
امریکا او ریورپی یونین کی سرپرستی میں ایران کے خلاف قرارداد کی حمایت میں بھارت کے ووٹ نے جو ہلچل پیدا کردی تھی لگتا ہے کہ وہ تھم سی گئی ہے۔ مگر معاملہ ابھی بھی اپنی تمام پیچیدگیوں کے ساتھ موجود ہے۔۲۴ نومبر کو IAEA کے بورڈ آف گورنرز کا ایک اجلاس ۲۴ ستمبر کی قرارداد پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے منعقد ہورہا ہے۔ تو کیا بھارت دوبارہ ایران کی فہمائش کرنے کے لیے مغرب کا ساتھ دے گا؟
بڑی دلچسپ بات ہے کہ گو کہ گذشتہ قرارداد میں یہ بات مذکور ہے کہ ’’مملکتوں کے اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے کہ جوہری توانائی برائے پُرامن مقاصد کی نشوونما اور عملی اطلاق بشمول برقی قوت کی تیاری ان کے معاہداتی فرائض سے مربوط۔ ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو مدِنظر رکھا جانا چاہیے۔‘‘ امریکا اور یورپی یونین ایران کو اس کے اس حق کے استعمال کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔
اس کے بجائے ان کی قرارداد یہ کہہ رہی ہے کہ ’’بورڈ آف گورنرز یہ سمجھتا ہے کہ اعتماد کے فروغ کے پیش نظر ایران افزدوگی سے متعلق تمام سرگرمیاں معطل کردے۔ کسی کا اعتماد؟ ایران ہی کے خلاف اعتماد میں کیوں کمی محسوس ہورہی ہے؟ اور کیوں امریکا جس نے NPT معاہدہ پر دستخط نہیں کئے ہیں ایران کے خلاف فرمان جاری کررہا ہے جس نے NPT پر دستخط کردیے ہیں؟ ان تمام سوالات کا یہ صرف ایک جواب ہے ’’امریکا اور یورپی یونین کا نشۂ طاقت۔
IAEA میں روایتی طور پر اتفاقِ رائے سے فیصلے لیے جاتے ہیں۔ مگر اتحادیوں نے اس معاملہ پر محسوس کیا کہ مکمل اتفاقِ رائے ممکن نہیں ہے پھر بھی ایران کو دیوار سے لگانے کے لیے کہ وہ اختیارات کی حد سے تجاوز کررہا ہے انہیں زور تو لگانا ہی تھا لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ مکمل اتفاقِ رائے کے حصول میں وقت لگانے کے بجائے قرارداد کو ووٹوں کی قوت ہی سے آگے لایا جائے۔
بورڈ کے ۳۵ اراکین میں سے ۲۲نے ’’ہاں‘‘ ووٹ دیا غیرجانبدار تحریک NAM کے ۱۲ اراکین نے کسی بھی قسم کی رائے دینے سے گریز کیا صرف ایک جی دار ’’نہیں‘‘ وینزویلا کی جانب سے آیا جو جارج بش کے لیے کسی خوف سے کم نہیں۔
انہیں تعداد میں کسی ہمت افزاء اضافہ کے لیے بھارت کے ووٹ کی ضرورت نہیں تھی ان کے پاس پہلے ہی اکثریت تھی بتانا محض یہ مقصود تھا کہ قرارداد کے ذریعے نمائندہ کردار سامنے آجائے اور ایران کو ایک سبق مل جائے۔ لہٰذا امریکا نے بھارت کا بازو موڑ کر قرارداد کی حمایت کے لیے آمادہ کرلیا۔ اس کے برعکس پاکستان جو عملی طور پر ہر معاملہ پر امریکا کا مرہونِ منت رہتا ہے روس‘ چین‘ ملائیشیا ‘ جنوبی افریقا و دیگر کے ہمراہ ووٹ دینے سے باز رہا۔
