
افغانستان کو حلوے سے بھری ہوئی پلیٹ سمجھنے والے ممالک کی کمی کبھی نہیں رہی۔ برطانوی سامراج نے اِسے تر نوالہ سمجھتے ہوئے ڈکارنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ سابق سوویت یونین کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ اور اب امریکا اچھی خاصی الجھن میں پھنسا ہوا ہے۔
امریکا نے افغانستان سے بوریا بستر باندھنے کی تیاری کرلی ہے۔ واحد سپر پاور ہے تو ایسے ہی تو نہیں نکل سکتا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں خاصی بھد اُڑے گی۔ ایسے میں معاملات مرحلہ وار نمٹائے جاتے ہیں۔ امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کو افغان سرزمین سے مکمل طور پر نکلنے کی تیاری کرتا ہوا پاکر جن ممالک کی رال ٹپک رہی ہے، اُن میں بھارت بھی شامل ہے، بلکہ سرِفہرست ہے۔
بھارت، امریکا اور دیگر ممالک ایک زمانے سے پاکستان پر الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ افغانستان میں زیادہ سے زیادہ ’’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کے لیے ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان چونکہ ہمسائے ہیں اور دونوں کے درمیان سرحد بھی خاصی طویل ہے اس لیے بھارت یا کسی اور کے ایسے الزام کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ دونوں ممالک مذہب، زبان، ثقافت اور نسل کے اعتبار سے غیر معمولی ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ایک زمانے تک دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت ویزا کی محتاج بھی نہیں رہی۔ ان تمام حقائق کو یکسر نظر انداز کرکے صرف یہ راگ الاپا جاتا رہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے حالات خراب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اب ایران اور بھارت مل کر افغانستان میں غیر معمولی وقعت پانے کی بھرپور کوشش اور تیاری کر رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد کی صورتِ حال میں پاکستان کے لیے مشکل حالات دیکھ کر بھارت نے افغانستان میں اپنی سفارتی موجودگی بھی بڑھائی اور افغان معاشرت و معیشت کا حصہ بننے کی اپنی سی کوشش شروع کی۔ مختلف ذرائع سے ملنے والی رپورٹس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ بھارت نے اب تک افغانستان میں تین ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ افغان معاشرے میں غیر معمولی اثر و نفوذ کے ذریعے بھارت اور بھارتیوں کے لیے بھرپور نرم گوشہ پیدا کیا جائے۔ تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کے لیے بھارتی قیادت نے افغانستان کے طول و عرض میں عوام کو رام کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ خاطر خواہ یا مطلوب نتائج آسانی سے مل سکیں گے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں امن مکمل طور پر اب تک بحال نہیں ہوسکا ہے۔ بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے میں بھارت یا کسی اور ملک کے لیے اپنے مفادات کو پروان چڑھانے کی کتنی گنجائش رہتی ہے یہ پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔
اب بھارت نے ایران کے ساتھ مل کر افغانستان میں بھرپور انداز سے قدم جمانے کی کوشش شروع کی ہے۔ اس حوالے سے بھارت، افغانستان اور ایران کے اعلیٰ حکام کے درمیان ۱۱ ستمبر کو کابل میں مذاکرات ہوئے ہیں۔ ان مذاکرات میں بھارت کی نمائندگی سیکرٹری خارجہ وجے گوکھلے نے کی۔ بھارت چونکہ افغانستان میں وسیع تر کردار چاہتا ہے اس لیے اس نے اقدامات بھی غیر معمولی نوعیت کے کیے ہیں۔ معروف اخبار ہندوستان ٹائمز کے ایک اداریے کے مطابق بھارت نے افغانستان کو ہتھیاروں کی فروخت پر عائد از خود پابندی بھی ختم کردی ہے اور اب اسے گن شپ ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مکمل انخلا کے بعد کے افغانستان میں پاکستان زیادہ آسانی سے قدم نہ جماسکے۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق افغانستان میں اسٹریٹجی کے اعتبار سے پاکستان کو بالادستی کے حصول سے روکنا اس وقت بھارت کی اولین ترجیح ہے۔ اس حوالے سے ایران کو بھی ساتھ ملالیا گیا ہے۔ ایران کی چاہ بہار بندر گاہ بھارتی زری تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ اس بندر گاہ کے ایک حصے کا کنٹرول بہت جلد بھارت کو دیا جانے والا ہے۔ اس کے بعد بھارت کے لیے افغانستان تک رسائی کی خاطر پاکستان کو بائی پاس کرنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔
سفارتی حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ بھارت نے حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سے جو مذاکرات کیے ہیں، ان کے بعد سیاست و سلامتی سے متعلق امور پر بھارت افغان آپریشنل گروپ کی میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ کے بعد ایران، افغانستان اور بھارت کے اعلیٰ حکام مل بیٹھے۔ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ و وزیر دفاع سے مذاکرات میں بھارت نے افغانستان کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بات ضرور کی ہے۔ بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے ہیں مگر اس حوالے سے متعدد الجھنوں کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کو کس طور منایا جائے۔ پاکستان سے ملحق صوبوں میں غیر معمولی طور پر متحرک سیاسی جماعتیں اور عسکری گروہ اپنی سرزمین پر بھارت کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے کچھ زیادہ رضا مند نہیں۔
افغانستان کے معاملے میں بھارت نے ایسی بے تابی دکھائی ہے کہ حالات و واقعات پر نظر رکھنے والوں کو حیرت ہوتی ہے۔ ایسی ہی کیفیت کے لیے غالبؔ نے کہا ہے ؎
عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ نگر ہونے تک
افغانستان میں قیادت کی سطح پر تو ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے مگر عوام کبھی بھارت کو ہر اعتبار سے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔ نئی دہلی کے بزرجمہر یہ نکتہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ انہیں ایسا لگ رہا ہے کہ امریکا اور یورپ کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں اُن کے لیے کوئی رکاوٹ رہے گی ہی نہیں۔ع
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
مہا راج اِتنی سامنے کی بات بھی سمجھ نہیں پارہے کہ ہر چمکیلی چیز سونا نہیں ہوتی۔ افغانستان سراب ہے۔ گرم ریت ہے جو دور سے سونے جیسی دکھائی دے رہی ہے۔ اب کون سمجھائے کہ افغانستان کی دلدل میں جو دھنسا وہ پھر نکل نہیں پایا۔ امریکا اور یورپ کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا اور اب وہ بوریا بستر لپیٹ کر اچھی خاصی ذلت کے ساتھ رخصت ہو رہے ہیں۔ معاملہ محض بڑی طاقتوں کا نہیں بلکہ سپر پاورز کا رہا ہے۔ سوویت یونین بھی سپر پاور تھی اور امریکا بھی سپر پاور ہے، مگر دونوں کو افغانستان سے بے نیل و مرام لوٹنا پڑا ہے۔ ایسے میں بھارت جیسی ابھرتی ہوئی طاقت کیا کرسکتی ہے اس کا اندازہ کوئی بھی بہت آسانی سے لگا سکتا ہے۔
افغانستان میں اپنے اثر و نفوذ کا دائرہ وسیع کرنے کی دُھن میں بھارت اپنا دامن کانٹوں میں پھنسانے کی طرف رواں ہے۔ ایران اُس کے ساتھ ہے۔ دونوں نے مل کر افغانستان کو میٹھے راگ سُنائے ہیں۔ یہ سب کچھ خطے میں کشیدگی کو ہوا دینے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ پاک بھارت تعلقات کشیدگی کا گراف بلند کرے گا اور برف پگھلانے کی تمام کوششیں بے اثر سی ہوکر رہ جائیں گی۔ بھارت کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی کہ افغانستان جیسے پاکستانی ہمسائے کے دامن میں سماکر وہ سفارتی سطح پر محض خرابیوں کی راہ ہموار کرے گا۔ اگر یہی عمل چین نے نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ شروع کردیا تو کیا ہوگا؟ اور پاکستان بھی تو بھارت کے ہمسایوں میں دلچسپی کا گراف بلند کرسکتا ہے۔ ایسے معاملات میں پاکستان کا ساتھ دینے والی بڑی طاقتوں کی بھی کمی نہیں۔ یہ سب کچھ دونوں ممالک کو ایک بار پھر عملی تصادم یعنی جنگ کی طرف بھی لے جاسکتا ہے۔
پاکستان کو ایک طرف ہٹاکر، اس کے خلاف فضا تیار کرکے بھارت نے افغانستان میں ’’سفارتی گہرائی‘‘ پیدا کرنے کی راہ چُنی ہے۔ یہ سفارتی گہرائی کہیں اُسے بھی امریکا اور سوویت یونین کی طرح نہ نگل لے۔ مشورے یا تجویز کے طور پر نئی دہلی کے پالیسی سازوں سے صرف اتنا کہا جاسکتا ہے ؎
انیسؔ! دم کا بھروسہ نہیں، ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
Leave a Reply