blood Borders‘‘کے عین مطابق ہے۔ یہ دستاویز امریکی فوج کے مجلہ کے لیے خصوصی طور پر لکھی گئی تھی(یہ دستاویزمشرقِ وسطیٰ کی مستقبل کی نقشہ بندی کے حوالے سے کافی بدنام ہے۔اس میں بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے’’بہتر مشرق وسطی‘‘ کے لیے نسل کشی جیسے جنگی جرائم کی بھی حمایت کی گئی ہے)۔اس د ستا ویز میں رالف پیٹر نے امریکی پالیسی سازوں کو مشورہ دیا ہے کہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کو سامنے رکھ کر امریکی مفادات کے حصول کے لیے پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقوں پر مشتمل ’’آزادبلوچستان‘‘ کے قیام کی حکمت عملی بنائی جائے۔ اس منصوبے کو ذہن میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ سمجھنا بہت آسان ہو جائے گا کہ بھارت دراصل اسلام آباد کے خلاف کیا کرنا چاہ رہا ہے۔ اور اسی منصوبے کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا اگلا شکار تہران ہو گا۔ نریندر مودی اگرپیٹر کے منصوبے پر کام کرتے ہیں تو مستقبل میں پاکستان کے شمال مغربی سرحدی قبائل افغانستان کا حصہ بن جائیں گے۔پیٹر کے تجویز کردہ منصوبہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے دوبارہ افغانستان سے جا ملیں گے، اگر نریندر مودی، پیٹر کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں،جیسا کہ ان کی ۱۵ اگست والی تقریر سے اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے،جس میں انھوں نے گلگت بلتستان اور بلوچستان کے لوگوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا ہے، تو یہ بات واضح ہے کہ مودی اپنے روایتی دشمن پاکستان کو کسی بھی طرح مکمل طور پر تقسیم کر کے سی پیک کے اس منصوبے کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
ایران اور روس کے لیے خطرہ
اس میں کوئی شک نہیں کے بھارت جس تباہ کن انداز سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے اس کے اثرات سرحد پار یعنی ایران کے صوبے سیستان تک بھی جائیں گے،یعنی چاہ بہا ر بھی اس کی لپیٹ میں آئے گااور یہ بات روس اور ایران دونوں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ان دونوں ممالک کے لیے شمال جنوب راہداری تزویراتی اور معاشی،دونوں لحاظ سے نہایت اہم ہے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ پاکستان میں جاری بلوچ علیحدگی پسند تحریک ایرانی صوبے سیستان کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گی اور چاہ بہار بندرگاہ کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں بنے گی۔اگر بلوچستان کبھی پاکستان سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ پڑوس میں واقع ایران کے بلوچ اکثریتی علاقے کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے گا۔کیوں کہ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔کرد اس عمل کی واضح مثال ہیں جو ایک پر تشدد تحریک آزادی کے بعد دنیا کے سامنے آئے تھے (پھر انہوں نے پڑوس میں واقع کرد علاقوں کو بھی اس تشدد کی لپیٹ میں لے لیا)۔بھارت سمجھتا ہے کے وہ بنگلا دیش کی طرح یہاں بھی صورتحال پر قابو پا لے گا۔ لیکن بین الاقوامی تناظر،جنگ کی نوعیت اور حالات بالکل مختلف ہے۔مزید یہ کہ امریکا، ایران اور روس کو معاشی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔ اس لیے وہ پوری کوشش کرے گا کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی اس تحریک کو ایران تک وسعت دی جائے،تا کہ چاہ بہار بندرگاہ کا علاقہ بھی عدم استحکام سے دو چار ہو اوربالواسطہ روس کی اس شمال جنوب راہداری کو نقصان پہنچے۔
ایرانی ملی بھگت
بلوچستان اور سیستان میں عدم استحکام کے ممکنہ نتائج اور چاہ بہار پراس کے اثرات اتنے واضح ہیں کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر محسوس ہوتی ہے کہ بھارت بلوچ علیحدگی پسندتحریک کی حمایت کررہا ہے،خاص طور پر ایسے حالات میں جب وہ خو د شمالی جنوبی راہداری کے منصوبے میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت کی صرف دو ممکنہ وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ بھارت پاکستان کی نفرت میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ اسے یہ بھی نظر نہیں آرہا کہ وہ اپنا ہی نقصان کر رہا ہے،یعنی اپنے ہی پاؤں پرکلہاڑی مار رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہ جوا کھیل رہا ہے۔لیکن اگر ہم ان دونوں ممکنہ وجوہات اور بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کو سامنے رکھیں تو زیاد قرین قیاس یہ ہے کہ بھارت کی پاکستان سے نفرت بھی شدید ہے اور وہ ممکنہ نتائج کو جانتے بوجھتے ہوئے اس راستے پر گامزن ہے۔لیکن ان سب حالات میں یہ سمجھ سے بالاتر ہے کے سفارت کاری میں ہزاروں سال کا تجربہ رکھنے والے ذہین ایرانی سفارت کار بھی اس نوشتہ دیوار کو نہیں پڑھ پا رہے،کہ مودی کی اس مہم جوئی کے نتیجے میں ایران کو کن مشکل حالات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ بہت عجیب بات ہے کہ ایران نے کشمیر میں ہونے والے تازہ ترین تشدد کی مذمت نہیں کی۔ حالانکہ آیت اللہ خامنہ ای کا کشمیر پر واضح اور مضبوط موقف رہا ہے۔اس حوالے سے ایرانی وزیر خارجہ کا بیان بھی خلاف توقع ہے، جس میں انہوں نے پاکستان اور بھارت سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ دونوں صبر اور برداشت سے کام لیں۔ایران کا حالیہ موقف ان کے سپریم لیڈر کے ماضی کے موقف سے متصادم ہے، جنہوں نے نومبر۲۰۱۰ء میں بھارت کو ایک صہیونی ریاست قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے یہ التجا کی تھی کہ وہ افغانستان، پاکستان اورکشمیر کے مسلمانوں کی مدد کریں،جو امریکا اور صہیونی حکومتوں کے تشدد کے خلاف جدو جہد میں مصروف ہیں۔حیرت انگیز طور پر اب ایرانی حکومت نے کشمیری مظاہرین اورنئی دہلی کی ’’صہیونی حکومت‘‘دونوں سے صبر و برداشت سے کام لینے کی یکساں اپیل کی ہے۔ رشین انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹیڈیزکے لیے لکھے جانے والے ایک تحقیقی مقالے میں مصنف نے یہی بات واضح کی تھی کے ایرانی اشرافیہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے، ایک اعتدال پسند اور دوسری قدامت پسند۔اور یہ خارجہ پالیسی پر اعتدال پسندوں کے بڑھتے ہوئے کنٹرول کا نتیجہ ہے کہ کشمیر کے معاملے پر غیر واضح بیانات سامنے آرہے ہیں۔اور مودی کے بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت میں دیے جانے والے بیان کے ردعمل میں تہران کی خاموشی بھی خارجہ پالسی پر اعتدال پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ ہی کا نتیجہ لگتی ہے، حالانکہ یہ بات واضح ہے کے اسلام آباد بڑی جنگ کے بغیر صوبے کو الگ ہونے نہیں دے گا۔
کشمیر اور بلوچستان پرایران کا موقف ان کے رد عمل کو ظاہر کر رہا ہے۔یہ موقف اس بات کی دلیل ہے کہ تہران خود اس معاملے میں صبر اور برداشت سے کام لے رہا ہے، جو اس کے قومی مفادات کے لیے اہم ہیں۔ایران نے ہمیشہ بیرون ملک مسلمانوں کی حمایت کی ہے اور اس حوالے سے وہ ایک شناخت رکھتا ہے۔لیکن نئی دہلی کے حوالے سے حکمت عملی نے اس کی شناخت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔کیوں کہ وہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف ویسا ردعمل نہیں دے رہا جیسا کہ وہ عرب ریاستوں میں متاثرین پر ظلم کے حوالے سے وہاں کے بادشاہوں کے خلاف دیتا رہا ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بھارت اور اعتدال پسند ایرانیوں کے درمیان پس پردہ ایک سمجھوتا طے پا چکا ہے۔
سمجھوتے کا فن
ایران کے بدلتے ہوئے موقف سے یہ سمجھنا فی الحال ممکن نہیں کہ تہران اور دہلی کے درمیان کیا سمجھوتا طے پایا ہے، ایران کشمیر میں بھارتی تشدد اور بلوچستان کے بارے میں نریندر مودی کے ہرزہ سرائی پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ لیکن لگتا ایسا ہے کہ بھارت نے تہران کو یقین دلایا ہے کہ وہ بلوچ علیحدگی پسندوں کو اپنے کنٹرول میں رکھے گا اور پاکستان کی حمایت کرنے سے جو فوائد اسے حاصل ہوں گے، اس سے کہیں زیادہ فوائد اسے بھارت شمال جنوب راہداری سے دلوا دے گا۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کے حوالے سے ایران کا اس قدر اطمینان واضح علامت ہے کہ وہ اس بات پر مکمل یقین کیے ہوئے ہے کہ بھارت ان علیحدگی پسندوں کو سنبھال لے گا، کیوں کہ بھارتی خفیہ ادارہ ہی ان کی ہر کارروائی کی نگرانی کرتا ہے اور مستقبل میں بھی وہ ہی ان کی نگرانی کرے گا۔ان حالات میں بھارت اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یہ گروہ ایران کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں اور نہ ہی وہاں پناہ لیں،اور ایران کوبھی اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ ان جیسے باغی گروہوں کو اپنے ہاں پنپنے نہ دے، اور یہ کام پاسداران انقلاب کے لیے شاید زیادہ مشکل نہ ہو۔
ایران بظاہر بھارت کے اس کھیل میں شریک نہیں ہوگا اور نہ ہی بھارت اسے شریک کرنا چاہے گا۔بھارت کی کھلی بیان بازی کے باوجود ایران اس مسئلے کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دینے کے مؤقف پر قائم رہے گا،یا پھر خاموش رہنے کی پالیسی اپنائے گا۔اس طرح کا سمجھوتا اس وقت تک ممکن ہے جب تک اعتدال پسند ایرانی خارجہ امور پر اثر انداز ہوتے رہیں گے اور اپنے قدامت پسند اتحادیوں کو ان معاملات سے دور رکھیں گے۔ ساتھ ساتھ قدامت پسند افواج کو بھی اس اہم معاہدے سے انحراف کرنے سے روکے رکھیں گے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ ایرانی اعتدال پسنداس وقت توانائی اوراقتصادی شعبہ جات کی نگرانی خود کر رہے ہیں، اور یہ دونوں شعبہ جات شمال جنوب راہداری کے مکمل ہونے کے بعد بھارت کو نہایت اہم شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں،کیوں کہ بھارت ایران کو شمال جنوب راہ داری پر گیس اور تیل کی بر آمدات پر بہت فائدہ دے گا۔اگر اس صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ ایران کی اعتدال پسند قوتوں نے توانائی،معیشت اور خارجہ پالیسی پر اپنا اثرورسوخ بڑھا کر ملکی سلامتی کے اداروں میں قدامت پسندوں کا اثرورسوخ کو کنٹرول کر لیا ہے۔جس کا اندازہ تہران کی،بھارت کے بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت کے اس خطرناک تزویراتی منصوبے کی حمایت کر نے سے لگایا جا سکتا ہے،حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس سے اس کی اپنی داخلی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔
امریکا کی چال
بھارت اور ایرانی اعتدال پسند سازشی خود کو بہت چالاک سمجھ رہے ہیں،لیکن انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکا بلوچستان کی علیحدگی کی اس جنگ کو مستقبل میں ایران کے خلاف بھی استعمال کر سکتا ہے۔امریکی پالیسی ساز تہران کی قدامت پرست حکومت سے خوش نہیں ہیں،اس لیے وہ ان کے خلاف کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔امریکا کے پالیسی ساز اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ سیستان اور بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار کر کے وہ بالواسطہ روس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔کیوں کہ روس شمال جنوب راہداری کے آس پاس انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کر رہا ہے۔ تو امریکا کو جب موقع ملے گا وہ انھی بلوچ عسکریت پسندوں کو استعمال کر کے اپنے اس منصوبے پر عمل کرے گا اور یہ امریکا کے لیے ایک تیر سے دو شکار کرنے کے مترادف ہو گا۔یعنی ایران اور روس دونوں ہی نقصان اٹھائیں گے۔ حالانکہ امریکا جانتا ہے کہ اس کی اس پالیسی سے بھارت کو بھی نقصان پہنچے گا،لیکن امریکا کی روایت رہی ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے اتحادیوں کے مفادات کو داؤ پر لگا دیتا ہے اوربھارت کوئی اتنا خاص نہیں کہ امریکا اس کے لیے اپنی روایت بدل دے۔
روس،نجات دہندہ
روس کی پائیداراقتصادی حکمت عملی کے لیے ضروری ہے کہ وہ پس پردہ بھارت سے بلوچستان میں مداخلت پر بات چیت کرے۔ اگر مودی اور اس کی تنظیم آر ایس ایس ہٹ دھرمی دکھاتی ہے اور اسی جارحانہ پالیسی کو لے کر چلتی ہے تو یہ خطے کے مستقبل کے لیے خطرنا ک ہو گا۔ اس صورت میں روس کو ایران سے بات کرنی ہو گی۔ایران کے قدامت پسندوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ بھارت کی پاکستان کے حوالے جس حکمت عملی کی آپ حمایت کر رہے ہیں وہ بالآخر خود تہران کے لیے نقصان کا باعث بنے گی اور ساتھ یہ بھی بتانا ہوگا کہ اگر آیت اللہ بھارت کو سمجھا نے کوشش کرتے ہیں تو روس ان کی مکمل حمایت کرے گا۔
موجودہ حالات میں بھارتی مداخلت اور ایران پر اس کے دور رس اثرات پر حکومتی اداروں کی خاموشی اس با ت کو ظاہر کرتی ہے کہ ایرانی اشرافیہ اس معاملے میں آپس میں تقسیم ہے۔ تہران کے قدامت پسند نہیں چاہتے کہ وہ اس معاملے میں اعتدال پسندوں کی مخالفت کر کے آپس کے اختلافات دنیا کو ظاہر کر دیں۔ اگر آیت اللہ اور ان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو یہ یقین ہو جائے کہ روس ان کا ساتھ دے گا تو وہ اور روس مل کر اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر کے بھارت کو پاکستان کی تقسیم کے اس منصوبے سے باز رکھ سکتے ہیں اور شمال جنوب راہداری منصوبے کو تباہی سے بچا سکتے ہیں۔بلکہ بھارت کو امریکا کے ’’گریٹ گیم‘‘ کامہرہ بننے سے بھی روک سکتے ہیں۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“India’s geopolitical hate for Pakistan is sabotaging the north-south corridor”. (“katehon.com”. Aug. 30, 2016)
Leave a Reply