اس امر کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ بھارت غیرجانبدار تحریک کے بانیان میں سے ہے اس کی بے اعتنائی نے کئی مبصرین کو حیران کیا۔اور یہ طرز عمل تحریک میں ایک بڑے شگاف کا واضح اشارہ بھی ہے اور سب سے زیادہ دھچکا ایران کو لگا۔ یہی نہیں بلکہ بھارت کے اندر بھی اس کے ووٹ نے عوامی شعور میں ابال پیدا کیا۔
ایک پریس بیان میں CPI(M) کے پولٹ بیورو نے IAEA میں بھارت کے اس قسم کے طرز عمل کی سختی سے مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے نتیجہ میں بھارت کے غیرجانبدار تحریک اور ترقی پذیر ممالک میں کردار کو بہت ٹھیس پہنچتی ہے۔
ناپسندیدگی کی لہر BJP اور اپوزیشن میں موجود کئی آزاد خیال گروپوں کو باہم قریب لے آئی ہے جسے سیاسی تجزیہ نگار یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ تنبیہ من موہن سنگھ کی حکومت کو پریشانی میں مبتلا کرسکتی ہے اگر ایران کی فہمائش کے حوالے سے امریکا کے اس اقدام کی حمایت بھارت جاری رکھتا ہے۔
ووٹ کے موقع کے بعد سے روس‘ چین اور بقیہ دیگر NAM اراکین ممالک کی طرح بھارت کا بھی نکتۂ نظر ہے کہ ایران کے معاملہ کو IAEA کے ڈھانچہ ہی میں سلجھانے کی کوشش کی جائے اور فیصلے اتفاق رائے سے کئے جائیں۔ ایران کا یہ حق ہے کہ NPT کے دستخطی ہونے کی حیثیت سے بین الاقوامی محفوظ اصولوں کے تحت نیو کلیائی ٹیکنالوجی میں ترقی حاصل کرے۔ درحقیقت جب ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر نے یہ سوال ایک انٹرویو میں اخبارات کے سیکریٹری خارجہ شیام سرن سے پوچھا تو موخر الذکر نے یہ تسلیم کیا کہ بھارت کا بھی یہ ہی نکتۂ نظر ہے۔ مگر انہوں نے وضاحت کی کہ بھارت اس مسئلہ کی ناکامی کے خدشہ کے پیشِ نظر معاملہ کے اطمینان بخش حل کے لیے تمام ممکنہ راستے دریافت کرنے کے لیے کافی وقت حاصل کرچکا ہے۔
پریم شنکر جھا ایک بھارتی تجزیہ نگار نے وکالت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے قرارداد کے مسودہ میں اس ’’معلومات‘‘ سے اتفاق نہیں کیا جس کے مطابق ایران نے ایجنسی کے دستور کی شق دواز دہم (ج) کے سیاقِ عبارت کی خلاف ورزی کی ہے اور ساتھ ہی ایران کی حیثیت بطور ’’بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ‘‘ کی تصویر کشی سے بھی اختلاف کیا ہے۔ اسی طرح قرارداد کے مضمون کی زبان شائستہ کرنے کے حوالے سے بھی بھارت کے خیالات کو مناسب جگہ دی گئی ہے لہٰذا جھا یہ کہتے ہیں ’’بھارت نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دے کر اس کھیل میں ٹھہرے رہنے کے حق کو حاصل کرلیا ہے تاکہ حتمی نتیجہ پر اپنا اثر ڈال سکے۔ ایک ’’نہیں‘‘ ووٹ یا غیرجانبداری اس کے احساسات اور تبصرہ کو غیر متعلق کردیتی۔
لیکن اس رائے میں بالکل وزن نہیں ہے۔ بھارت کے ’’متعلق‘‘ رہنے کی کسی بھی طور کیا ضرورت ہے؟ اور دو ماہ کے اس طویل وقفہ میں کیا حاصل کرلیا جائے گا؟
امریکا اس بات پر تُلا ہوا ہے کہ کسی طرح ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو ختم کروادے یا اسے کھینچ کر سیکورٹی کونسل میں لے آئے۔ باوجود اس کے کہ روس اور چین کی موجودگی میں کونسل ایران کو سزا نہیں دے سکے گی امریکا مستقبل کے امکان یعنی ایران کے خلاف فوجی کارروائی پر بحث کروائے گا جس طرح اس نے عراق کے معاملہ میں کیا ہے۔
بھارت ایران کے ساتھ تعلقات میں تنائو کے نتیجہ میں ممکنہ بُرے نتائج کو بخوبی جانتا ہے مثلاً ایران نے اسے خبردار کردیا ہے جون میں ہونے والی پانچ ملین ٹن کی LNG کا برآمدی سودا ختم ہوگیا ہے۔ گو کہ ایران نے۸ بلین ڈالرز کی رقم سے بچھائی جانے والی ۲۱۳۵ کلو میٹر طویل پائپ لائن کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے۔ بھارت کے وزیر پیٹرولیم مانی شنکر آئر ابھی بھی پُرامید ہیں ان اشتباہات کے باوجود کہ اس پراجیکٹ کی قسمت پر تالا لگ سکتا ہے۔ اور یہی نہیں بلکہ ایران میں چاہ بہار کی بندرگاہ کی تعمیر و ترقی میں بھارت کی شرکت دائو پر لگ سکتی ہے۔
نئی دہلی میں پالیسی سازوں نے ایران کو گڑھے میں دھکا دے کر امریکا کو خوش کرنے سے بیشتر اس اقدام کے نتیجہ میں ’’منفی پہلوئوں ‘‘کا ’’مثبت پہلوئوں‘‘ سے ضرور موازانہ کر رکھا ہوگا۔ مثلاً بھارت اس پائپ لائن پراجیکٹ کے حوالے سے بہت شائق نہیں تھا۔ اُسے سلامتی اور اقتصادی تشویش کا سامنا تھا یعنی پاکستان میں اس حوالے سے تخریب کاری کا اندیشہ اور قیمت کا زیادہ ہونا۔ اقتصادی مبصر چندر موہن کہتے ہیں ’’بھارت کو یہ گیس زیادہ سے زیادہ 2mmbto کے حساب سے درکار ہے مگر یہ اسے کم سے کم 3mmbto دستیاب ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم من موہن سنگھ نے جولائی میں واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی پائپ لائن ’’کئی اندیشوں‘‘ سے پُر ہے اور اس وقت ہم بالکل ابتدائی گفت و شنید کی حالت میں ہیں۔ لہٰذا بھارت کے پیشِ نظر امریکا سے نیو کلیائی سودا اس سے کہیں زیادہ منفعت بخش ہے۔
سیدھی سادھی بات ہے امریکا نے یہ کھلا پیغام دے دیا تھا کہ اگر بھارت نے آزادانہ موقف کا اظہار کیا تو امریکی کانگریس نیو کلیائی تعاون کے معاہدہ پر توثیق نہیں کرے گی۔ اسے امریکا اور ایران میں سے ایک دوست کا انتخاب کرناہوگا اور بھارت نے کھُلی آنکھوں کے ساتھ اول الذکر کا انتخاب کیا۔
کیا بھارت ایران کے خلاف امریکی منصوبوں سے باخبر نہیں ہے اور نہیں جانتا کہ گزشتہ پچاس سالوں سے دونوں کے درمیان رقیبانہ تعلقات ہیں۔۱۹۵۳ء میں CIA نے تخت الٹنے کا منصوبہ تیار کیا تھا جس کے تحت وزیراعظم محمد مصّدق کو نکال باہر کیا اور رضا شاہ پہلوی کا تخت بحال کیا گیا۔ مصّدق کو گھر میں نظر بند کردیا گیا جبکہ وزیر خارجہ سمیت اس کے چند قریبی ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
بعد ازاں ایرانیوں نے ردعمل کے طور پر تہران میں امریکی سفارتخانہ لوٹ لیا اور نذر آتش کردیا اور عملہ کو یرغمال بنالیا بالاخر رضا شاہ کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ ۱۹۸۰ء میں امریکا نے صدام حسین کو ایران پر حملہ کے لیے اکسایا جس کے نتیجہ میں قریباً آٹھ سال جنگ کے شعلے بھڑکتے رہے۔ ۳‘ جولائی ۱۹۸۸ء میں خلیج کو موجود امریکی بحری بیڑے نے بلااشتعال تہران بندر عباس۔ دبئی روٹ پر ایران ایئر کے ایک تجارتی ہوائی جہاز کو معمول کی پرواز کے دوران مار گرایا اور اب نوبت بہ ایں جارسید جارج بش نے ایران کو شیطانی طاقتوں کے ایک تہائی محور گردانتے ہوئے ایران پر جارحیت کا مکمل ارادہ کرلیا ہے۔
۲۶ ستمبر کو شائع ہونے والی ’’دی ٹیلیگراف‘‘ کلکتہ کی ایک رپورٹ نے مزید جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اس کے مضمون کے پانچویں پیراگراف کے مطابق ’’ایران کے سلسلہ میں وزیراعظم (بھارت) کے ووٹ کے حوالے سے خلیجی صورتحال ایک کلید کی حیثیت سے‘ ‘ وہ کہتا ہے ’’امریکا کی سرکردہ قیادت نے بھارتی ہم منصب قیادت کو یہ بتادیاہے کہ بش کی موجودہ میعاد کے خاتمہ سے قبل امریکا آئندہ چند ہفتوں میں ایران پر حملے کے منصوبے بناچکا ہے۔‘‘
وہ جنہیں بش کی دماغی کیفیت کا اندازہ ہے بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ نئی جنگ وہ واحد راستہ ہے جسے عبور کرکے بش حکمرانی کی تیسری مدت تک پہنچ سکتا ہے۔
یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ ایران پر حملہ کے نتیجہ میں کسی قسم کی قوتیں باہم متصادم ہوں گی مگر روسی وزیر خارجہ سرگئی لیفروف اور امریکی سیکریٹری آن اسٹیٹ کونڈا لیزارائس کے درمیان موخرالذکر کی ماسکو کے دورے کے دوران حالیہ جھڑپ سے کچھ اشارے ضرور ملتے ہیں۔
باہم ملاقات کے بعد ایران کے یورینیم کی افزدوگی کے حق کے بارے میں لیفروف نے کہا ’’NPT معاہدہ کے تمام اراکین کو یہ حق حاصل ہے‘‘ جواباً رائس نے کہا ’’یہ حق کا سوال نہیں… NPT محض حقوق گنوانے کا نام نہیں بلکہ ذمہ داری سے بھی منسلک ہے۔ یہ محض حقوق کا معاملہ نہیں بلکہ اس پہلو کو بھی دیکھنا ہے کہ آیا جوہری ایندھن کے استعمال کے سلسلہ میں ایران پر بھروسا کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔‘‘
امریکاکے اس عظیم تر منصوبہ پر کسی کردار کو ادا کرنے کے حوالے سے دستخط کردینے کے نتیجہ میں بھارت نے اونچی بازیاں کھیلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مگر بھارتی رویتاً بڑی جواری ہیں۔ کرک شیترا کے زمانہ میں پانڈوں نے اپنے حریف کورَووں کے ساتھ پانے کے کھیل میں اپنی مشترکہ بیوی درویتی کو بھی دائو پر لگادیا تھا اور ہار بھی گئے تھے۔ کیا تاریخ خود کو ہرائے گی؟
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی۔ ۱۹ نومبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply