
گزشتہ ماہ بھارت، امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے (کواڈ) چار ملکی اتحادکا پہلا سربراہی اجلاس منعقد ہوا، جس میں وزیراعظم نریندر مودی نے واضح پیغام دیا کہ اب بھارت عالمی منظرنامے خاص کر موجودہ سیکورٹی صورتحال میں مغرب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ مغرب سے اتحاد عالمی سطح پرغیر جانبدار بھارت کی پالیسی میں ایک نیا موڑ ہے۔ بھارت دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت طویل عرصے تک غیروابستہ ممالک میں شامل رہا اور اپنی اسٹرٹیجک خودمختاری کو برقرار رکھا۔ مگر اب ایشیا میں بدلتے طاقت کے توازن کے پیش نظر بھارت کی نظر اپنے قومی مفاد پر ہے۔ مسلسل امریکی کوششوں کے بعد اب بھارت مغرب کی جانب تیزی سے مائل ہورہا ہے۔ کواڈ واحد مغربی تنظیم نہیں جس سے بھارت جلد وابستہ ہوگیا، بلکہ نئی دہلی اگلے دنوں میں وسیع پیمانے پر مغربی فورمز میں شامل ہونے جارہا ہے، جس میں جی سیون اور فائیو آئیز شامل ہیں۔ برطانیہ نے بھارت کو دوسرے غیر رُکن ممالک آسٹریلیا اور جنوبی کوریا کے ساتھ موسم گرما میں لندن میں جی سیون اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ اگرچہ بھارت کو کئی برسوں سے جی سیون کے نچلی سطح کے اجلاسوں میں مدعو کیا جاتا رہا ہے، لیکن لندن اجلاس سے توقع ہے کہ ’’ڈیموکریسی گروپ آف ٹین‘‘ کے قیام میں مدد مل سکتی ہے۔
واشنگٹن چین پر مغربی انحصار کم کرنے کے لیے امریکا کے زیر قیادت ٹیکنالوجی اتحاد قائم کرنے کے مختلف منصوبے رکھتا ہے۔اس حوالے سے کواڈ سربراہی اجلاس میں دو باتوں پر اتفاق کیا گیا، ایک حساس ٹیکنالوجی پر ورکنگ گروپ قائم کرنا اور دوسرا جنوب مشرقی ایشیا کو ویکسین کی فراہمی کا اقدام، جس میں بھارت کو مرکزی کردار دیا گیا۔
یہ بھارت کی ویکسین ٹیکنالوجی میں مہارت اور اس کی امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ویکسین فراہمی کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار ہے۔ اکتوبر ۲۰۲۰ء میں بھارت نے جاپان، امریکا، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ہمراہ انٹیلی جنس شیئرنگ الائنس کے فائیو آئیز اجلاس میں بھی شرکت کی، جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واٹس ایپ اور ٹیلی گرام کی خفیہ مواصلات تک رسائی کے طریقوں پر گفتگو کی گئی۔ فائیو آئیز اتحاد بہت مضبوط ہے اور اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ بھارت فوری اس کا حصہ بن جائے، مگر فائیو آئیز ممالک اور بھارت کی انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مکمل تعاون کا امکان موجود ہے۔
حقیقت میں مغربی اداروں میں بھارت کی شمولیت نئی بات نہیں ہے۔ بھارت نے ۱۹۴۷ء میں برطانیہ کی زیر قیادت دولت مشترکہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ لیکن بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے یقینی بنایا کہ کسی بھی سیکورٹی کردار کی حامل عالمی اور علاقائی تنظیم میں شامل نہیں ہوا جائے۔ غیروابستہ ملک ہونے کی حیثیت سے کسی بھی فوجی اتحاد میں شمولیت بھارتی پالیسی کا اہم ترین نکتہ تھا۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی کے آخر میں چین کے ساتھ دوستی کی پالیسی میں ناکامی کے بعد نہرو نے امریکا کا رخ کیا۔ چین کے ساتھ طویل سرحدی کشیدگی اور ۱۹۶۲ء کی جنگ کے بعد نہرو نے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے بڑے پیمانے پر دفاعی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کینیڈی اور نہرو دونوں کی موت کے بعد نئی دہلی اور واشنگٹن کے مابین اسٹریٹجک تعاون کے امکانات تیزی سے کم ہوگئے۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں بھارت اور مغرب کے درمیان بہت زیادہ فاصلے بڑھ گئے۔ نئی دہلی ماسکو کے بہت قریب آگیا اور تیسری دنیا کا چیمپئن بن گیا۔ بھارت کی اندرونی سیاست اور مغرب سے تجارتی تعلقات کم کرنے کی وجہ سے نئی دہلی ماسکو سے قریب ہوتا چلا گیا۔ بہت سے لوگوں کا ۱۹۷۰ء کی دہائی میں کہنا تھا کہ امریکا کی مخالفت بھارت کے جینیاتی کوڈ کا حصہ ہے۔ بھارت نے سرد جنگ کے دوران اقوام متحدہ میں امریکا کے خلاف سوویت یونین سے بھی زیادہ ووٹ دیے۔ نئی دہلی اور واشنگٹن میں یہ خیال تقویت پکڑ چکا تھا کہ بھارت امریکا مخالفت ترک کرنے والا نہیں ہے۔ بھارتی خارجہ پالیسی کے بیشتر اسکالروں کا خیال تھا کہ اندرونی اور بیرونی طور پر بھارت مغرب سے ہمیشہ کے لیے الگ ہوجائے گا۔ لیکن پچھلی تین دہائیوں کے دوران بھارت کے بین الاقوامی تعلقات کی کہانی میں امریکا اور مغرب سے تعاون ایک سست لیکن مستقل عمل رہا ہے۔ کواڈ سربراہی اجلاس نہ صرف اس لمبے چکر کا خاتمہ ہے، بلکہ ایک اہم قدم بھی ہے۔
سرد جنگ کے اختتام پر بھارت نے معاشی اصلاحات کی تھیں۔ اس کے ساتھ بھارت کے سپر پاور دوست سوویت یونین کا خاتمہ بھی ہوگیا۔ جس کے نتیجے میں نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کی تجدید کے لیے بنیاد فراہم ہوگئی۔ لیکن جب ۱۹۹۰ء کی دہائی میں تجارتی اور باہمی تعلقات گہرے ہونے لگے تو واشنگٹن کی کشمیر کے بارے میں سرگرمیوں اور مغرب کی بھارت کو ایٹمی ہتھیاروں سے دور رکھنے کی بے تابی نے نئی دہلی کو پریشان کردیا۔ اندرونی اضطراب اور کمزور اتحادی حکومتوں کے دور میں نئی دہلی ماسکو اور بیجنگ کے ساتھ اسٹریٹجک مثلث میں شامل ہوگیا، جس میں برازیل اور جنوبی افریقا کو شامل کرکے برکس فورم تشکیل دیا گیا۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ۲۰۰۰ء کی دہائی میں کشمیر پالیسی میں تبدیلی، نئی دہلی اور اسلام آباد سے تعلقات کو الگ رکھنا اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کو نظر انداز کرکے بھارت کے بارے میں امریکی پالیسی میں انقلابی تبدیلی کردی۔ بش نے تسلیم کیا کہ ایشیا میں طاقت کے مستحکم توازن کے لیے بھارت بہت اہم ہے، کیونکہ چین تیزی کے ساتھ پورے ایشیا پر چھا رہا ہے۔ لیکن جب واشنگٹن نئی دہلی کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی کے لیے تیار تھا تو بھارت خوداعتمادی میں کمی کی وجہ سے کوئی قدم نہیں اٹھا سکا۔ حالانکہ ۱۹۹۸ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے دلیری کے ساتھ بھارت اور امریکا کو قدرتی اتحادی کہا تھا، اس وقت نئی دہلی میں کوئی بھی واشنگٹن میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔
واجپائی کے جانشین من موہن سنگھ نے ایک بار پھر غیروابستہ اتحاد کو بحال کرتے ہوئے امریکا سے فاصلہ اختیار کیا اور اسٹریٹجک خودمختاری کے اصول پر دوبارہ عمل شروع کردیا۔ یہاں تک کہ جب ۲۰۰۸ء کے بعد بھارت اور چین کشیدگی میں اضافہ ہوا اور عالمی مالیاتی بحران نے چینی قیادت کو یقین دلادیا کہ امریکا زوال پذیر ہے تو بیجنگ نے ہمسایہ ممالک کی جانب زیادہ جارحانہ انداز اپنا لیا۔ پھر بھی من موہن سنگھ نے امریکا کی مخالفت جاری رکھی۔ ۲۰۱۴ء میں وزیراعظم بننے کے بعد نریندر مودی نے واشنگٹن کے ساتھ گہری شراکت داری کے لیے نئی دہلی کی پالیسی کو تبدیل کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے امریکی کانگریس سے ۲۰۱۶ء کے خطاب میں کہا تھا کہ امریکا سے شراکت داری کے لیے بھارت کی تاریخی ہچکچاہٹ ختم ہوچکی ہے۔ درحقیقت یہ محض بیان بازی نہیں تھی۔ مودی نے ۲۰۰۸ء کے تاریخی بھارت امریکا جوہری معاہدے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کردیا۔ ۲۰۰۵ء کے دفاعی تعاون کے معاہدے کی تجدید کی۔ کچھ بنیادی دفاعی معاہدے بھی کیے گئے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کی مسلح افواج کے درمیان تعاون آسان بنایا گیا۔ انہوں نے سالانہ مالابار مشقوں کو توسیع دی، جس میں ۲۰۱۵ء میں جاپان اور ۲۰۲۰ء میں آسٹریلیا نے بھی شرکت کی۔ ۲۰۱۷ء میں غیر فعال کواڈ کی بحالی میں مدد کی، ۲۰۱۸ء میں آزاد انڈو پیسیفک خطے کے حوالے سے اپنی حکمت عملی سامنے لائے اور ۲۰۲۱ء میں کواڈ سربراہی اجلاس میں شریک ہوئے۔
امریکا کے ساتھ تعلقات کے علاوہ مودی نے دولت مشترکہ کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو بحال کیا، یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کیا، یورپ کے کثیرالجہتی اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے بھارت کو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے حل کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔ عالمی انٹرنیٹ گورننس میں کثیر اسٹیک ہولڈر کی پالیسی کی حمایت کی۔ فرانس کے ساتھ عالمی شمسی اتحاد، بحرالکاہل اور بحرہند میں شراکت داری کا آغاز کیا اور اس کو مزید مستحکم بنانے کو تیار ہے۔ مودی کا اگلے ماہ بھارت میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے ملاقات میں اسٹریٹجک شراکت داری کی بنیاد رکھنے کا ارادہ ہے۔ ان میں سے ہر اقدام بھارت کی سیاسی کلاس، بیورو کریٹک اسٹیبلشمنٹ اور خارجہ پالیسی کی غالب جبلتوں کے خلاف تھا۔
اس حوالے سے دو عوامل نے سہولت فراہم کی ہے۔ سب سے پہلے تو مغرب مخالف قوم پرست مودی کے سامنے کمزور تھے۔ یہ قوم پرست مودی کی پارٹی میں بھی موجود تھے، اس لیے ان سے نمٹنا آسان تھا۔ مودی کا امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا فیصلہ خالص قومی مفاد کے لیے تھا۔ دوسرا اہم کردار بل کلنٹن، جارج بش، براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کو جاتا ہے، جنہوں نے مسلسل نئی دہلی کے مغرب مخالف رویے پر اسٹریٹجک تحمل کا مظاہرہ کیا۔ بائیڈن اب اسی میراث کو آگے لے کر چلنے کے لیے پُرعزم نظر آتے ہیں۔ اگرچہ نئی دہلی اور واشنگٹن دونوں انکاری ہیں کہ کواڈ ایک فوجی اتحاد ہے، لیکن یقینی طور پر یہ اتحاد بھارت کو مغرب کے ساتھ سیکورٹی اتحاد میں بہت آگے تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگرچہ بھارت نے ۱۹۷۱ء میں سوویت یونین کے ساتھ ایک اتحاد کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، لیکن بنگلا دیش کی پاکستان سے علیحدگی اور بحران کے خاتمے کے بعد وہ اس اتحاد سے پیچھے ہٹ گیا۔ اگر بھارت ایک لمحے کے لیے اتحادوں میں شمولیت سے انکار کر بھی دیتا ہے تو بھی مختلف مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا اب نئی دہلی میں ممنوع نہیں ہے۔
بھارت امریکا کے موجودہ یورپی اور ایشیائی اتحادیوں کے مقابلے میں مختلف شراکت دار ثابت ہوگا۔ بھارت انڈو پیسفک خطے میں باہمی مفاد کی بنیاد پر امریکا کا سیکورٹی بوجھ اٹھانے کو تیار ہے۔ بھارت کے رقبے اور صلاحیتوں کے پیش نظر ایشیا کو محفوظ بنانے میں بھارت کی شراکت انتہائی اہم ثابت ہوسکتی ہے۔ درحقیقت آزاد انڈو پیسفک خطہ کواڈ کا بنیادی مقصد ہے۔ اسی لیے امریکا، جاپان اور آسٹریلیا بحرہند اور بحرالکاہل کے حوالے سے بھارت کو اتحاد میں شامل کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ اگر ہم بھارت کی تاریخ دیکھیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران اتحادیوں کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا، پہلی جنگ عظیم کے دوران دس لاکھ اور دوسری جنگ عظیم کے دوران بیس لاکھ سے زیادہ فوجیوں نے بھارت سے حصہ لیا۔ بہرحال اس وقت بھارت آزاد ملک نہیں تھا اور مطلوبہ نتائج کا حصول، فوجیوں اور وسائل کے حوالے سے فیصلہ نہیں کرسکتا تھا۔
اتحادیوں کی فتوحات میں بھارت کا نتیجہ خیز کردار دوسری جنگ عظیم کے بعد نئے عالمی منظرنامے کی تشکیل میں نئی دہلی کے مغرب کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی وجہ بن سکتا تھا۔ لیکن برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں کی تنگ نظری، ان کی جنگ کے دوران بھارت کی قومی تحریک کے ساتھ شدید محاذ آرائی، برصغیر کی تقسیم، پاکستان کی طرف اینگلو امریکن جھکاؤ، نہرو کی مغرب سے دوری کی پالیسی اور نئی دہلی کی معاشی پالیسی کی وجہ سے مغرب سے اتحاد کے حوالے سے پیش رفت نہیں ہوسکی۔ کواڈ کے ذریعے ممکن ہے کہ ہم مثالی تعلقات قائم کرنے کے قریب ہوں۔اس میں ایک لمبا عرصہ لگا ہے، لیکن بھارت اس وقت مشرق میں مغرب کے لیے قدرتی شراکت دار کی حیثیت سے دوبارہ سامنے آسکتا ہے۔ اس وقت بہت مضبوط بھارت امریکا اور اس کے اتحادیوں سے بات چیت کررہا ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“India Romances the West”.(“Foreign Policy”. March 19, 2021)
Leave a Reply