
۱۵۰۱ء میں فلپ کورپورٹ ملی کہ جب تک اسلامی زبان (عربی) کے مدرسے اور کتابیں باقی رہیں گی اسلامی معاشرت بھی باقی رہے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق عربی کو اسپین سے مٹانے کا فیصلہ کیاگیا۔
کرونیا کیسیمین نے ساری عربی کتابوں کا ایک انبا ر جو صدیوں کی محنتوں کا نتیجہ تھا ایک جگہ جمع کرکے جلادیا۔ پچاس سال تک عربی کا کوئی جملہ بولنا، عربی کا کوئی نام رکھنا، عربی کی کتاب کا اپنے پاس رکھنا جرم رہا، لاکھوں لوگ اپنے عربی نام تبدیل کرنے پر رضامند نہ ہوئے تو جِلاوطن کردیے گئے بالآخر اس کوشش وجدوجہد کے بعد عربی کا نام ونشان یورپ سے مٹ گیا۔ (تاریخ اندلس سے)
آزادی کے بعد ہندوستان میں یہ رویہ تو نہیں اپنایاگیا کیونکہ وہ ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں ایسے اقدامات کی بظاہر گنجائش نہیں ہوتی، پھر بھی نہایت کوشش ومہارت سے یہ ضرور کیاگیا کہ نئی نسل اردو اور اس کے پورے قیمتی ورثہ سے بے بہرہ ہوکر رہ جائے۔ لہٰذا برسوں کی محنت کے بعد آج دکھائی دیتا ہے کہ ہر سطح پر اردو کو نظرانداز کیاجارہا ہے۔ اس کی تعلیم کا سرکاری سطح پر معقول انتظام نہیں۔ اس کے اخباروں سے سوتیلا سلوک برتا جارہا ہے۔
گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران روا رکھے گئے اس سلوک کے نتیجہ میں آج حال یہ ہے کہ نئی نسل کا تعلق اپنے لسانی اورثقافتی ماضی، خصوصاً اردو زبان سے تقریباً منقطع ہوچکا ہے۔ آج سرکاری اسکولوں کے پرائمری درجات میں اردو کی تعلیم کا تقریباًخاتمہ ہوگیا ہے، درمیانی درجات میں اردو طلبہ کی تعداد تشویشناک حد تک محدود ہوگئی ہے اور اعلیٰ درجات سے جو طلبہ تعلیم حاصل کرکے نکل رہے ہیں ان کی صلاحیت مشکوک اور استعداد لائقِ تشویش ہے۔ نہایت مہارت کے ساتھ ملک میں نظامِ تعلیم ایسا نافذ کیاگیا ہے جس میں اردو پڑھنے کا نئی نسل کو موقع ہی نہیں ملتا، جس ’’سہ لسانی‘‘ فارمولے کا اعلان کیا گیا تھا اس میں اردو کی جگہ سنسکرت کو ملی اور اس طرح اردو پڑھنے والوں کے لیے طرح طرح کی دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں اور نفسیاتی طور پر بھی وہ اپنی زبان کو بے وقعت سمجھنے لگے ہیں جس کے پڑھنے میں انہیں کوئی اقتصادی فائدہ نظر نہیں آتا۔
اس پسِ منظر میں ریاست بہار کے بعد دہلی میں اردو کو دوسری صوبائی زبان کا درجہ ملنا کام نہیں آیا ہے، کیونکہ سرکاری کام اور اس کے طور طریقے اتنے بگڑ چکے ہیں اور جس انتظامیہ کے بَل بوتے پر حکومتوں کی پالیسیاں نافذ ہوتی ہیں وہ اتنی اردو دشمنی پر مبنی ہوگئی ہیں کہ دوسری زبان بننے کا بھی اردو زبان کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔
بلکہ تجربہ میں یہ بات آرہی ہے کہ اس طرح کے اعلانات یا کارروائیوں سے سیاسی واہ واہی لوٹنا مقصود ہوگیا ہے جو متعلقہ لوگوں کو مل جاتی ہے۔ اس کی دوسری شکل اردو کے حق میں وہ نعرے بازی ہے جو عموماً سیاست داں اردو مجلسوں، مشاعروں اور مذاکروں میں کرتے ہیں اور اس سے ان کا واحد مقصد اردو داں طبقہ کی ہمدردی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن عملی سطح پر اس لفاظی سے اردو کا کچھ بھلا نہیں ہوتا۔ اردو تحریک کی ایک بڑی کمزوری یہ بھی رہی ہے کہ اہل اردو نے حکومتِ وقت سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کررکھی ہیں، بلکہ منطقی دلیلوں پر بھی ان کی طرف سے بہت زیادہ زور دیاجاتا ہے۔ حالانکہ ان دونوں کی اہمیت وافادیت دن بدن محدود ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ اردو پہلے اس پر غور کریں کہ وہ خود کیا کر رہے ہیں۔
اردو کابنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اردو پڑھنے اور اردو میں دسترس حاصل کرنے کے بعد کسی کو روزی حاصل کرنے میں، فکرِ معاش میں اور اقتصادی زندگی کی جدوجہد یا مقابلے میں کسی طرح کی کمزوری،مجبوری اور دشواری نہ ہو یہی اردو کا معاشی مسئلہ ہے۔
جب تک حامیانِ اردو اور محبانِ زبان اس مقصد کو پیش نظر نہیں رکھیں گے یا اس کے حصول کے لیے عملی راہیں متعین نہیں کریں گے، محض بے ربط سرگرمیاں اور آہ وبکا کام آنے والی نہیں۔ سیکڑوں جلسوں اور کانفرنسوں کے باوجود اس ملک کی سماجی اور تہذیبی زندگی میں اردو بنیادی مقام حاصل نہیں کرسکے گی۔ اردو کی اقتصادی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف سمتوں میں سرگرم عمل ہونے کی ضرورت ہے۔ مثلاً اردو میڈیم اسکولوں کا قیام، جہاں اردو داں حضرات کو کام مل سکے۔ میونسپل کارپوریشنوں اور دیگر بلدیاتی اداروں میں اردو عملہ کاتقرر، جہاں بڑی تعداد میں اردو کے تعلیم یافتہ کھپ سکیں۔ جن اسکولوں اور کالجوں میں اردو کے اساتذہ کی اسامیاں برسوں سے خالی پڑی ہیں، حکومت کی جانب سے ان کو فوراً پُر کرانے کی جدوجہد وغیرہ۔ یہ کام اگر پوری یک جہتی اور یکسوئی سے انجام دیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس سمت میں کامیابی نہ ملے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اردوداں حضرات اپنا جائزہ لے کر یہ دیکھنے کی تکلیف گوارا کریں کہ انہوں نے خود اپنے گھروں میں اردو کو کس قدر نمائندگی دے رکھی ہے؟ کیا انہوں نے اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت میں اردو کا کوئی حصہ مقرر کیا ہے؟ یا جو والدین خود اردو جانتے اور سمجھتے ہیں، ان کے بچے بھی اردو سے اسی قدر واقف ہیں کہ فخر سے اسے اپنی زبان کہہ سکیں؟ اگر نہیں، تو یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ سرکاری ذرائع پر اردو کی تعلیم کا معقول انتظام ہونا چاہیے، اس میں اختلاف کی قطعی گنجائش نہیں۔
لیکن اس کارِ خیر کی ابتدا اپنے گھروں پر اردو پڑھانے سے ہوتو بنیادی طور پر اردو کے مطالبہ میں استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ایسے تمام والدین جو اردو لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں، اپنا وقت نکال کر خود اولاد کو اردو سے روشناس کرائیں اور ان کے پاس وقت ہو یا ان کی حیثیت اس قابل ہوتو معلم رکھ کر تعلیم کا نظم کرائیں۔ اگر وقت وحیثیت دونوں کے وہ مالک نہیں تو ایسے افراد کو دوسروں کے ساتھ مل کر بچوں کی اجتماعی تعلیم کا انتظام کرنا چاہیے۔ جہاں اردو سے تعلق رکھنے والے بکھرے ہوئے ہیں، وہاں محلے کے دوچار گھروں کے بچوں کے لیے اردو کی تعلیم کا انتظام کیاجاسکتا ہے۔ زیادہ نہیں تو اس کی ابتدا خواتین کے ذریعہ ہوسکتی ہے جو ان نونہالوں کی تعلیم میں ہمیشہ سے اہم کردار ادا کرتی آئی ہیں۔
☼☼☼
Leave a Reply