
آپ کو یہاں آکر ایسا ہرگز محسوس نہیں ہوگا کہ آپ ’’ہندوستان‘‘سے کہیں دور ہیں۔ ہندوستانی کھانوں اور کپڑوں کے علاوہ ہندی ٹی وی چینلز کی چٹپٹی خبروں سے لے کر بالی وڈ کے گانوں تک سب کچھ یہاں بہ آسانی دستیاب ہے۔ یہاں تک کہ آپ کو اپنی مادری زبانوں کے میگزینز بھی پڑھنے کو مل جائیں گی۔ یہ امریکا یا برطانیہ نہیں ہے جہاں ہندوستانیوں کی کثیر تعداد آباد ہے بلکہ یہ اس ملک کی ایک تصویر ہے جس سے ہندوستان کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے ابھی دو دہائیاں بھی نہیں گزری ہیں۔ ہندوستان نے ۲۹ جنوری ۱۹۹۲ء کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلق قائم کیا۔ تب سے آج تک حالات میں کافی تبدیل آچکی ہے۔ اسرائیل اس وقت ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا دفاعی پارٹنر ہے۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت ایک ہزار ملین ڈالر سے متجاوز ہوچکی ہے جو ۱۹۹۴ء میں ۶۵۰ ملین ڈالر تھی۔ ہندو اور یہودی مذہب کو قریب سے قریب تر لانے کے ساتھ ساتھ ہندی اور ہبرو (Hebrew) زبان کے بیچ مشترکات کو تلاشنے کی کوششیں زور وشور سے جاری ہیں۔ تعلقات میں ہر سطح پر آنے والی پختگی میں اسرائیل میں مقیم ۷۰ ہزار ہندوستانی یہودیوں کا سب سے اہم کردار ہے۔ حکومتِ ہند نے اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کی مذمت کی اپنی تاریخی پالیسی میں جو تبدیلی کی ہے اس میں ان کا کافی اہم کردار رہا ہے۔ ملک کے مخصوص فرقہ وارانہ ماحول میں پلے بڑھے یہودی مسلم دشمنی کا جو بیج اپنے ساتھ لے گئے تھے وہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ہندوستان سے اسرائیل جانے والے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے لے کر سرکاری افسران کے وفود کو ضرورا س کے ’’میٹھے پھلوں‘‘ کی سوغات فراہم کی جاتی ہوگی۔
۱۹۸۰۔۱۹۵۰ء کے درمیان تقریباً ۵۰۔۴۰ ہزار یہودیوں نے اسرائیل ہجرت کی۔ ان کی اکثریت کو ملک کے تیسرے درجے کے شہروں میں آباد کیا گیا۔ جنوبی اسرائیل کا ریگستانی شہربیرشیوا (Beersheva) ایک ایسا ہی شہر ہے جہاں دس ہزار سے زیادہ مراٹھی بولنے والے یہودی آباد ہیں۔ بین گورین یونیورسٹی کی شاندار عمارت کو دیکھ کر تو یہ ایک متوسط شہر معلوم ہوتا ہے لیکن اندرونی علاقوں کی ٹوٹی ہوئی عمارتیں اس کی اصل پہچان ہیں۔اس کے برخلاف کو چینی یہودیوں کو زرخیز علاقوں میں بسایا گیا ہے۔ حکومت کی اس غیر منصفانہ پالیسی پر برہم ہبرو یونیورسٹی کی ڈاکٹر سیلوا بیل کہتی ہیں ’’یورپین یہودیوں کو تو یروشلم اور تل ابیب جیسے شہروں میں بسایا جاتا ہے جبکہ ہندوستان سے آئے یہودیوں کو دھول اور گندگی سے بھرے ڈائے نما، اسڈور، لاد، رام لے اور بیر شیبہ جیسے شہروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ فلسطینی علاقوں سے قریب ان شہروں میں اکثر بمباری ہوتی رہتی ہے‘‘۔ ۱۹۷۰ء میں اسرائیل ہجرت کرنے والے اسرائیلی رہنما لاریمنڈ کے مطابق: ’’ہندوستان میں ہم کافی خوش تھے، وہاں ہمیں کبھی اپنے حقوق کی لڑائی نہیں لڑنی پڑی۔ یہاں ہمیں روز یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے اور یہ سب ہمارے کالے رنگ کی وجہ سے ہے‘‘۔ ممبئی سے گئے انجینئریووال ابراہم بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ ’’ اگر آپ گورے اشک نازی یہودی نہیں ہیں تو آپ کے ساتھ دوم درجہ کے شہری جیسا برتائو کیا جائے گا۔‘‘۱۹۹۷ء میں تو اشک نازی ربی اعظم نے ہندوستانی یہودیوں (بغدادیوں کو چھوڑ کر) سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔ یہودی روایات وآداب میں ناپختگی اس کی سب سے بڑی وجہ قرار دی گئی تھی۔ جب کہ ہندوستان میں کبھی بھی ان کو اس طرح کے برتائو کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ یہاں یہودی ہونے کی وجہ سے ان کو کافی عزت و مقام حاصل تھا۔۲۰ وی صدی کے مشہور شاعر Nissim Ezekiel کو قومی اعزاز ’’پدم شری‘‘ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ دہلی سینوگوگ (یہودی عبادت گاہ) کے موجودہ صدر اور ۱۹۷۱ء کے ہند پاک جنگ کے فوجی ہیرو Lieutenant General Frederick Jacob جو بعد میں پنجاب کے گورنر بنے، کلکتہ کے یہودی تھے۔ ممبئی فلم انڈسٹری ’’بالی وڈ‘‘ کی ابتدا میں بھی یہودیوں کا کافی اہم کردار رہا ہے۔ کیونکہ ہالی وڈ سے ان کا قریبی تعلق تھا۔ حال ہی میں ’’بکر پرائز‘‘ سے نوازی گئی مشہور ناول نگار انیتہ دیسائی بھی ہند نژاد یہودی ہیں۔ الابین مناچین تقریباً ۴۰ سال بعد پہلی بار لیبر پارٹی کے ایم پی بننے میں کامیاب ہوسکے ہیں جبکہ ممبئی میں یہودی تین۔ تین بار میئر بن چکے ہیں۔ مہاجر یہودیوں کی دوسری اور تیسری نسل نے کافی جدوجہد کے بعد معاشرے میں اپنا مقام حاصل کیاہے۔ یہ بھی تب جب کہ انھوں نے یوروپین (اشک نازی) طرز کے پہناوے، کھانے پینے، رہن سہن اور زبان کو پوری طرح اپنالیا ہے۔ لیکن نسل اوّل اب بھی اپنی جڑوں سے وابستہ رہنا چاہتی ہے۔ وہ آج بھی اپنے گھروں میں ہندوستانی کھانے، موسیقی اور رقص کا اہتمام کرتے ہیں۔ انھوں نے ایسے میوزیم اور ثقافتی مرکز قائم کیے ہیں جس سے ہندوستان سے ان کے قریبی تعلق کا اظہار ہوتا ہے انھوں نے جہاں ’’میے بولی‘‘ جیسے میراٹھی رسائل کی اشاعت شروع کی ہے تو وہیں میراٹھی تعلیم دینے والے اساتذہ کی ضرورت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ روایتی ملیالم موسیقی کو پروان چڑھانے کی کوششیں تو پچھلی دہائیوں سے ہی جاری ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے انھوں نے ہندوستان میں موجود یہودی تاریخی مقامات کی تعمیر نو اور حفاظت کا بیڑا اٹھالیا ہے۔ اسرائیل میں مقیم کوچینی یہودیوں کے مطالبہ پر آخر کار حکومت کیرلہ کو سرکاری خرچے پر چنڈامنگلیم میں واقع قدیم یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کرنی پڑی جبکہ صوبہ میں کل یہودیوں کی تعداد دس سے زیادہ نہیں ہوگی۔ فروری ۲۰۰۶ء میں اسی سینوگوگ میں ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے جہاں سے اسرائیل میں مقیم یہودیوں کے بارے میں تفصیلات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ کیرلہ ٹورزم نے باقاعدہ ’’یہودی سیاحت‘‘ کو فروغ دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ حکومت گجرات نے آب پاشی کا جو نیا Drip System شروع کیا ہے اسے بھی ہندوستانی یہودیوں نے ہی متعارف کرایا ہے۔ صوبہ بہار میں بھی ہندو نژاد یہودیوں نے کئی کیمیکل فیکٹریاں لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ مہاراشٹرا کی حکومت سے ان کے قریبی تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ہٹلر کے نام پر کھلنے والے ریسٹورینٹ کو شہر میں آباد پانچ ہزار یہودیوں کے علاوہ اسرائیل میں مقیم میراٹھی یہودیوں کی منہ بھرائی کی خاطر راتوں رات بند کروادیا۔۱۱/۷ کے دھماکوں کے بعد وزیراعلیٰ دیشمکھ نے اعلان کیا کہ تفتیش میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے تعاون حاصل کیا جائے گا۔
ہندو اور یہودی مذہب کے بیچ تاریخی تعلق کی دریافت کی سنجیدہ کوششیں پچھلے کئی برسوں سے جاری ہیں۔ Journal of Indo-Judaic Studies کے زیر اہتمام فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے مذاہب کے پروفیسر Nathan Katz تو ۱۹۹۵ء سے اس پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں انھوں نے یہودیوں، اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان کئی مشترکہ قدروں کی تلاش کی ہے۔ پروفیسر ناتھان اپنی تحقیقی کاوشوں کا نچوڑ اس طور پر بیان کرتے ہیں:’’ہندوستانی او ریہودی تہذیب کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں کے بیچ قدیم زمانے سے ہی مضبوط ثقافتی، ادبی اور تجارتی تعلق ہے‘‘۔ شاید اسی لیے اسرائیلی سفیر ڈاکٹر یہودہ ہیم لال کرشن اڈوانی کے بارے میں کہتی ہیں کہ:’’ مجھے تو ان میں اپنے آبائو اجداد کی جھلک نظر آتی ہے‘‘۔ پروفیسر ناتھان نے ایک ایسی حقیقت کی جانب بھی اشارہ کیا ہے جس پر بہت کم لوگوں نے ہی کلام کیا ہے۔ ان کے مطابق :’’اب تو مجھے اس بات پر تقریباً شرح صدر ہوچکا ہے کہ روحانیت کے بارے میں ان دونوں مذاہب کے عقائد میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے‘‘۔ بظاہر یہودیت اور ہندو ازم کے عقائد میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ یہودیت جہاں ایک خدا، پیغمبر اور آخرت کے تصور کی قائل ہے تو ہندو ازم اس کی سرے سے ہی مخالف۔ اس گتھی کو پروفیسر ناتھان اس طور پر سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’یہ تصور بھی صرف ان کے اعلیٰ طبقوں میں ہی پایا جاتا ہے جو تعلیم یافتہ اور فلسفیانہ سمجھ رکھتے ہیں‘‘۔ یہودیت کی ہی طرح ہندو ازم بھی عقائد و عبادت کے بجائے ’’نسلی برتری‘‘ کے تصور کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کا قائل ہے۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس ’’برتری‘‘ کی حفاظت کے لیے ہی عقائد و مراسم کی ایک چہار دیواری کھینچ دی گئی ہے تاکہ بیرونی خطرات سے ان ’’مذاہب‘‘ کی حفاظت ہوتی رہے۔ ان دونوں ’’مذاہب‘‘ کے ہزاروں سالوں سے باقی رہنے کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے۔ اس حقیقت کو عربوں نے بہت پہلے ہی پالیا تھا جس کی نظیر ان کے یہاں یہ مشہور جملہ ہے کہ اتقو الیھود و الھنود ولوبسبعین بطنا ’’یہود اور ہنود سے ستر نسل تک بچتے رہو۔‘‘
(بشکریہ :سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: ۷ نومبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply