
ہندوستان کے پندرہویں لوک سبھا انتخابات میں جو حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں اس میں سے ایک اہم بائیں بازو کی جماعتوں کی شکست فاش بھی ہے۔گزشتہ تقریبا تین عشروں سے ریاست کیرالا اور مغربی بنگال میں کامیابیوں کے سبب کمیونسٹ پارٹیاں مرکز میں اہم رول ادا کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس بار ان دونوں ریاستوں میں انہیں زبردست نقصان ہوا جس سے پارٹی کے سرکردہ رہنما بھی سکتے میں ہیں۔ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما انتخابی ہار کا جائزہ لینے کے لیے میٹنگ کرنے والے ہیں اور اطلاعات ہیں کہ علاقائی سینیئر رہنما مرکزی قیادت سے کافی نالاں ہیں۔
پارٹی کے سرکردہ راہنما سیتا رام یچوری کا کہنا ہے کہ پارٹی کو اس بار اپوزیشن میں بیٹھنے کا مینڈیٹ ملا ہے۔ ’جو بھی شکست کی وجوہات ہیں اس کا پتہ لگایا جائے گا۔ بنیادی طور پر ہم کانگریس اور بی جے پی کی متبادل پالیسیوں کے حامی ہیں اور ہم اس کے لیے کام کرتے رہیں گے۔‘
گزشتہ انتخاب میں بائیں محاذ کو ساٹھ سے بھی زیادہ سیٹیں ملی تھیں جس کے سبب اس نے کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اس بار جب اس نے مرکز میں ایک غیر کانگریس اور غیر بی جے پی حکومت کے لیے تیسرا محاذ تیار کیا تو خود اسے صرف چوبیس سیٹیں ملی ہیں۔ ریاست مغربی بنگال میں بائیں محاذ کی بتیس برس سے حکومت ہے اور وہاں انہیں صرف پندرہ سیٹیں ملی ہیں۔
محاذ کے سرکردہ رہنما محمد سلیم کا کہنا ہے کہ پارٹی کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ ’مشکلیں بھی ہیں اور کئی طرح کے مسائل بھی لیکن ہماری جماعت میں اس کے لیے کسی ایک فرد کو ذمہ دار نہیں مانا جاتا اور ہم ان تمام وجوہات کا تجزیہ کریں گے۔
سینئر صحافی اکشے مکل بائیں محاذ کی سیاست پر کافی گہری نظر رکھتے ہیں اور سالوں سے بائیں محاذ کی سیاست پر لکھتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار کمیونسٹ پارٹیاں عوام کے مسائل سے بہت دور تھیں۔ پارٹی کے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نیوکلیر ڈیل پر ضرورت سے زیادہ انرجی خرچ کی گئی اور اس سے یہ پیغام گیا کہ کمیونسٹ منفی سوچ رکھتے ہیں۔
انتخاب میں شکست کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے بائیں محاذ کے رہنماؤں کی جلد ہی ملاقاتیں شروع ہوں گی۔ اطلاعات ہیں کہ محاذ اپنی پالیسیوں میں تبدیلیوں پر بھی غور کر سکتاہے۔ لیکن اکشے مکل کہتے ہیں کہ بائیں بازو کی پارٹیاں نظریاتی طور پر بڑی قدامت پسند ہوتی ہیں اس لیے یہ سب اتنی جلدی ممکن نہیں ہے۔ ’پارٹی میں زبردست تبدیلیوں کی ضرورت ہے، اس پر غور بھی ہوگا لیکن لیڈر کی تبدیلی مشکل ہے اور اگر ہوگی بھی تو اتنی جلدی ممکن نہیں ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق مغربی بنگال میں بایاں محاذ کی شکست کی اہم وجوہات ترقیاتی پروگرا موں کی کمی تھی اور کانگریس اور ممتا بنرجی کی جماعت ترنمول کانگریس کے اتحادنے بھی اس میں اہم رول ادا کیا۔ کیرالا اور مغربی بنگال میں کامیابی کے سبب ہی بایاں محاذ پھلتا پھولتا رہا اور اگر وہ ان علاقوں میں کمزور پڑتا ہے تو اس کا وجود بھی خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس دور میں عوام میں اپیل کے لیے بائیں بازو کی جماعتوں کو اپنی طرز سیاست اور نظریات میں اہم تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔
(بحوالہ ’’بی بی سی اردو‘‘)
Leave a Reply