بنگلہ دیش کے تمام دریائوں کا مآخذ بھارت میں ہے۔ ان میں گنگا، جمنا اور برہم پُترا نمایاں ہیں۔ یہ دریا چونکہ بھارت کی ریاستوں سے گزر کر بنگلہ دیش میں داخل ہوتے ہیں اس لیے پہلے ان کا پانی بھارت کے تصرف میں رہتا ہے۔ عالمی قوانین اور معاہدوں کے مطابق بھارت کا فرض ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو آبی ذرائع سے محروم نہ رکھے۔ اسے دریائوں کے رُخ موڑنے کا بھی کوئی اختیار نہیں۔
یورپ میں ڈینیوب، شمالی امریکا میں مسی سپی، وسط ایشیا میں دریائے آمو، مشرقِ بعید میں میکونگ اور افریقا میں دریائے نیل کئی ممالک سے گزرتے ہیں اور ان کے پانی پر سب کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔
مگر برصغیر کا معاملہ مستثنیٰ ہے۔ ہمالیہ سے نکلنے والے دریا بھارت کی حدود سے گزرتے ہیں اور بھارت ان پر ازخود اپنا حق بڑھا بیٹھا ہے۔ بھارت نے ہُگلی اور بھاگی راٹھی میں دریائے گنگا کا پانی روک کر بنگلہ دیش کی حق تلفی کی ہے۔ بھارت اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ کلکتہ کی بندرگاہ ہر موسم میں چلتی رہے، کشتی رانی اور تجارت نہ رکے۔ ۱۹۶۱ء میں فرخا ڈیم کے قیام کا منصوبہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا، تب پاکستان کی حکومت نے فرخا ڈیم کے حوالے سے اعتراضات کیے تھے۔ بات چیت بھی ہوئی، پھر ۱۹۷۴ء میں بنگلہ دیشی حکومت نے بھی بھارت سے فرخا ڈیم کے بارے میں مذاکرات کیے۔ ۱۹۷۴ء میں بیراج تیار ہوا تو بھارتی حکومت نے اسے آزمائشی بنیاد پر فعال کرنے کے لیے بنگلہ دیش سے سمجھوتہ کیا۔ اپریل ۱۹۷۵ء میں فرخا بیراج آزمائشی بنیاد پر چھ ہفتہ کے لیے کھولا گیا مگر پھر عشروں تک بند نہ ہوا۔
بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ فرخا بیراج کے فعال ہونے سے بنگلہ دیش کو دریائی نقل و حمل، زراعت اور ماحول کے حوالے سے غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کھلنا اور راج شاہی کے اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
فرخا لانگ مارچ
جب بھارت نے فرخا کے مقام پر دریائے گنگا کا رُخ موڑا تو بنگلہ دیش میں لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ مولانا عبدالحمید خاں بھاشانی کی قیادت میں لانگ مارچ ہوا جس میں حصہ لینے کے لیے ملک بھر سے لوگ آئے۔ ۱۶؍ مئی ۱۹۷۶ء کو عبدالحمید بھاشانی نے چپائی نواب گنج میں ہزاروں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ بنگلہ دیش کو اس کے حصے کا پانی دے۔ ساتھ ہی انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ اس مسئلے کو عمدگی سے حل کرنے کے لیے تمام سفارتی ذرائع بروئے کار لائے۔ آبی امور کے ماہر بی ایم عباس کی کوششیں رنگ لائیں اور بھارت نے ۱۹۷۷ء میں دریائے گنگا کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے بنگلہ دیش سے پانچ سالہ معاہدہ کیا۔ معاہدے کی بعد میں توسیع بھی ہوئی مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش اپنے حصے کے پانی سے محروم ہی رہا۔
ٹیسٹا پر کوئی معاہدہ نہیں!
پاکستان چاہتا تھا کہ دریائے ٹیسٹا کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے بھی کوئی معاہدہ جلد ازجلد طے پا جائے۔ ۱۹۵۵ء میں پاکستان نے اس حوالے سے بھارت پر دبائو ڈالنا شروع کیا۔ بھارت نے عادت اور روایت کے مطابق ٹال مٹول سے کام لینا شروع کیا اور مواد جمع کرنے کا بہانا تراشا۔ بھارت نے (سابق) مشرقی پاکستان کے شمال میں واقع دریائے ٹیسٹا کا پانی دریائے مہانندا میں ڈالنا شروع کیا۔ ۱۹۸۳ء میں بھارت اور بنگلہ دیش نے عبوری معاہدے کے ذریعے طے کیا کہ دریائے ٹیسٹا کا ۳۶ فیصد پانی بنگلہ دیش، ۳۹ فیصد بھارت کو ملے گا اور ۲۵ فیصد ذخیرہ کاری کے لیے استعمال ہوگا۔ خشک سالی کے زمانے کے لیے ذخیرہ کیا جانے والا پانی بھی بالآخر بھارت ہی کے حصے میں آتا تھا۔ بنگلہ دیش نے دریائے ٹیسٹا کے حوالے سے طویل المیعاد معاہدہ کرنا چاہا مگر بھارت اس کے لیے آمادہ نہ ہوا۔ گزشتہ ستمبر میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے ڈھاکا کے دورے میں وعدہ بھی کیا مگر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ رنگ پور کے مقام پر دریائی پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے جس کے نتیجے میں رنگ پور ہی نہیں بلکہ پبنہ اور بوگرا میں بھی دریائی نقل و حمل، زراعت اور قدرتی ماحول کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
سال ۲۰۰۹ء کے وسط میں ڈھاکا میں متعین بھارتی ہائی کمشنر نے اپنی حکومت کے جانب سے طے شدہ ’’ تِپائی مُکھ‘‘ (Tipaimukh) منصوبے کے بارے میں اعلان کیا کہ اِس منصوبے پر عمل درآمد کیا جا ئے گا ۔ یہ منصوبہ بنگلہ دیش۔ بھارت کی سرحد سے شمال مشرق میں ۱۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر بننا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اِس پر زبردست ردعمل کا اِظہار کیا۔ وہ اِس بات پر مکمل طور پر یکسو ہیں کہ اِس منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد بنگلہ دیش کے شمال مشرقی علاقے میں بے پناہ تباہی و بربادی ہوگی ،جس کے مقابلے میں فرخا بیراج کی وجہ سے جو بربادی ہوئی ہے وہ کچھ بھی نہیں۔لوگوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اِس معاملے پر یکسوئی کے ساتھ اور بھرپور توانائی کے ساتھ بھارتی حکومت کو مجبور کرے کہ وہ اِس منصوبے پر عمل درآمد کرنے سے با ز رہے۔بنگلہ دیشی حکومت نے ایک وفد بھارت بھیجا جس نے بھارتی افسران سے بات چیت کرنے اور منصوبے کی جگہ کا معائنہ بھی کرنا تھا۔اِس وفد میں اراکین پارلیمینٹ بھی شامل تھے لیکن اُن میں سے کوئی بھی نہ تو انجینیئر تھا اور نہ ہی آب پاشی کے اُمور سے واقف تھا۔ وفد بھارت تو گیا لیکن منصوبے کی جگہ کا معائنہ نہیں کر سکا کیونکہ موسم کی خرابی کی وجہ سے ممکن نہ تھا۔واپسی پر وفد نے اپنی رپورٹ تو پیش کر دی لیکن کسی کو نہیں معلوم کہ وفد کن نتائج تک پہنچاکیونکہ اِس رپورٹ کو عوام کی آگاہی کے لیے شائع ہی نہیں کیا گیا۔وفد کے کچھ اراکین نے لوگوں کے اِن خدشات کو ماننے سے انکار کردیا ہے کہ اِس منصوبے سے بنگلہ دیش کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔بھارتی ہائی کمشنر نے مزید کہا کہ یہ مجوزہ منصوبہ بہر صورت ’’فرخا بیراج‘‘ سے مختلف ہے اور اِس کے نتیجے میں دریائے بارک (Barak) کے پانی کا رُخ نہیں موڑا جائے گا۔اِس منصوبے کا مقصد تو صرف پانی کا بند باندھ کر اس پر بجلی گھر کی تعمیر کرنا ہے۔جس پر بنگلہ دیشی سیاست دانوں اور افسران نے سکھ کا سانس لیا۔
تپائی مکھ منصوبے کی تفصیلات
بھارت نے ۲۰۰۳ء میں تپائی مکھ کے مقام پر ہائیڈل پروجیکٹ کی تیاری شروع کی۔ ۳۹۰ میٹر لمبے اور ۱۶۳ میٹر بلند اس ڈیم سے بھارت نے ۱۵۰۰ میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کی پیش گوئی کی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے ۴۰۰ میگاواٹ سے زائد بجلی حاصل نہیں کی جاسکے گی۔ اس ڈیم کے ذریعے بھارت سالانہ ۱۵ ارب مکعب فٹ سے زائد پانی ذخیرہ کر سکے گا۔ بنگلہ دیش کو دریائی سرما، دریائے کشیرا اور دریائے میگھنا میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سونام گنج، کشورگنج، ہابی گنج اور نیٹروکنا میں بھی پانی کی سطح خطرناک حد تک گرے گی۔ دریائے کشیرا اور دریائے سرما سے جڑے ۱۲ چھوٹے دریائوں میں بھی پانی کی سطح گرنے کا خدشہ ہے۔ دریائی نقل و حمل، زراعت اور قدرتی ماحول کو اس تبدیلی سے شدید نقصان پہنچے گا۔
بھارتی حکومت نے تپائی مکھ ڈیم کے لیے تعمیراتی اداروں سے معاہدے بھی کیے ہیں۔ اس خبر پر ڈھاکا میں عوام نے شدید احتجاج کیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی کہ اس ڈیم کی تعمیر سے بنگلہ دیش پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوگا۔ اس یقین دہانی سے کوئی فائدہ متوقع نہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم نے دو مشیروں کو دہلی بھیجا تاکہ بھارتی حکومت کو بنگلہ دیشی عوام کے جذبات سے آگاہ کیا جاسکے۔ بھارتی قیادت نے احتجاج مسترد کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کی کہ بنگلہ دیش بھی اگر منصوبے میں سرمایہ لگائے تو اسے فائدہ پہنچے گا! بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ اور پھر وزیر خارجہ نے بھی بھارتی قیادت کی بات پر یقین کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں آبی امور کے ماہرین ہیں؟ اگر نہیں تو پھر انہوں نے یہ کیسے مان لیا کہ جو کچھ بھارتی قیادت کہہ رہی ہے وہ بنگلہ دیش کے مفاد میں ہے؟ اس معاملے میں بھارتی قیادت کی بات درست مان کر ان دونوں عہدیداروں نے اپنی اہلیت کے حوالے سے شکوک پیدا کر دیے ہیں۔
کیا بھارت پر اعتبار کیا جاسکتا ہے؟
کیا ایسے اسباب موجود ہیں کہ جن کی بنا پر بھارتی سیاست دانوں اور افسران پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ انھوں نے اپریل ۱۹۷۵ء میں ’’فرخا بیراج‘‘ کے افتتاح کے موقع پر یہ کہا تھا کہ اِس پر صرف ۶ ہفتوں تک کام ہوگا لیکن اس کے بعد دہائیوں سے منصوبہ جاری ہے اور پانی کا رُخ موڑ دیا گیا ہے۔دریائے گنگا میں اِس کی وجہ سے جو بے پناہ پانی کی کمی واقع ہوئی اُس کی بنا پر بنگلہ دیش کو زراعت، کشتی رانی اور دیہات میں ہر شعبہ زندگی بشمول اقتصادی سرگرمیوں کے بے پناہ نقصانات ہو چکے ہیں اور جس کی وجہ سے شمال مغربی بنگلہ دیش کو اربو ں امریکی ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔بنگلہ دیش اور بھارت نے ۱۹۷۳ء میں ایک معاہدہ دوستی اور باہمی تعاون پر دستخط کیے تھے جو ایک لمبے عرصہ کے لیے کیا گیا تھا۔لیکن بنگلہ دیش میں سیاسی حالات کی تبدیلی کے فوری بعد بھارت نے ایک بار پھر شورش پسندوں کو فوجی تربیت اور اسلحہ دینا شروع کردیا ۔ بھارتی محافظ افواج کی نگرانی میں اِن شورش پسندوں نے بنگلہ دیش میں بھارتی اسلحہ کے زور پر زیر زمین کارروائیاں شروع کردی تھیں جو کہ معاہدہ دوستی و باہمی تعاون کی جان بوجھ کر خلاف ورزی تھی۔
بھارت نے بنگلہ دیش۔بھارت کی سرحد پر باڑیں لگانا شرع کردیں۔ BSF کے تعاون سے بھارتی گھس بیٹھیوں نے بنگلہ دیش میں بہت اندر آکر اپنی مجرمانہ کارروائیاں کیںیعنی فصل اُتار کر لے گئے اور جانور اُٹھالیے۔ جو لوگ باڑ کے قریب سے گزر رہے تھے ان پر BSF نے گولیاں چلائیں جس کی وجہ سے ۷۴ بنگلہ دیشی شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ ۷۲ شہری زخمی ہوئے اور ۴۳ کو اغوا کر لیا گیا ، یہ کارروائیاں صرف سال ۲۰۱۰ ء کے دوران ہوئیں۔چند ماہ پیشتر ایک نوجوان لڑکی کو BSF نے قتل کردیا اور اس کی لاش کئی گھنٹوں تک باڑ پر لٹکی رہی ،جس کے بعد بنگلہ دیشی حکام کو اس کی لاش دی گئی۔بھارتی حکومت و انتظامیہ کے مختلف حلقوں سے ضمانتیں دی گئیں وہ سب زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں کیونکہ حالات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔بھارت کے مختلف علاقوں اور پہاڑوں سے تقریباً ۵۲ دریا نکلتے ہیں جو بنگلہ دیش سے گزرکر سمندر میں مل جاتے ہیں۔بھارت نے ان تمام دریاؤں پر بند باندھ رکھے ہیں جس کی وجہ سے پانی کا رُخ موڑ دیا گیا ہے اور مسلسل بھارت ان دریاؤں کے پانی کو اپنے استعمال میں لا رہا ہے۔ ضرورت کے وقت بنگلہ دیش کو اپنی ضروریات کے مطابق دریاؤں سے پانی دستیاب نہیں ہوتا جب کہ موسم باراں میں بھارت بند کھول دیتا ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کو سیلا ب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بھارت نے اب تک نہ صرف متحدہ دریائی کمیشن اور دیگر اداروں کی جانب سے پیش کیے خدشات کو نظر انداز کیا ہے ۔ یہ تما م اس معاہدہ دوستی و باہمی تعاون کی صریحی خلاف ورزی ہے۔
دوستی ٹھکانے لگ گئی؟
بھارت نے بنگلہ دیش سے ۱۹۷۳ء میں دوستی اور وسیع تر تعاون کا معاہدہ کیا۔ مگر جب بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام کی لہر اٹھی اور حکومتیں تیزی سے تبدیل ہونے لگیں تو بھارت نے دوستی کے معاہدے کو نظرانداز کر کے بنگلہ دیش میں منحرفین کو رقوم اور اسلحہ دینا شروع کر دیا۔ یہ منحرفین یا باغی بنگلہ دیش کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔ ایک طرف تو بھارت نے آبی وسائل کی چوری جاری رکھی اور دوسری طرف سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کے امور میں مداخلت شروع کر دی۔ سیکولرازم کی آڑ میں بھارت انتہائی تنگ نظر اور فرقہ پرست ملک بن کر ابھرا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ کی شکل میں جنونی ہندوئوں کا سامنا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں جنونی ہندوئوں نے مرکزی حکومت کی تائید و حمایت سے ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد شہید کردی۔
بھارت میں ایسے دانشوروں اور صحافیوں کی کمی نہیں جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ ایسے باضمیر لوگوں میں ارون دھتی رائے نمایاں ہیں۔ انہوں نے اقلیتوں پر ہندو اکثریت کے مظالم تواتر اور توجہ سے بے نقاب کیے ہیں۔ ہندو ان سے ناراض ہیں اور اب وہ اپنے ہی ملک میں ناپسندیدہ شخصیت قرار پائی ہیں۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں اور عوام کے جذبات کو نظرانداز کر کے انہیں اپنی مرضی کا پابند بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
کشمیری کینیڈین کونسل نے تصدیق کی ہے کہ ۱۹۸۹ء سے مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کے دوران ۴۸۴۵۵ ؍افراد کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ ممبئی ہائی کورٹ کے سابق جج ایچ شرما کی سربراہی میں قائم دی انڈی پینڈنٹ پیپلز ٹریبونل نے بھی کشمیر میں بڑے پیمانے پر قتل عام کی تصدیق کی ہے۔ ٹریبونل نے اس امر کی بھی تصدیق کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لاپتا ہونے والوں کے لواحقین کو عشرے گزرنے پر بھی انصاف نہیں ملا اور انہیں عدالتوں نے معاوضے کی ادائیگی سے متعلق بھی کوئی حکم نہیں دیا، لوگ عدالتوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ اور ایک مقبوضہ کشمیر پر کیا موقوف ہے، بھارت کی قیادت نے مدھیاپردیش، آسام، ناگالینڈ اور میزورم میں بھی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو سختی سے کچلا ہے۔
بھارت کی تسلط پسندی کا شکار ہونے والا بنگلہ دیش واحد ملک نہیں۔ سری لنکا میں بھی بھارت نے تامل علیحدگی پسندی کو ہوا دی، تامل باغیوں کو فنڈ اور اسلحہ فراہم کیا گیا۔ ۲۵ سال سے زائد جاری رہنے والی خانہ جنگی میں ۶۰ ہزار سے زائد افراد مارے گئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔
بھارتی قیادت نے ۱۹۹۱ء میں نیپال کو دی جانے والی سفری سہولت ختم کر دی۔ نیپال کی بیرونی تجارت کلکتہ کی بندرگاہ کے ذریعے ہوتی ہے۔ بھارتی اقدام سے نیپال کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوئیں۔ بعد میں عالمی برادری کے شدید دبائو پر بھارت نے نیپال کے لیے ٹرانزٹ کی سہولت بحال کی۔
پاکستان کے بارے میں بھارت کا رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بھارت میں جب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ سکم پر دبائو ڈال کر بھارت نے اُسے اپنی یونین میں شامل کرلیا۔ کلدیپ نائر نے بارہا بھارتی قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پڑوسیوں سے محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت، دوستی اور اشتراکِ عمل کی روش پر گامزن ہو تو زیادہ فائدہ پہنچے گا مگر اس تجویز کو ہمیشہ مسترد کر دیا گیا ہے۔
بھارتی قیادت نے بنگلہ دیش کو بارہا دھوکا دیا ہے، اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ مزید دھوکا نہیں کھایا جاسکتا۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ بھارت سے تمام معاملات پورے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے نمٹانے کی کوشش کی جائے اور اس کی کسی بات پر غیر ضروری بھروسہ نہ کیا جائے۔ اس معاملے میں بنگلہ دیش میں تمام سیاسی جماعتوں کا اتحاد ناگزیر ہے۔ بھارت ہمارے اندرونی عدم استحکام اور ضعف کا فائدہ اٹھاتا رہا ہے۔ ۱۶ کروڑ نفوس پر مشتمل قوم اپنے مفادات کے لیے متحد ہو تو بھارت کو بات سننا پڑے گی۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ہالیڈے‘‘ بنگلہ دیش۔ ۲۰ جنوری ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply